سٹینلے وولپرٹ (Stanley Wolpert) 1927ء میں نیویارک میں پیدا ہوا۔ ماں باپ روس سے تعلق رکھنے والے یہودی تھے۔ ایک بحری جہاز میں بطور انجینئر ملازمت ملی۔ 1948ء میں اسے بمبئی جانے کا اتفاق ہوا۔ بر صغیر اسے بہت اچھا لگا۔ اتنا اچھا کہ وہ اس کے سحر میں گرفتار ہو گیا۔ واپس جا کر اس نے انجینئر نگ کے پیشے کو خیرباد کہا اور برصغیر کی تاریخ پڑھنے لگ گیا۔ اسی حوالے سے اس نے بی اے کیا۔ پھر ایم اے اور پی ایچ ڈی! پھر اس نے برصغیر کی تاریخ پر کتابیں لکھنا شروع کیں اور یہی اس کی دنیا بھر میں وجۂ شہرت بنیں! (یہاں ہمارے لیے ایک سبق بھی ہے۔ ہم ایک بار جو کیریئر اپنا لیتے ہیں‘ اس کے بعد‘ خواہ وہ کتنا ہی ناپسندیدہ کیوں نہ ہو‘ اس سے بندھ جاتے ہیں جیسے اس سے نکاح ہو گیا)۔ یونیورسٹی میں کئی سال وولپرٹ تاریخ پڑھاتا رہا۔ اس کی متعدد تصانیف میں سے مشہور ترین قائداعظم کی سوانح حیات ہے۔ اس نے قائداعظم کے بارے میں لکھا کہ ''بہت کم افراد تاریخ کا رُخ‘ پُرمعنی انداز میں تبدیل کر تے ہیں۔ اس سے بھی کم افراد دنیا کا نقشہ بدلتے ہیں اور مشکل ہی سے کوئی ایسا ہوتا ہے جو قومی ریاست ( نیشن سٹیٹ) کو وجود میں لائے۔ محمد علی جناح نے یہ تینوں کارنامے انجام دیے‘‘۔
وولپرٹ اپنی کتاب ''جناح آف پاکستان‘‘ میں لکھتا ہے کہ لندن میں قائداعظم کا قیام جس فلیٹ میں تھا اس کی مالکن ایک خاتون‘ بیگم پیج ڈریک (Mrs.Page-Drake) تھی۔ اس کی ایک بیٹی تھی جو محمد علی جناح کی ہم عمر تھی۔ جناح اسے اچھے لگتے تھے مگر جناح نے سنجیدگی اور متانت کو کبھی ہاتھ سے نہ جانے دیا اور بے نیاز ہی رہے۔ یہ لڑکی کبھی کبھی اپنے گھر میں مخلوط پارٹیوں کا اہتمام کیا کرتی تھی۔ ان پارٹیوں میں قسم قسم کے کھیل کھیلے جاتے تھے۔ ایک کھیل ایسا بھی تھا جس میں جیتنے والے لڑکے کو ہارنے والی لڑکی کا بوسہ لینا ہوتا تھا۔ جناح ایسے کھیلوں میں کبھی شامل نہ ہوتے۔ ایک بار جب انہیں مجبور کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ ہماری اپنی سماجی قدریں ہیں جن میں یہ سب کچھ نہیں ہوتا۔
قائداعظم کے بارے میں وولپرٹ کا لکھا ہوا یہ واقعہ یوں یاد آیا کہ ایک بہت ہی قابلِ احترام دوست نے عمران خان کو مشورہ دیا ہے کہ وہ قائداعظم کے طرزِ زندگی سے رہنمائی حاصل کریں۔ سچ یہ ہے کہ اس سے زیادہ پُر خلوص اور مثبت مشورہ کوئی ہو بھی نہیں سکتا۔ قائداعظم کے علاوہ شاید ہی کوئی ہو جس کا اندازِ سیاست مثالی ہے اور قابلِ تقلید! مگر کیا عمران خان اِس سونے جیسے قیمتی مشورے کے اہل ہیں؟ کیا ان کا مزاج ایسا ہے کہ وہ قائداعظم کی تقلید کر سکیں یا ایسا کرنے کا سوچ بھی سکیں؟ آپ ناصر کاظمی یا فراق گورکھپوری سے یقینا توقع کر سکتے ہیں کہ وہ میرؔ اور غالبؔ کا انداز اپنائیں۔ فراق نے توکہہ بھی دیا تھا:
صدقے فراقؔ اعجازِ سخن کے، کیسے اُڑا لی یہ آواز
ان غزلوں کے پردے میں تو میرؔ کی غزلیں بولیں ہیں!
