علامہ اقبال کے 145 ویں یومِ پیدائش پر عام تعطیل کا اعلان ہوا۔ کیا یہ کافی ہے؟
اصل سوال یہ ہے کہ کیا علامہ کی عظمت اور خاص طور پر ان کی اہمیت کا احساس نئی نسل کو ہے؟ کیا نوجوان پاکستانیوں کو معلوم ہے کہ اتنے قریب کے زمانے میں ایسے شخص کا وجود ایک نعمت ہی نہیں معجزہ بھی تھا؟ اگر یہ کہا جائے کہ رومی کے بعد ان کے پائے کا کوئی اور نابغہ نہیں پیدا ہوا تو مبالغہ نہ ہوگا۔ یہ سوچ کر حیرت ہوتی ہے کہ ایسی ہستی چوراسی برس پہلے ہم میں موجود تھی! صرف چوراسی برس پہلے! اس میں کیا شک ہے کہ اس سارے عرصے میں بڑے بڑے لوگ آئے۔ مذہب کے شعبے میں‘ فلسفہ و حکمت کے میدان میں‘ تحریر اور تقریر میں یکتا! مگر تاثیر کا جو کرم خزانۂ خاص سے علامہ کو بخشا گیا‘ کسی اور کو نہیں ملا۔ علم تو بہت سوں کے پاس ہوتا ہے‘ تاثیر ایک اور ہی شے ہے۔ اب تو محققین نے ان کی زندگی کے ایک ایک سال‘ ایک ایک مہینے کی مصروفیات پر مشتمل کتابیں لکھ دی ہیں۔ پڑھ کر تعجب ہوتا ہے۔ عملی زندگی میں وہ ایک انتہائی مصروف اور سرگرم انسان تھے۔ پنجاب کی سیاست میں ان کی شرکت بھر پور رہی۔ یونیورسٹیوں کے نصاب مرتب کیے۔ ممتحن کے فرائض سرانجام دیے۔ قومی سطح کے تمام جلسوں اور تقاریب میں شامل رہے۔ کبھی مدراس جا کر لیکچرز دے رہے ہیں۔ کبھی علی گڑھ یونیورسٹی جا رہے ہیں تو کبھی حیدر آباد اور کبھی الٰہ آباد۔ سید سلیمان ندوی اور سید راس مسعود کی معیت میں افغانستان کا دورہ کر رہے ہیں۔ لاہور ریلوے سٹیشن پر افغان جنرل نادر شاہ سے ملاقات کر رہے ہیں۔ کبھی جواہر لال نہرو ان سے ملاقات کے لیے آرہے ہیں۔ کبھی انجمنِ حمایتِ اسلام کے جلسے میں نظم سنا رہے ہیں۔ خطوط کے جوابات بھی پابندی سے دیتے ہیں۔ دنیا بھر کے بلند پایہ اہلِ علم سے بھی رابطے میں ہیں۔ اکل حلال کے لیے وکالت بھی کر رہے ہیں۔ اپنے دوست گرامی سے شاعری کے فنی مباحث بھی چھیڑ رہے ہیں۔ سید سلیمان ندوی سے دقیق علمی استفسارات بھی کر رہے ہیں۔ ان سب مصروفیات کے ساتھ شاعری اور اتنی مہتم بالشان شاعری بھی کر گئے جو آج بھی دلوں میں طوفان برپا کر رہی ہے۔ انہیں یہ بھی اچھی طرح معلوم تھا کہ وہ صرف ایک شاعر ہی نہیں‘ صرف ایک فلسفی اور استاد ہی نہیں‘ دلوں میں تڑپ پیدا کرنے والی مافوق الفطرت طاقت کے بھی مالک ہیں۔ اسی لیے کہا:
حلقہ گردِ من زنید ای پیکرانِ آب و گِل
آتشی در سینہ دارم از نیاگانِ شما
اے پانی اور مٹی سے بنے ہوئے پیکرو! میرے گرد جمع ہو جاؤ۔ میرے سینے میں وہ آگ جل رہی ہے جو تمہارے اجداد میں تھی!
ہمارا المیہ یہ ہے کہ علامہ اقبال ہمارے پاس ہیں مگر ہم ان سے دور ہیں اور ہر روز دور تر ہو رہے ہیں۔ اقبال کے نام پر ادارے بھی ہیں جو کئی خاندانوں کی پرورش کا سبب بن رہے ہیں۔ اقبال ڈے کی چھٹی بھی ہے۔ ہمارے ٹاپ کے مغنّیوں اور موسیقاروں نے کلام اقبال گایا بھی ہے! ہم نے کلام اقبال سے قوالیاں بھی کشید کی ہیں مگر اقبال شناسی سے پھر بھی کئی فرسنگ دور ہیں! اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ جو زبان ایک ہزار سال تک ہمارے تہذیبی‘ ثقافتی‘ علمی اور ادبی اظہار کا ذریعہ رہی‘ اسے ہم نے غیر ملکی زبان سمجھ لیا اور اس سے کنارہ کش ہو گئے۔ جن جڑوں ( رُوٹس) کی تلاش میں دنیا ماری ماری پھر رہی ہے‘ ہم نے انہیں اپنے ہاتھوں سے کاٹ کر پرے پھینک دیا۔ ہم اُس کوّے کی طرح ہیں جو ہنس کی چال چلا تھا۔ دانش کے ذخیرے جو ہمارے تھے‘ آج ایک دنیا ان سے وابستہ ہے مگر خود ہم ان سے بے بہرہ ہیں!
