گھر کے بڑے جب مسلسل جھگڑوں اور لڑائیوں میں لگے ہوں اور سارا وقت کچہریوں اور تھانوں کے چکر لگاتے رہیں تو سب سے زیادہ نقصان بچوں کا ہوتا ہے۔ بڑوں کے پاس ان کے لیے وقت نہیں ہوتا۔ بڑوں کی ترجیحات میں ان کا کوئی وجود ہی نہیں رہتا۔ ان کی تعلیمی ترقی رک جاتی ہے۔ ان کی صحت کی دیکھ بھال نہیں ہوتی۔ وہ کہاں جاتے ہیں؟ کس کے ساتھ کھیلتے ہیں؟ سکرین پر کیا دیکھتے ہیں؟ کسی کے پاس ان سب پہلوؤں پر غور کرنے کا وقت ہی نہیں ہوتا۔
اسی پر عوام اور سیاستدانوں کو قیاس کیجیے۔ ہم عوام گویا بچے ہیں۔ سیاستدان ہمارے بڑے ہیں۔ سیاستدان حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں‘ ان کا اولین فریضہ عوام کی نگہداشت ہے۔ عوام کی تعلیم‘ عوام کی صحت‘ عوام کی تربیت‘ عوام کی حفاظت‘ یہ سارے کام ایک جمہوری سیٹ اپ میں سیاست دانوں کے کرنے کے ہوتے ہیں۔ گزشتہ کئی برسوں سے ہمارے اہلِ سیاست جس طرح باہمی جنگ و جدل میں مصروف ہیں‘ جس طرح آپس میں گتھم گتھا ہیں اور جس طرح سر پھٹول ہو رہی ہے‘ اس میں عوام مکمل طور پر نظر انداز ہورہے ہیں۔ حکومتوں کے عدم استحکام نے سوشل سیکٹرز کا بیڑہ غرق کرکے رکھ دیا ہے۔ سرکاری سکولوں کا برا حال ہے۔ سرکاری ہسپتالوں پر توجہ دینے والا کوئی نہیں۔ عمران خان کے پاس عزم بھی تھا اور کچھ منصوبے بھی! مگر اپنے دورِ اقتدارمیں ان کی ساری توجہ اپوزیشن کو سبق سکھانے پر مرکوز رہی۔ وہ ذہنی طور پر مسلسل حالتِ جنگ میں رہے۔ رہی سہی کسر ان کے غیر منتخَب مشیروں اور دوستوں نے پوری کر دی! عمران خان کی حکومت کوئی ایسا انقلابی قدم اٹھانے سے قاصر رہی جو عوام کی حالت بدل سکتا! معاشرہ حکومت کا محتاج ہوتا ہے! معاشرے کی ذہنی بلندی یا ذہنی پستی کا انحصار حکومتی پالیسیوں پر ہوتا ہے۔ کسی حکومت کا سارا زور اگر اپنی بقا پر ہو یا سیاسی دشمنوں کو کچلنے پر ہو تو صاف ظاہر ہے کہ عوام کے لیے اس کے پاس وقت نہیں ہو گا۔
کبھی آپ نے غور کیا ہے کہ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے؟ سیاست کو ایک طرف رکھ دیجیے۔ آپ عمران خان کے ساتھ ہیں یا کسی دوسری پارٹی کے ساتھ‘ معاشرے کی ذہنی حالت پر غور کیجیے۔ عورت آج بھی پاؤں کی جوتی ہے۔ لڑکیاں بوجھ سمجھی جاتی ہیں۔ نئی صدی کا ایک چوتھائی ختم ہونے کو ہے مگر آبادی کی اکثریت آج بھی لڑکیوں کو اعلیٰ تعلیم دلانے کی طرف راغب نہیں ہو رہی۔ چند بڑے شہروں کے شاپنگ مالز میں گھومتی فیشن ایبل لڑکیاں دیکھ کر کوئی نتیجہ مت نکالیے۔ ان کروڑوں لڑکیوں پر غور کیجیے جو بستیوں‘ قریوں اور قصبوں میں رہ رہی ہیں۔ تعلیم کی راہ میں والدین اور بزرگوں کا مائنڈ سیٹ رکاوٹ بنا ہوا ہے اور شادی کی راہ میں جہیز حائل ہے۔ کچھ عرصہ پہلے یہ لکھنے والا اپنا ذاتی مشاہدہ قارئین کے ساتھ شیئر کر چکا ہے۔ یہ ایک بہت بڑے شہر کی بات ہے۔ میاں بیوی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ ان کا پورا حلقۂ احباب سائنسدانوں‘ پروفیسروں اور اساتذہ پر مشتمل ہے۔ دوسری لڑکی پیدا ہوتی ہے۔ وہ مٹھائی تقسیم کرتے ہیں۔ ان کے اعلیٰ تعلیم یافتہ احباب مٹھائی لے کر‘ کھا کر‘ اظہارِ ہمدردی کرتے ہیں۔ نوزائیدہ لڑکی کے یہ ماں باپ بار بار بتاتے ہیں کہ وہ خوش ہیں اور یہ ان کے لیے کوئی مسئلہ نہیں۔ مگر ہرکوئی ان سے ہمدردی کرتا ہے۔ ہرکوئی یہ امید دلاتا ہے کہ اگلی مرتبہ لڑکا پیدا ہو گا۔ بچی کا باپ جہاں کام کرتا ہے وہاں‘ اس کا باس‘ جو ایک اعلیٰ‘ انتہائی اعلیٰ‘ سائنسدان ہے‘ اور طرہ یہ کہ باریش ہے اور مذہبی‘ اسے پڑھنے کے لیے چند آیات بتاتا ہے کہ یہ پڑھو تو اگلی بار بیٹی نہیں‘ بیٹا ہوگا۔ یعنی؛
چو کفر از کعبہ برخیزد‘ کجا ماند مسلمانی!
