'' کوشش کرو کہ کسی سے ادھار نہ لینا پڑے۔ جب بھی کسی سے قرض لو تو تعیّن کروکہ واپس کب کرو گے۔ پھر اس تاریخ کا دھیان رکھو۔ اگر خدا نخواستہ معیّنہ وقت پر واپس کرنے کے قابل نہیں ہو‘ تو اُس تاریخ کو یا اُس سے پہلے‘ خود جا کر وضاحت کرو اور نئی تاریخ کا تعین کر کے آؤ۔ اب تیسری بار توسیع کے لیے گزارش کرنا ذلت کا کام ہو گا۔ اسی طرح جو شخص تم سے قرض لیتا ہے اور مقررہ مدت کے اندر واپس نہیں کرتا اور خود حاضر ہو کر وضاحت بھی نہیں کرتا‘ اسے آئندہ ہر گز ہر گز قرض نہ دو۔ یہ تو روپے پیسے کا معاملہ ہوا! جہاں تک چیزوں کا تعلق ہے‘ جیسے گاڑی‘ استری‘ سیڑھی‘ چارجر‘ تویہ زیادہ حسّاس معاملہ ہے۔ ایسی چیزیں مانگ کر واپس نہ کرنا اُن لوگوں کا وتیرہ ہے جو ارذل الخلائق ہیں۔ اگر تم کسی سے کوئی شے لو اور واپس لینے کے لیے اُسے خود کہنا پڑے تو یہ تمہارے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہے!!‘‘
یہ نصیحت ایک جہاندیدہ بزرگ نے اپنی اولاد کو کی تھی۔ اس سماج میں بہت کم لوگ ہیں جو اپنی آئندہ نسل کو معاشرت کا یہ بنیادی سبق پڑھائیں۔ پڑھائیں بھی تو کیسے؟ ان کا اپنا عمل ہی قابلِ رشک نہیں! اس میں بہت سے عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔ خاندانی پس منظر‘ گھر کی تربیت‘ شرم اور غیرت کی مقدار! عزتِ نفس کا مسئلہ! وضعداری کا پہلو! ہم نے سنا ہے کہ کچھ لوگ فاقہ کر لیتے تھے‘ مگر دستِ سوال دراز نہیں کرتے تھے۔ چٹنی سے روٹی کھا لیتے تھے مگر عزت ِنفس کا سودا نہیں کرتے تھے۔ اقبال نے یہی نصیحت کی تھی ؎
بیا بہ سجدہ و یاری ز خسروان مطلب
کہ روزِ فقر نیاگانِ ما چنین کردند
حکمرانوں سے مدد نہ مانگو! سجدہ کرو! کہ ہمارے اجداد ضرورت کے وقت ایسا ہی کرتے تھے!
یہ تو فرد کا معاملہ ہے! آپ کا کیا خیال ہے اگر کوئی قوم اس ضمن میں بدنام ہو جائے؟ ملکی سطح پر‘ کسی دوسرے ملک سے یا کسی بیرونی ادارے سے کچھ لے اور پھر واپس نہ کرے؟ یہاں تک کہ اُس ملک کو‘ یا اُس ادارے کو‘کہنا پڑے کہ جناب! یہ چیز ہماری ہے۔ آپ نے ضرورت پوری ہونے کے بعد واپس کرنی تھی! اب واپس کر ہی دیجیے! تو جناب! خاطر جمع رکھیے! اس میدان میں ہماری کارکردگی شاندار ہے! آپ کہیں یہ تو نہیں سمجھ رہے کہ ہم ماضی کی بے شرمیوں کی طرف اشارہ کر رہے ہیں؟ اس میں کیا شک ہے کہ بطورِ قوم ہمارا سر اس سلسلے میں شرم کے مارے پہلے ہی جھکا ہوا ہے۔ ایک سابق حکمران بڑے ٹھسّے سے بتاتا رہا کہ دیارِ غیر میں مکان اسے ایک بادشاہ نے عنایت کیا۔ کسی نے اس سے نہ پوچھا کہ کیا ضرورت تھی تمہیں یہ احسان لینے کی؟ ایک اور سابق حکمران نے اپنے عدالتی معاملات میں دوسرے ملک کے شہزادوں کو ملوث کیا۔یہ بھی قوم کے لیے شرم کا مقام تھا۔ ایک اور حکمران کو احساسِ کمتری اتنا شدید تھا کہ کمرشل فلائٹ میں سفر نہیں کرتا تھا۔ امریکہ جانے کے لیے ایک شہزادے سے جہاز مانگا۔ یہی کم باعث ِشرم نہ تھا کہ واپسی پر‘ بیچ راستے کے‘ اسے جہاز سے اتار دیا گیا اور جہاز واپس لے لیا گیا۔ اسی لیے عقلمندوں نے کہا تھا کہ بھٹ پڑے وہ سونا جس سے پھوٹیں کان! تُف ہے اُس مکان پر اور اُس عدالتی صفائی پر اور اس ہوائی سواری پر جس سے ملک کی حرمت پر‘اور قوم کی عزّتِ نفس پر‘ حرف آئے۔
