ایک اور ربیع الاوّل

ایک اور بارہ ربیع الاوّل آیا اور گزر گیا۔
ایک بار پھر ہم نے محبتِ رسولؐ کے تقاضے پورے کر دیے۔ اس مبارک دن کو عام تعطیل قرار دیا۔ نجی اور سرکاری عمارتوں پر چراغاں کیا۔ قیدیوں کو رہائی ملی۔ کچھ کی سزاؤں میں تخفیف ہوئی۔ جلوس نکالے۔ تقریریں کیں۔ اخبارات میں سیرتِ نبویؐ پر مضامین چھپے۔ الیکٹرانک میڈیا پر نعت خوانیاں ہوئیں! عالم فاضل افراد نے سیرت کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔ ایک دوسرے کو میلاد مبارک کے پیغامات بھیجے۔ ہم سے جو ہو سکا ہم نے کیا۔
تاہم‘ اس جشن میں‘ اس سارے عمل میں‘ ہم نے اپنی ذات کو شامل نہیں کیا۔ ہمارا ذہن اس میں شریک نہیں تھا۔ اس بارش میں ہم نے کوئی قطرہ اپنے اوپر نہیں پڑنے دیا۔ ہماری روزمرہ زندگی کو کوئی فرق نہیں پڑا۔ میلاد کا جشن ہمارے وجود کو چھوئے بغیر گزر گیا۔ کروڑوں روپے خرچ کرنے کے بعد بھی ہم جیسے تھے ویسے ہی رہے۔ ہم جیسے گیارہ ربیع الاوّل کو تھے‘ بالکل ویسے ہی تیرہ ربیع الاوّل کو برآمد ہوئے۔ بارہ ربیع الاوّل ایک گھٹا تھی جو ہم پر برسے بغیر گزر گئی۔ ہم نے اس کا سایہ بھی اپنے اوپر نہیں پڑنے دیا۔ یوں لگتا ہے ہم اس شخصیت ہی سے ناواقف ہیں جس کی ولادت کا جشن منا رہے ہیں۔ ہم سے کوئی پوچھے کہ جن کی یاد میں چراغاں کر رہے ہو وہ تو ایفائے عہد کے سختی سے پابند تھے جبکہ وعدہ پورا کرنے کا تمہارے ہاں تصور ہی مفقود ہے۔ جن کے لیے جلوس نکال رہے ہو انہوں نے زندگی بھر جھوٹ نہیں بولا‘ تمہارے ہاں جھوٹ کو جھوٹ سمجھا ہی نہیں جاتا۔ ہر شخص جھوٹ بولتا ہے۔ دفتر میں‘ کارخانے میں‘ بازار میں‘ پارلیمنٹ میں‘ کابینہ میں‘ حتیٰ کہ مسجد میں بھی! جن کی شان میں نعتیں پڑھ رہے ہو اور سن رہے ہو انہوں نے اپنے کسی رشتہ دار کو زندگی بھر ناراض کیا نہ کسی رشتہ دار کا حق مارا۔ تم اپنے رشتہ داروں سے قطع تعلقی کے مرتکب ہوتے ہو۔ مفلس اقربا کو پہچانتے نہیں اور مقتدر اعزّہ کی خوشامد کرتے ہو۔ جن کی شانِ اقدس پر اخبارات کے خصوصی ایڈیشنوں میں مضامین لکھتے اور پڑھتے ہو‘ ان کی زندگی میں صداقت‘ امانت‘ دیانت اور شفافیت اپنی انتہا پر تھی۔ تمہاری زندگی کو فریب‘ مکر‘ منافقت اور خیانت نے پوری طرح ڈھانپا ہوا ہے۔ تم پر تمہارے اپنے بھی اعتبار نہیں کرتے! جن کا میلاد منانے کے لیے بازاروں میں کمیٹیاں ڈالتے ہو ان کا فرمان ہے کہ شے کا نقص بتائے بغیر اسے فروخت کرنے والے پر فرشتے لعنت بھیجتے ہیں مگر تمہارا تو سارا کاروبار ہی نقص چھپانے پر چل رہا ہے۔
یوں تو ہم اپنی زندگیوں میں سب کی حق تلفی کر رہے ہیں۔ اولاد ماں باپ کے حقوق نہیں ادا کر رہی اور ماں باپ اولاد کا حق مار رہے ہیں۔ پڑوسیوں‘ رشتہ داروں‘ کمیونٹی یہاں تک کہ ریاست کے حقوق ادا کرنے میں بھی ہم ڈنڈی مار رہے ہیں۔ مگر سب سے زیادہ گنہگار ہم ان کے ہیں جنہیں زبان سے ہادی‘ رہنما اور پیغمبر کہتے ہیں! نہ صرف یہ کہ ہم ان کے احکام سے رُو گردانی کر رہے ہیں بلکہ الٹ چل رہے ہیں۔ پھر ہم اس نافرمانی کو تسلیم بھی نہیں کر رہے۔ آپ کسی عہد شکن کو یاد دلائیں کہ ''جس نے وعدہ پورا نہیں کیا اس کا ایمان ہی نہیں‘‘ تو اسے شرم آئے گی نہ حیا‘ نہ نادم ہو گا نہ پشیمان! ڈھیٹ بن کر منہ دوسری طرف کر لے گا۔ کسی دشنام طراز کو‘ کسی خائن کو‘ کسی جھوٹے کو آپؐ کا ارشاد سنا کر دیکھ لیجیے ''منافق کی تین نشانیاں ہیں۔ وعدہ کرے گا تو پورا نہیں کرے گا‘ بات کرے گا تو جھوٹ بولے گا اور امانت اس کے سپرد کی جائے گی تو خیانت کا مرتکب ہو گا‘‘۔ یہ بھی فرمایا کہ منافق کی نشانی ہے کہ جھگڑا کرے گا تو گالی دے گا۔ وہ آپ کے گلے پڑے گا کہ مجھے منافق کیوں کہا۔ حالانکہ منافق اسے ہم اور آپ نہیں کہہ رہے‘ آقائے دو جہاںؐ کہہ رہے ہیں۔
