کس دیدہ دلیری سے کہہ رہے ہیں کہ فلاں کا فون آیا تھا فلاں کی طرف ہو جاؤ!
ایک سیاستدان نے یہ بات کر کے دریا کو کوزے میں بند کر دیاہے! یہ ایک سیاست دان کا یا ایک سیاسی خانوادے کا یا ایک پارٹی کا حال نہیں‘ سبھی روبوٹ ہیں۔ سبھی معمول ہیں اور اپنے عامل کے کہنے پر چلتے ہیں!کٹھ پتلیاں ہیں جن کی ڈور کسی اور کے ہاتھ میں ہے اور اب تو یہ وقت آگیا ہے کہ انہیں یہ بتاتے ہوئے کہ ہم نے فلاں کا ساتھ اس لیے دیا کہ ہمیں فون آگیا تھا‘ شرم تک نہیں آتی!
مقتدرہ کو بے گناہ قرار نہیں دیا جا سکتا! مگر کیا وہ سیاستدانوں کی مدد کے بغیر کچھ کر سکتی تھی ؟تاریخ کی ستم ظریفی ہے کہ سیاستدانوں کے ایک بھاری گروہ نے ہمیشہ مقتدرہ کے نیچے ستون بن کر اسے سہارا دیے رکھا۔ مشرقی پاکستان سے شروع کیجیے۔ مولوی فرید‘ مولانا بھاشانی اور نور الامین جیسے سیاست دان آمریت سے لڑتے رہے۔ مقابلہ کرتے رہے۔ جیلوں میں جاتے رہے۔ دوسری طرف عبد الصبور خان اور عبد المنعم خان جیسے لوگ اس کے اشاروں پر ناچتے رہے! وہ بھی ایک سیاست دان ہی تھا جس نے ایوب خان کو امیر المومنین بننے کی تجویز دی تھی۔ کون سا آمر تھا جس کے آگے پیچھے سیاستدان نہیں رہے؟ جنرل ضیاء الحق نے کہا تھا کہ سیاست دان میرے اشارے پر دم ہلاتے چلے آئیں گے! اگر ایسا نہیں تھا تو پھر سوال یہ ہے کہ کتنے سیاستدانوں نے اس ذلت آمیز بیان پر احتجاج کیا ؟ عزت ِنفس کی ایک رمق بھی ہوتی تو جتنے بھی اُس وقت آمرانہ حکومت کی گاڑی کھینچ رہے تھے‘ فوراً یہ جوا اپنے کندھوں سے اتار پھینکتے! ایک سیاستدان‘ سابق وزیر اعظم‘ کو جب پھانسی دی گئی تو یہ بھی ایک سیاست دان ہی تھا جس نے آمرانہ حکومت کے سربراہ سے اُس قلم کی فرمائش کی جس سے بھٹو کو پھانسی دینے کے حکم نامے پر اُس نے دستخط کیے تھے۔یہ قلم وہ نشانی کے طور پر رکھنا چاہتا تھا۔
اکبر بگتی کے تو چوہدریوں کے خاندان پر احسانات تھے۔ چوہدری ظہور الٰہی کی خاطر سردار اکبر بگتی مرحوم نے بھٹو جیسے جابر حکمران سے ٹکر لی۔ جب مشرف دور میں بگتی کو مروا دیا گیا تو چوہدریوں کو اسی دن حکومت کا ساتھ چھوڑ دینا چاہیے تھا۔ مگر چوہدری ہی کیا‘ کسی سیاستدان نے‘ کسی موقع پر کسی آمر کی خدمت سے استعفیٰ نہیں دیا۔ ہماری تاریخ اس نوع کی کوئی ایک مثال بھی پیش نہیں کر سکتی! شریف خاندان کی سیاست کا پودا آمریت کے دور میں لگا۔ اسے آمریت نے پانی دیا۔سالہا سال تک شریف خاندان مقتدرہ کا مرغِ دست آموز بنا رہا! بڑے میاں صاحب نے انہیں کے اشارے سے‘ محمد خان جونیجو کے پاؤں کے نیچے سے مسلم لیگ کی زمین کھینچی۔ جونیجو صاحب کو جس طرح پہلے وزارت عظمیٰ سے اور بعد میں مسلم لیگ کی صدارت سے ہٹایا گیا وہ اس ملک کی تاریخ کے سیاہ ترین ابواب میں سے ہے۔ میاں صاحب نے اس پر کبھی تاسف یا ندامت کا اظہار تک نہیں کیا۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ سیاست دانوں کی بھاری اکثریت‘ ضیا الحق کی تابعِ فرمان تھی ؟ پرویز مشرف کا دور آیا تو سیاست دانوں نے ٹوڈی پن کے فن کو کمال تک پہنچا دیا! شوکت عزیز جیسا غیر سیاستدان‘ فتح جنگ کے حلقے سے‘ طلسمی انداز میں‘پارلیمنٹ کا ممبر بن گیا۔ یہ کام سیاستدانوں کے ذریعے ہی کیا گیا۔ اس سے پہلے جمالی صاحب وزیر اعظم بنائے گئے۔ وہی انکار کر دیتے۔ مگر چونکہ سیاستدان تھے اس لیے آمنّا و صدّقنا کے فارمولے پر عمل کیا۔ چوہدریوں نے تو‘ یہ تک کہہ دیا کہ وردی میں دس بار جتوائیں گے!! سندھ سے لے کر پنڈی تک کیا سیاست دان خود فخر سے نہیں کہتے رہے کہ میں گیٹ نمبر چار کا آدمی ہوں ؟
عمران خان مقتدرہ کی اطاعت میں کسی سے پیچھے نہیں رہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ برملا اعتراف بھی کرتے ہیں۔ یہ جو انہوں نے کہا ہے اور کئی بار کہا ہے کہ ہمیں شریفوں اور زرداریوں کی کرپشن کی فائلیں خود انہوں نے دکھائیں تو سوال یہ ہے کہ آپ ان کے ہمراز بنے کیوں؟ وہ جو آپ کو بتاتے رہے یا دکھاتے رہے‘ آپ مانتے رہے! اور یہ تو عمران خان خود کہہ چکے ہیں کہ بل پاس کرانا ہوتا تھا تو بندے پورے کر کے دیتے تھے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو مونس الٰہی اور عمران خان‘ ایک ہی سطح پر ہیں!