بس ! مٹی میں گاڑنے کی کسر رہ گئی ہے۔
''اور جب ان میں سے کسی کی بیٹی کی خوشخبری دی جائے تو اس کا منہ سیاہ ہو جاتا ہے اور وہ غمگین ہوتا ہے۔ اس خوشخبری کی برائی کے باعث لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے‘ آیا اسے ذلت قبول کر کے رہنے دے یا اس کو مٹی میں دفن کر دے‘ دیکھو کیا ہی برا فیصلہ کرتے ہیں‘‘۔
ضلع اور تحصیل لیول کے سرکاری ہسپتال‘ عملاً مذبح خانے ہیں۔ اتائیوں کی چاندی ہے۔ تعویذ فروشوں اور جھاڑ پھونک کرنے والوں کی پانچوں گھی میں ہیں۔ ایک صدی ہونے کو ہے جب اقبال نے کہا تھا؛
ہم کو تو میسر نہیں مٹی کا دِیا بھی
گھر پیر کا بجلی کے چراغوں سے ہے روشن
شہری ہو‘ دہاتی ہو‘ مسلمان ہے سادہ
مانندِ بُتاں پجتے ہیں کعبے کے برہمن
نذرانہ نہیں‘ سُود ہے پیرانِ حرم کا
ہر خرقہ سالوس کے اندر ہے مہاجن
میراث میں آئی ہے انہیں مسندِ ارشاد
زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن!
آج بھی صورتحال وہی ہے۔ جہالت ہر طرف ناچ رہی ہے۔ ضعیف الاعتقادی اور توہّم پرستی کا دور دورہ ہے۔ یہ سارا مسئلہ مائنڈ سیٹ کا ہے۔ اس مائنڈ سیٹ کو حکومتی پالیسیاں تبدیل کر سکتی ہیں۔ سوشل سیکٹرز پوری طرح بے نیازی کا شکار ہیں۔ جب گاؤں میں ڈسپنسری نہیں ہو گی‘ جب قصبے کے ہسپتال میں ڈاکٹر ہوگا نہ ادویات نہ آلات تو نعم البدل دم درود اور تعویذ گنڈہ ہی ہو گا!
کیا یہ حقیقت ہمارا منہ نہیں چڑا رہی کہ پنچایتیں‘ متوازی عدلیہ کا کردار ادا کر رہی ہیں! آئے دن پنچایتوں کے ہوشربا فیصلے اخبارات کی زینت بنتے ہیں۔ کسی کے کان پر جوں نہیں رینگتی۔ چھوٹی چھوٹی بچیوں کی شادیاں بوڑھوں سے کی جا رہی ہیں۔ قانون اندھا ہے اس لیے اسے یہ سب کچھ دکھائی نہیں دے رہا۔ کراچی‘ اسلام آباد اور لاہور کے رہنے والے سوچ بھی نہیں سکتے کہ جنوبی پنجاب اور اندرون سندھ میں عورت ہونے کا کیا مطلب ہے! تعلیم تو دور کی بات ہے‘ ایک ہاری کی بیوی یا بیٹی یا بہو کی عزت ہی کی کوئی ضمانت نہیں! یہ مسئلہ زرعی اصلاحات کا ہے۔ بھارت کی نسبت ہم اس ضمن میں کوسوں پیچھے ہیں۔ ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ جاگیردار کی گرفت آہنی ہے۔ پیری فقیری اور جاگیرداری کے اشتراک کا جال منتخب اداروں تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ ''ٹو اِن وَن‘‘ کی بدترین مثال ہے۔ ہم سب ہر سال‘ ہر عرس کے موقع پر اُس معروف سیاستدان کی تصویر دیکھتے ہیں جو طُرّے والی پگڑی پہن کر‘ چادر اوڑھ کر‘ مریدوں کو فیضیاب کر رہا ہوتا ہے۔ کیا ضرورت ہے اسے اپنے مریدوں کو یہ بتانے کی کہ وہ کسی مافوق الفطرت طاقت کا مالک نہیں؟ وہ آنکھیں بند کرکے اسے یا اس کی ذرّیّت کو ووٹ دیتے ہیں اور دیتے رہیں گے!
یہ ہے اُس معاشرے کی ایک جھلک جس کے سیاستدان آپس میں جھگڑ رہے ہیں۔ الزامات‘ دھمکیاں‘ پھر جوابی الزامات اور جوابی دھمکیاں! سازشیں! سازشی تھیوریاں‘ دشنام طرازیاں اور نہ جانے کیا کیا! ہر نیا دن معاشرے کو نئے پاتال کی طرف گرا رہا ہے! سیاستدانوں میں سے کچھ کے بچے یورپ میں ہیں اور جن کے بچے یہاں ہیں ان کی نشستیں اسمبلیوں میں‘ نسل در نسل‘ محفوظ ہیں۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیا ان سیاست دانوں کو معاشرے کے حوالے سے اپنے فرائض کا احساس بھی ہے یا نہیں؟ کیا اقتدار کی یہ جنگ‘ یہ آنکھ مچولی‘ یہ میوزک چیئر‘ اسی طرح چلتی رہے گی؟ خدانخواستہ معاشرہ ہی ریزہ ریزہ ہو گیا‘ تو سیاستدان حکومت کس پر کرینگے؟
سکھ گھوڑے پر سوار تھا۔ سرکتے سرکتے پیچھے کی طرف ہٹتا گیا۔ گر پڑا تو کہنے لگا گھوڑا ہی مُک گیا۔ ہمارا گھوڑا بھی مُک گیا توکیا کریں گے؟