مگر آپ ''بانگِ دہل‘‘ پڑھنے کے بعد استاد امام دین کو کیسے مشورہ دے سکتے ہیں کہ غالبؔ اور میرؔ کا تتبع کرے۔ رومی کی پیروی اقبال تو کر سکتے ہیں مگر سوچا بھی نہیں جا سکتا کہ جعفر زٹلی یا چرکین اس کی پیروی کریں گے۔ کہاں محمد علی جناح جیسا پاکیزہ انسان جو کھیل تک میں احتیاط برتتے تھے اور کہاں عمران خان جن کے بارے میں محتاط ترین الفاظ میں بھی یہی کہا جا سکتا ہے کہ:
جہاں بھی گئے داستاں چھوڑ آئے
تفصیل میں کیا جانا! جو جانتے ہیں وہ اس حوالے سے سب کچھ جانتے ہیں! سیاست میں پاک اور صاف وہی ہو سکتا ہے جس کی نجی زندگی بھی پاک اور صاف ہو۔ جس انسان کی سرشت میں کجی ہو اس کے ہر کام میں‘ ہر معاملے میں‘ اسی سرشت کی جھلک نظر آئے گی! عمران خان برائی کو برائی سمجھتے تو ضرور اعتراف کرتے کہ پولیس افسر کو چیف منسٹر ہاؤس میں بلا کر‘ ایسے شخص کے سامنے کھڑا کر دینا جس کا حکومت سے کوئی تعلق نہ تھا‘ بددیانتی تھی اور دوست نوازی تھی! عمران خان کے اعصاب اس قدر مضبوط ہیں کہ وہ کسی اعتراض کا جواب نہیں دیتے اور بیسیوں بھاری الزامات کو خاطر میں لائے بغیر سینہ تان کر چلتے ہیں! عثمان بزدار کو ان کی خدمت میں کس نے پیش کیا تھا؟ فرح خان ملک چھوڑ کر کیوں چلی گئیں؟ خان صاحب کے اُس وقت کے قریبی رفقا دعویٰ کرتے ہیں کہ پنجاب میں سول سرونٹس کی پوسٹنگ ٹرانسفر پر جو کچھ لیا اور دیا جا رہا تھا اس کے بارے میں انہوں نے خان صاحب کو وٹس ایپ کیے! اس دعوے کی تردید کیوں نہیں کی جاتی؟ حساس ترین منصب پر فائز شخص نے جب اُس وقت کے وزیراعظم کو ان کے گھر کے معاملات کے ضمن میں کچھ عرض کرنے کی جسارت کی تو اسے اُس منصب سے کیوں ہٹا دیا گیا؟ ادویات کوکئی سو گنا مہنگاکرنے میں کس نے کتنا کمایا؟ سول ایوی ایشن جیسے نازک ادارے میں سربراہ لگاتے وقت چھ سو درخواست دہندگان اور اٹھارہ شارٹ لسٹڈ امیدواروں کو نظر انداز کرکے ایسے شخص کو کیوں تعینات کیا گیا جس نے درخواست دی تھی نہ انٹرویو؟ ایسے کئی سوالات ہیں جو اپنا جواب مانگتے ہیں! کون جواب دے گا؟ صرف زبانی دعویٰ کرنے سے کوئی دیانت دار نہیں بن جاتا!
آپ کا کیا خیال ہے قائداعظم کابینہ کے سامنے ایک بند لفافہ لہرا کر‘ بزور‘ اس کی اندھی منظوری حاصل کرتے؟ اور پھر اربوں روپوں کی رقم‘ قومی خزانے میں جمع کرانے کے بجائے‘ ایک ٹائیکون کی طرف سے کہیں اور جمع کرا دیتے تاکہ اُس ٹائیکون کے ذمے جو واجبات ہیں وہ ادا ہو جائیں؟ یہ سوچنے کی بات ہے! اس پر غور کیا جانا چاہیے! اس کا جواب ہر شخص اپنے آپ سے پوچھے! کہاں عمران خان اور کہاں قائداعظم!
قائداعظم ایک انتہائی شائستہ انسان تھے۔ مخالفین کے نام بگاڑتے تھے نہ ان کی تضحیک کرتے تھے۔ وہ منتقم مزاج ہر گز نہ تھے۔ ایک مدبر حکمران کبھی منتقم مزاج نہیں ہو سکتا۔ کہاں عمران خان! جو وزیراعظم ہو کر لڑکوں کی طرح منہ پر ہاتھ پھیرتے تھے کہ چھوڑوں گا نہیں! قائداعظم تو وہ تھے جو سرکاری اجلاسوں میں چائے پینے یا پلانے کے روادار نہ تھے۔ جب انہیں کہا گیا کہ سرکاری سفر کے لیے‘ خاص طور پر‘ گورنر جنرل کے مشرقی پاکستان آنے جانے کے لیے‘ ہوائی جہاز خریدنا پڑے گا تو اُس وقت امریکہ میں مرزا ابوالحسن اصفہانی پاکستان کے سفیر تھے۔ جہاز خریدنے کے ضمن میں ان کے اور قائداعظم کے درمیان جو خط و کتابت ہوئی وہ محفوظ ہے۔ اسے پڑھ کر انسان حیرت کے سمندر میں ڈوب جاتا ہے! قائداعظم اس خریداری پر کم سے کم سرکاری پیسہ خرچ کرنا چاہتے تھے۔ انہیں ایک ایک سرکاری پیسے کا‘ ایک ایک سرکاری پائی کا احساس تھا۔ یہ خط و کتابت پڑھ کر محسوس ہوتا ہے جیسے وہ جہاز خریدنا ہی نہیں چاہتے تھے۔ قائداعظم کے دامن پر کسی دوست نوازی کا‘ کسی اقربا پروری کا‘ سرکاری خزانے کے کسی ذاتی استعمال کا کوئی داغ نہیں!
سیاست دانوں اور حکمرانوں کی یہ کھیپ اور قائداعظم! خدا خدا کیجے! زرداری‘ شریف اور ان کے یمین و یسار بیٹھنے والوں میں سے کوئی اس قابل نہیں کہ قائداعظم کا تتبع کرنے کا سوچ بھی سکے! اور عمران خان تو بالکل نہیں!