افغانستان اور انگریزی ہندوستان کی باہمی کشمکش ایک طویل کہانی ہے جو تقریباً ایک صدی پر پھیلی ہوئی ہے۔ اس کا سبب جنوب کی طرف روسی پیش قدمی تھی۔ اسے ہی گریٹ گیم کہتے ہیں۔ کچھ تو روسی عزائم بھی تھے اور کچھ انگریزی ذہن کی مبالغہ آرائی بھی! انگریزوں اور روسیوں کے درمیان جو پِس رہا تھا وہ افغانستان تھا۔انگریزی ہند اور افغانستان کے درمیان تین جنگیں ہوئیں۔ پہلی جنگ 1839ء میں ہوئی۔ یہی سال رنجیت سنگھ کی وفات کا بھی ہے۔اس جنگ میں انگریزی فوج کو عبرتناک شکست ہوئی۔دوسری اینگلو افغان جنگ 1875ء میں اور تیسری1919ء میں ہوئی۔
لیکن ایک اور لڑائی بھی ہوئی جس کا ذکر کم ہی کیا جاتا ہے۔ یہ لڑائی انگریزی فوج کے سکھ سپاہیوں اور افغان قبائلیوں کے درمیان ہوئی۔ تاریخ کی یہ عجیب ستم ظریفی ہے کہ سکھ بہادر ہونے کے باوجود اکثر و بیشتر دوسروں کے ہاتھ میں کھلونا بنتے رہے۔ انگریزوں نے انہیں اپنا وفادار بنا کر ان کے خون اور ہڈیوں سے اپنی سلطنت کو مضبوط کیا۔ پھر تقسیم کے وقت سکھ ہندؤوں کے ہاتھ میں کھیلے جس کا تاوان وہ آج تک ادا کر رہے ہیں۔
یہ ستمبر1892ء کی بات ہے۔ انگیزوں نے قبائلیوں کو قابو کرنے کے لیے کوہاٹ کے علاقے میں کچھ نئے قلعے بنائے اور کچھ پرانے قلعوں کو مستحکم کیا۔ ان قلعوں کے درمیان‘ ایک چوکی سرگڑھی کے مقام پر تھی۔ اس چوکی پر اکیس سکھ فوجی تعینات تھے۔ ان کی کمانڈ حوالدار اِشر سنگھ کے ہاتھ میں تھی۔قبائلی لشکر نے‘ جس کی تعداد دس ہزار یا اس سے زیادہ تھی‘ اس چوکی پر حملہ کیا۔اس لڑائی کو تاریخ میں سرگڑھی کی لڑائی کہتے ہیں۔ قریبی قلعوں سے اس چوکی کی مدد کو کوئی نہ پہنچا؛ اگرچہ انگریز افسروں کو معلوم تھا کہ صرف اکیس سکھ فوجیوں کو تعینات کرنا انہیں مارنے کے مترادف ہو گا۔ یہ درست ہے کہ عین لڑائی کے وقت کمک پہنچانا ممکن نہ تھا مگر بنیادی طور پر اتنی کم نفری کی تعیناتی اس پُر شور علاقے میں حماقت تھی یا بدنیتی۔ اس تحریر میں اس لڑائی کی تفصیل بیان کرنا مقصود نہیں۔مختصر یہ کہ یہ اکیس سکھ فوجی قبائلی لشکرِ جرار کے سامنے ڈٹ گئے۔ صبح نو بجے سے شام چار بجے تک لڑائی جاری رہی۔ جب قبائلی چوکی کی دیوار توڑ کر اندر داخل ہوئے تو ایک دہشت ناک دست بدست لڑائی ہوئی۔اکیس کے اکیس سکھ فوجی کام آئے۔ ہلاک اور زخمی ہونے والے قبائلیوں کی تعداد سینکڑوں میں تھی۔ یہاں یہ بتانا بر محل ہو گا کہ1857ء کی ناکام جنگِ آزادی کے بعد ہندوستانی فوجیوں کو جو اسلحہ دیا جاتا تھا وہ اس معیار کا نہیں ہوتا تھا جس معیار کا انگریز فوجیوں کو دیا جا تھا۔سر گڑھی کی یہ لڑائی سکھ تاریخ میں بہت اہمیت کی حامل ہے۔ بھارتی فوج کی سکھ رجمنٹ اس دن کو باقاعدہ یادگار کے طور پر مناتی ہے۔
بھارت نے اس واقعہ پر متعدد ڈاکومنٹریاں‘ ٹی وی سیریزاور فلمیں بنائیں جن میں سے ایک مشہور فلم‘ پچھلے دنوںمجھے دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ فلم اس قدر بلند معیار کی ہے اور اس قدر پُرتاثیر اور دلچسپ ہے کہ فلم بنانے والوں نے حوالدار اِشر سنگھ اور اُس کے بیس سپاہیوں کو امر کر دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے اپنے کسی ہیرو پر ایسی کامیاب فلم بنائی ہے؟ کیا کیپٹن کرنل شیر خان‘ پائلٹ آفیسر راشد منہاس‘ میجر طفیل‘سوار محمد حسین اور دوسرے نامور شہیدوں میں سے کوئی اس قابل نہیں کہ اُس پر فلم بنائی جاتی ؟ چونڈہ کا معرکہ‘ جنگوں کی عالمی تاریخ میں ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔ چاون اُس وقت بھارت کا وزیر دفاع تھا۔شورش کاشمیری نے کہا تھا ؎
ٹینکوں کے ہلہلے میں چونڈہ کا معرکہ
چاون کے حق میں تیغ جگر وار ہو گیا
ہم اس معرکے پر بھی کوئی فلم نہ بنا سکے۔ افواج کے محکمہ اطلاعات نے کچھ ڈرامے پروڈیوس کیے مگر سوال یہ ہے کہ پاکستان کی فلم انڈسٹری نے اب تک اس سلسلے میں کیا کیا ہے ؟ سیاسی پہلوؤں‘اور متنازع روایات سے قطع نظر‘ اس میں کیا شک ہے کہ ہمارے جوانوں اور افسروں نے کارگل اور سیاچین پر سختیاں جھیلی ہیں۔ لاشیں وہاں سے آئی ہیں۔ فراسٹ بائٹ (یخ زدگی) سے ہاتھوں اور پیروں کی انگلیاں جھڑی ہیں۔ آکسیجن کی شدید کمی سے کئی جانیں گئی ہیں۔ ہم اس موضوع پر بھی کوئی فلم نہ بنا سکے!