فرض کیجیے کہ مقتدرہ سنجیدگی سے نیوٹرل رہنا چاہتی ہے! آپ کا کیا خیال ہے کہ سیاستدان اسے ایسا کرنے دیں گے؟ ہر گز نہیں! یہ اسے چین سے نہیں بیٹھنے دیں گے۔ کبھی راتوں کو چھپ کر ملیں گے کبھی دن کے وقت بر ملا! ایک دوسرے کی شکایتیں لگائیں گے! انہیں کھینچ کر درمیان میں لائیں گے!
چھوٹے چوہدری صاحب کا یہ دعویٰ‘ کہ انہیں فون پر کہا گیا کہ فلاں کا ساتھ دیجیے‘ نیوٹر ل ہونے کے دعوے پر بھی سوال پیدا کرتا ہے۔ع
ہیں کواکب کچھ‘ نظر آتے ہیں کچھ
شاید ہماری منزل اتنی نزدیک نہیں! ابھی ہمیں سرابوں میں بھٹکنا ہے۔
مصطفی زیدی نے کہا تھا ؎
ابھی تاروں سے کھیلو‘ چاند کی کرنوں سے اٹھلاؤ
ملے گی اس کے چہرے کی سحر آہستہ آہستہ
نہ جانے وہ دن کب آئے گا جب ہمارے اہلِ سیاست روبوٹ بننا بند کریں گے۔ اپنی عقل سے کام لیں گے اور ایک دوسرے کو شکست دینے کے لیے تیسری طرف دیکھنے کا سلسلہ ختم کریں گے۔مقتدرہ نہ صرف نیوٹرل ہو گی بلکہ اُس مقام پر رہے گی جہاں اسے ملک کا آئین کھڑا کرتا ہے۔ اپنی آخری تقریر میں سابق سپہ سالار نے بھارتی فوج کا ذکر کیا اور کہا کہ ''بھارتی عوام کم ہی اپنی فوج کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں‘ اس کے برعکس ہماری فوج گاہے گاہے تنقید کا نشانہ بنتی ہے‘ میرے نزدیک اس کی بڑی وجہ 70 سال سے فوج کی مختلف صورتوں میں سیاست میں مداخلت ہے جو غیر آئینی ہیـ!‘‘ــــــــ
مختلف صورتوں سے ان کی کیا مراد تھی ؟ کیا ان صورتوں میں وہ مداخلت بھی شامل ہے جو سول بیورو کریسی میں ہوتی رہی؟ اب اگر بھارت سے موازنے کی بات سابق سپہ سالار نے کر ہی دی ہے تو کیا یہ مناسب نہ ہو گا کہ موازنہ ایک مکمل سٹڈی کی شکل میں وسیع اور عمیق پیمانے پر کیا جائے؟ تشخیص کرنی ہے تو اس طرح کی جائے کہ کوئی پہلو تشنہ نہ رہے۔ اس کے بعد ہی دوا اور صحت کے مراحل آسکتے ہیں!! تشخیص ادھوری ہوئی تو بیماری ختم تو کیا ہونی ہے‘ اس کی شدت اور پیچیدگی میں اضافہ ہی ہو گا!
بظاہر تو منزل دور ہی نظر آرہی ہے۔ فریقین میں زخم پذیری (vulnerability) بہت زیادہ ہے۔ کسی وقت بھی طے شدہ روڈ میپ سے ہٹ سکتے ہیں۔ زیادہ ذمہ داری سیاست دانوں پر ہے۔ ماضی میں طالع آزماؤں کا ساتھ دے کر وہ کئی بار کھیت رہے۔اب مصمم ارادہ کریں کہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے کسی طالع آزما کے دسترخوان پر نہیں بیٹھیں گے۔ اس کے لیے اخلاقی بلندی بھی لازم ہے۔ یہ بھی تو تاریخ کا حصہ ہے کہ نیب کی تیار کردہ فائلیں دکھا کر سیاستدانوں کو نرغے میں لیا گیا اور بے بس کر دیا گیا! اس امتحان میں وہی کامیاب ہوں گے جن کا حساب پاک ہو گا اور محاسبے کا ڈر نہیں ہو گا!!