یہ واقعات پرانے ہو چکے۔ ہم نے ان پر ندامت محسوس کی یا نہیں‘ یہ ایک الگ سوال ہے۔ مگر آج جو شرمناک واقعہ شیئر کرنا ہے وہ بالکل تازہ ہے۔ اقوام متحدہ کے عالمی ادارۂ صحت نے حالیہ سیلاب کے دنوں میں ایک بم پروف‘ سپیشل قسم کی گاڑی‘ پاکستان کے ایک ڈپٹی کمشنر کو دی تھی تا کہ سیلاب کے دوران سروے میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔ یہ گاڑی مخصوص وقت اور مخصوص کام کے لیے دی گئی تھی۔ سروے ختم ہونے کے بعد یہ گاڑی واپس کرنی تھی! مگر نہ کی گئی! عالمی ادارۂ صحت نے اس معاملے کے بارے میں پاکستان کی وزارتِ خارجہ کو مراسلہ لکھا ہے اور کہا ہے کہ گاڑی عالمی ادارۂ صحت کو واپس کرائی جائے۔ وزارت ِخارجہ نے صوبے کے چیف سیکرٹری سے جواب طلبی کی ہے اور حکم دیا ہے کہ گاڑی جس کے بھی قبضے میں ہے‘ واپس کی جائے۔ظاہر ہے‘ وزارت ِخارجہ کو شکایت لگانے سے پہلے‘ عالمی ادارۂ صحت نے اپنی سی کوشش ضرور کی ہو گی۔ ڈی سی صاحب کو بھی کہا ہو گا اور ہو سکتا ہے صوبائی حکومت کے بڑوں سے بھی رابطہ کیا ہو۔ بہر طور انہیں‘ معاملہ وزارتِ خارجہ کی سطح پر اٹھاناپڑا۔ ہمارے پڑھنے والے گلہ کرتے ہیں کہ نام کیوں نہیں لیتے۔ کچھ تو اس ضمن میں طعن و تشنیع تک چلے جاتے ہیں۔ مگر مسئلہ یہ نہیں کہ کس ڈی سی نے یہ چھچھوری حرکت کی۔ ایشو یہ بھی نہیں کہ متعلقہ صوبہ کون سا ہے۔ بات تو ملک کی ہے۔ عالمی ادارۂ صحت کے نزدیک یہ گری ہوئی حرکت پاکستان میں ہوئی ہے اور پاکستانیوں نے کی ہے! ڈی سی کو یا اس کے چیف سیکرٹری کو کون جانتا ہے! ڈی سی کا نام لکھنے سے یہی ہو گا کہ اس کے بچوں کو سکول یا کالج میں ان کے دوست طعنے دیں گے! اس کی بیگم کی اپنی ملنے والیوں میں سبکی ہو گی! اس کے علاوہ اور کیا ہو گا؟ ایکشن وزارتِ خارجہ لے ہی رہی ہے۔ ہمارا رونا اور ہے!!
رونا یہ ہے کہ ہم احساسِ کمتری کے مارے ہوئے کیوں ہیں؟ ہم سفلہ پن سے باز کیوں نہیں آتے؟ ہماری آنکھوں سے اور پسلیوں سے اور ہڈیوں سے اور ہڈیوں کے اندر گودے سے اور وریدوں میں بہتے خون سے بھوک کب ختم ہو گی؟ ہم سیر چشمی کی منزل کب سر کریں گے؟ ہمیں استغنا کب نصیب ہو گا؟ ہم وزیراعظم کے منصب پر ہوتے ہیں تو سیلاب زدگان کے لیے عطیّہ شدہ ہار پار کر لیتے ہیں! ہم قاضی القضاۃ کے درجے سے ریٹائر ہوتے ہیں تو بلٹ پروف کار واپس کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔مارچ2018ء میں لاہور ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ موصوف کو ریٹائرمنٹ کے بعد صرف ایک گارڈ اور ایک ڈرائیور رکھنے کی اجازت ہے مگر حضرت نے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی بلٹ پروف کار کے علاوہ دو ڈرائیور‘ ایک ہیڈ کانسٹیبل‘ دو سب انسپکٹر‘ اور نو (9) کانسٹیبل رکھے ہوئے ہیں! فاعتبروا یا اولی الابصار! عبرت پکڑو اے آنکھوں والو!! کبھی ہم وزارت سے سبکدوش ہونے کے بعد سرکاری مکان خالی نہیں کرتے۔ کبھی ہم دوست ملکوں سے ملے ہوئے خصوصی تحائف سرِ بازار نیلام کرتے ہیں‘ دنیا بھر میں رسوا ہوتے ہیں‘ ملک کو رسوا کرتے ہیں اور ڈھٹائی سے گھُنّے بن جاتے ہیں۔تو کیا ہم بطور ِقوم لالچی ہیں؟ شہدے ہیں؟ کیا ہم بطورِ قوم نفسیاتی مریض ہیں؟
افسوس! ہم گاڑیوں‘ ہاروں‘ سرکاری مکانوں اور گھڑیوں سے اوپر اُٹھ ہی نہیں سکتے! ہماری پست سوچ یہیں تک ہے! مجھے یقین ہے کہ اگر ہمیں پورے کرۂ ارض کا بلا شرکتِ غیرے حکمران بنا دیا جائے تب بھی ہم ان بے بضاعت چیزوں کو غیر قانونی طریقے سے ہتھیانے کی فکر میں ہوں گے! کون جانے ہمیں کیا مار ہے؟ ہم میں مینوفیکچرنگ نقص ہے یا شاید ہمارے ڈی این اے میں کوئی ازلی ابدی کجی ہے!!
جو شخص بھی گاڑی واپس نہ کرنے کا ذمہ دار ہے‘ اس کی کم سے کم سزا ملازمت سے برطرفی ہونی چاہیے۔ مسئلہ صرف ایک گاڑی واپس کرنے کا نہیں! ملک بدنام ہوا ہے! قوم کی شہرت داغدار ہوئی ہے۔ مگر دردناک پہلو یہ ہے کہ سزا ملنے کا کوئی امکان نہیں!