جن دنوں ہمارے ہاں کمال کے ڈرامے بن رہے تھے‘ ہم ان ڈراموں کی مارکیٹنگ نہ کر سکے۔ ان ڈراموں کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ ایک بار سرکاری کام سے بمبئی جانا ہوا۔ جیسا کہ پاکستانیوں کے لیے ہر بھارتی شہر میں لازم تھا‘ پہلے تھانے جا کر رجسٹریشن کرانا پڑی۔ ہم دو تھے۔ جب تھانے پہنچے تو بھارتی تھانیدار نے علیک سلیک کے بعد سب سے پہلے یہ پوچھا کہ ''ہمارے لیے پاکستانی ڈراموں کی کیسٹیں لائے ہیں؟‘‘ ہم نے معذرت کی کہ ہمیں معلوم نہ تھا ورنہ ضرور لاتے! وسط ایشیا کی ریاستیں آزاد ہوئیں تو میں اُن چند افراد میں سے تھا جو وہاں سب سے پہلے پہنچے۔ پورے وسط ایشیا پر بھارت چھایا ہوا تھا۔ تعمیرات‘ ہوٹل انڈسٹری‘ تعلیم اور دوسرے شعبوں پر تو بھارت کی اجارہ داری تھی ہی‘ بھارتی فلمیں بھی وہاں پر حکمرانی کر رہی تھیں۔ یہ درست ہے کہ سوویت یونین اور بھارت کے قریبی تعلقات تھے مگر سوویت انہدام کے بعد بھی تو ہم نے کچھ نہ کیا۔ وسط ایشیا سے واپس آکر میں اُس وقت کے وفاقی سیکرٹری اطلاعات سے ملا۔ بھلے آدمی تھے۔ عرض کیا کہ ہمارے ڈراموں کے لیے وہاں ایک وسیع مارکیٹ ہے۔ حکومت کو اس ضمن میں خصوصی اقدامات کرنے ہوں گے۔ مگر جیسا کہ ہمیشہ ہوتا آیا ہے‘ کچھ بھی نہ ہوا۔ حکیم سعید مرحوم نے بھی ان ریاستوں کے حوالے سے حکومت کو عقل سکھانے کی سعی کی مگر کسی کے کان پر جوں نہ رینگی۔ بدقسمتی کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ اُس وقت کے وزیر اعظم نے ان ریاستوں میں سے ایک اہم ریاست میں اپنے ایک ذاتی دوست کو سفیر بنا کر بھیج دیا۔ مقامی لوگوں نے بتایا کہ گالف کھیلنے کے علاوہ اُن صاحب کی کسی اور شے میں دلچسپی نہ تھی۔ رہے آج کے پاکستانی ڈرامے تو وہ اسفل السافلین کے درجے پر ہیں۔ شرمناک کہانیاں۔بے ہودہ پلاٹ۔ ساس بہو کے جھگڑے‘ سازشیں‘ منگنیاں‘ معاشقے‘ مقدس رشتوں کی پامالی۔ خدا کی پناہ! ایک ہی کہانی ہے جو ہر ڈرامے میں ڈھٹائی سے دہرائی جا رہی ہے۔ ذہنوں میں بدقماشی کا زہر گھولا جارہا ہے!
کسی شعبے میں تو ہم بھارت سے آگے ہوتے! ریلوے اُن کی کہاں جا پہنچی اور ہماری کس حال میں ہے؟ ایئر لائن ہماری کہیں نہیں نظر آرہی۔ ایئر انڈیا کی ایک فلائٹ روزانہ سڈنی سے اور ایک روزانہ میلبورن سے دہلی جا رہی ہے۔ مہینوں پہلے سنا تھا کہ ہماری قومی ایئر لائن بھی اس میدان میں اترے گی مگر خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا! بنگلور‘ چنائی اور حیدرآباد عالمی آئی ٹی کے مراکز میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ میڈیکل ٹور اِزم کے ذریعے بھارت کروڑوں ڈالر کما رہا ہے۔افرادی قو برآمد کرنے میں ان کی سودا بازی کی قوت کا اندازہ اس سے لگائیے کہ یو اے ای میں ہر تیسرا فرد بھارتی ہے۔صنعت کے میدان میں ان کی برتری کسی شک و شبہ سے بالا ہے کیونکہ‘ سابق حکمرانوں سمیت‘ ہمارے سیاست دان اپنے کارخانوں کے لیے مشینری وہاں سے منگوانے کی ہر جائز ناجائز کوشش کرتے پائے گئے ہیں۔ زیر زمین ریلوے سسٹم‘ دہلی کے بعد باقی شہروں میں بھی بچھایا جا رہا ہے اور کچھ شہروں میں مکمل بھی ہو چکا ہے! رہا فلم کا شعبہ تو اس میں ہم نظر تک نہیں آرہے !