یہ ماتمی صورتحال یکدم ظہور پذیر نہیں ہوئی۔ اپنی زبان‘ اپنی ثقافت‘ اپنے ہیروز‘ اپنی تاریخ سے ناواقفیت‘ جو آج کی نسل میں دیکھی جا سکتی ہے‘ ایک مسلسل عمل کا نتیجہ ہے۔ جس زمانے میں انگریز ہم پر حکمران تھے‘ اسی زمانے میں وسط ایشیا پر روسی قابض تھے۔ بظاہر روسی زیادہ ظالم دکھائی دیتے تھے۔ لباس بھی بدلوا دیا اور زبان کا رسم الخط بھی! مگر انگریز زیادہ شاطر ثابت ہوا۔ اس نے سوچا کہ رسم الخط بدلا تو زبان پھر بھی بچ جائے گی۔ کیوں نہ زبان ہی سے جان چھڑا لی جائے۔ چنانچہ اس نے انگریزی نافذ کر دی۔ ہمارے عالم فاضل راتوں رات جاہل ہو گئے۔ بس ایک دو نسلوں کے مرنے کی دیر تھی۔ امیر خسرو‘ مسعود سعد سلمان‘ بیدل‘ فیضی‘ ابوالفضل‘ عبد الرحیم خانخاناں‘ غنیمت کنجاہی‘ غنی کاشمیری‘ میرزا مظہر جانِ جاناں اور بے شمار دوسرے شاعر اور ادیب عملاً عاق (disown) ہو گئے۔ غالب کی فارسی شاعری بھی طاقِ نسیاں پر دھر دی گئی۔ انگریزی پلان کامیاب رہا۔ فارسی سے ہم محروم کر دیے گئے اور یہ انگریزی پلان اتنا دور رس تھا کہ آزادی کے بعد بھی اس کے اثرات جاری و ساری رہے اور آج بھی ہیں‘ اس حد تک کہ آج کی نسل اردو سے بھی بے نیاز ہے اور تقریباً نابلد! چلیے! اقبال کا فارسی کلام تو فارسی میں ہے‘ اردو کا کلام کون سی توجہ پا رہا ہے؟ مہنگے ماڈرن سکولوں میں او لیول اور اے لیول کرنے والے طلبہ و طالبات تو مکمل طور پر کیمبرج اور آکسفورڈ کے نام پر بنائے گئے نام نہاد نصاب ہائے تعلیم کی نذر ہو گئے۔ اقبال کی اردو تصانیف کے نام بھی اکثر کو نہیں معلوم! رہے سرکاری سکول تو کون سے سکول اور کیا استاد! قصبوں اور قریوں میں قائم ہزاروں لاکھوں سکولوں میں جو تعلیم دی جا رہی ہے‘ شہروں میں رہنے والے لوگ اس کے معیار کا تصور بھی نہیں کر سکتے! وقت کی پابندی ہے نہ اساتذہ کی تعداد ہی پوری ہوتی ہے۔ جو اساتذہ موجود ہیں ان میں سے بھی بہت سوں کی توجہ اپنی دکانوں اور کھیتی باڑی پر رہتی ہے۔ سکولوں میں ٹاٹ تک مہیا نہیں کیے جاتے۔ اس ماحول میں اور سہولتوں کی اس ہولناک عدم موجودگی میں اقبال شناسی کا امکان دور دور تک نہیں! ہاں لاکھوں میں کوئی ایک طالب علم اس طرف آنکلے تو اور بات ہے۔ وہ بھی اپنی غیر معمولی ذہانت اور طبعی رجحان کی وجہ سے یا اپنے گھر اور خاندان کے اثر تلے!
ضمیر جعفری نے کہا تھا:
کوئی رومیؔ، کوئی حافظؔ، کوئی اقبالؔ پیدا کر
کہ شہروں کی بڑائی ان کے میناروں میں ہوتی ہے!
زندہ قومیں اپنی روایت اور اپنی ثقافت کے ساتھ جُڑی ہوئی ہوتی ہیں۔ ہمارا حال مخدوش ہے۔ مستقبل غیر یقینی! جو کچھ ماضی نے دیا تھا اسے بھی گنوا بیٹھے ہیں۔ یہی استعمار کا منصوبہ تھا۔ یہ منصوبہ کامیاب ہوا! غالبؔ خوش قسمت ہے کہ گلزار نے ایک معرکہ آرا ڈرامہ اس کے بارے میں لکھا اور پروڈیوس کیا۔ اس کے طفیل بہت سے لوگ غالب سے آشنا ہوئے۔ اقبال پر تو کوئی ایسا کام بھی نہ ہو سکا! طلبہ اور عام آدمی کو تو چھوڑیے، اساتذہ میں سے بھی کتنوں کو معلوم ہے کہ ''مسجد قرطبہ‘‘ اور ''ساقی نامہ‘‘ اردو شاعری کا معجزہ ہیں! اقبال نے کہا تھا:
بیا بہ مجلسِ اقبالؔ و یک دو ساغر کَش
اگرچہ سر نتراشد، قلندری داند
کہ اقبال کی محفل میں آ اور ایک دو ساغر کھینچ۔ سر نہیں منڈاتا مگر قلندری جانتا ہے۔
افسوس! ہم ان کے ہتھے چڑھ گئے جو سر تو منڈاتے ہیں مگر قلندری کی الف بے سے ناواقف ہیں!