اس معاشرے کا آپ ﷺ کی تعلیمات سے دور کا تعلق بھی نہیں۔ جو معاشرہ آپؐ کے احکام کی بنیاد پر قائم ہوگا اس میں اطمینان ہوگا اور سکون! چہروں پر بشاشت ہوگی۔ وہ معاشرہ ٹینشن فری ہوگا۔ آپ اپنے معاشرے پر غور کرکے دیکھ لیجیے۔ ہر شخص شک اور عدم اطمینان کا شکار ہے۔ ہر شخص ذہنی دباؤ تلے پِس رہا ہے۔ جسے کسی دفتر میں کام پڑا ہے وہ ڈر رہا ہے کہ پتا نہیں افسر یا اہلکار آج موجود بھی ہے یا نہیں۔ موجود ہو بھی تو جانے کیا سلوک کرے اور کتنے پھیرے لگوائے۔ جس نے گیس کے کنکشن کے لیے درخواست دی ہے اسے یہ بھی نہیں اندازہ کہ اس کے جیتے جی یہ کنکشن مل جائے گا یا نہیں۔ آپ نقص والی شے دکاندار کو واپس کرتے وقت ڈر رہے ہوتے ہیں کہ جانے یہ واپس کرے گا یا نہیں۔ ملازمت کا حصول ہو‘ سکول میں بچے کا داخلہ ہو‘ ہسپتال میں مریض کو دکھانا ہو‘ مکان کا نقشہ پاس کرانا ہو‘ زرعی زمین یا شہری جائیداد کا انتقال ہو‘ جہاز کی سیٹ بک کرانی ہو‘ پاسپورٹ بنوانا ہو یا بچے کا فارم ب‘ آپ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کیا آپ کو یقین ہوتا ہے کہ کام ہو جائے گا؟ نہیں! ہر گز نہیں! آپ بے یقینی کے ہولناک خوف میں مبتلا ہوتے ہیں۔ اس خوف سے نجات پانے کے لیے آپ سفارش تلاش کرتے ہیں۔ ہسپتال میں‘ گیس کے دفتر میں‘ پاسپورٹ آفس میں‘ سکول میں‘ جہاں بھی آپ کا کام ہے‘ آپ جاتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ کیوں؟ اس لیے کہ تعلیماتِ نبویؐ سے اعراض کیا جا رہا ہے اور ڈٹ کر کیا جا رہا ہے۔ وقت پر دفتر کوئی نہیں آتا۔ حالانکہ تاخیر سے آنا معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔ سچی بات کوئی نہیں کرتا۔ فائل سامنے پڑی ہے مگر اہلکار جھوٹ بولے گا کہ فائل اوپر بھیجی ہے‘ ابھی واپس نہیں آئی۔ گیس کنکشن کے لیے دو تین چار بلکہ پانچ سال دفتر کے چکر لگانے کے بعد‘ رشوت دیں گے تو رات کے اندھیرے میں آکر کنکشن دے جائیں گے۔ اس کے برعکس جن معاشروں میں آپؐ کی تعلیمات پر عمل ہو رہا ہے وہاں اس بے یقینی‘ اس خوف کا وجود ہی نہیں۔ یہ معاشرے آپﷺ کو تسلیم کریں یا نہ کریں‘ مگر جن اصولوں پر چلنے کی وجہ سے یہ معاشرے آج اپنے ہر شہری کو عزت‘ اعتماد اور برابر کے حقوق دے رہے ہیں وہ اصول پیغمبر اسلام ﷺ نے دیے ہیں! یہی وجہ ہے کہ مسلمان ملکوں سے مسلمان جوق در جوق ان معاشروں کی طرف ہجرت کر رہے ہیں۔ یہ اصول کہ ریاست یا حکومت کا سربراہ سادہ رہائش اختیار کرے گا اور ملازمین کی فوج ظفر موج نہیں رکھے گا‘ سب سے پہلے آپؐ نے اور آپؐ کے بعد خلفائے راشدینؓ نے اپنایا تھا۔ آج مغربی ملکوں کے حکمرانوں کی قیام گاہیں اور طرزِ زندگی دیکھ لیجیے اور ان کے مقابلے میں مسلمان ممالک کے سربراہوں کی عیاشانہ طرزِ زندگی پر غور کیجیے۔ وقت کی پابندی‘ ایفائے عہد‘ دکانداروں اور تاجروں کی 'ری فنڈ‘ پالیسی‘ اور صارفین کے حقوق جن کی وجہ سے ان ملکوں میں زندگی باعزت ہے‘ یہ سب نبی اکرم ﷺکی تعلیمات ہیں! ملاوٹ‘ ذخیرہ اندوزی اور ناجائز نفع خوری کہاں کا سکہ رائج الوقت ہے؟ یہاں یا وہاں؟ ناداروں اور قلاشوں کی کفالت ریاست کہاں کر رہی ہے؟ یہاں یا وہاں؟
سال میں ایک بار بارہ ربیع الاوّل اور سارا سال نہیں‘ بلکہ ساری زندگی تعلیماتِ نبویؐ سے فرار! یہ کمپنی دنیا میں بھی نہیں چلی! جو حال ہے‘ سب کے سامنے ہے! تو آخرت میں کیا چلے گی!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں