بحر الکاہل کے کنارے بیٹھا ہوں اور سہیل احمد خان مرحوم یاد آرہے ہیں!!
یہ دنیا ظالم ہے! بہت ظالم! میرؔ نے ایسے ہی تو نہیں کہا تھا
گھُٹ گھُٹ کے رہے میرؔ سے جب مرتے جہاں میں
تب جا کے یہاں واقفِ اسرار ہوئے ہم
یہاں نااہل کو مسند پر بٹھا دیا جاتا ہے اور علم اور عقل والے کونوں کھدروں میں چھپ کر وقت گزارتے ہیں۔ پرانے وقتوں میں جو کام درباروں میں ہوتا تھا اب وہ نام نہاد اردو کانفرنسوں‘ ادبی میلوں اور ٹیلی وژن کے مذاکروں اور مشاعروں میں ہوتا ہے۔حال ہی میں جنوب کے ساحلی شہر میں ایک اُردو کانفرنس کا انعقاد ہوا! حیرت ہوئی کہ وحید احمد اور معین نظامی جیسے نظم کے صفِ اول کے ممتاز شعرا اس میں مدعو نہیں تھے۔ پروفیسر احسان اکبر اُن بزرگ اہلِ دانش میں سے ہیں جو تقریر اور تحریر دونوں میں مسحور کر کے رکھ دیتے ہیں۔کمال کی غزل اور غضب کی نظم کہتے ہیں۔ پروفیسر آفتاب اقبال شمیم نظم گوئی میں اعلیٰ مقام رکھتے ہیں۔ وجاہت مسعود وہ ممتاز صحافی ہیں جن کی تاریخ اور فلسفۂ تاریخ پر گہری نظر ہے۔ نام نہاد اردو کانفرنسوں میں ہر بار چند مخصوص چہرے ہی دکھائے جاتے ہیں۔اب تو زوال اس حد تک آچکا ہے کہ فلمی گانوں کی طرز پر گائیکی کرنے والے مزاحیہ شاعری کرنے والوں کو بلایا جارہا ہے جن کے ہاں مزاح ہے نہ شاعری! ہاں ابتذال ضرور ہے۔ رہی سہی کسر ٹین ایجرز کے لیے عامیانہ شاعری کرنے والوں نے نکال دی!
سہیل احمد خان استاد بھی تھے‘ نقاد بھی‘ مدیر بھی۔ مگر اس عاجز لکھنے والے کی نظر میں نظم ان کی پہلی اور آخری محبت تھی۔ '' ایک موسم کے پرندے‘‘ سہیل احمد خان کی نظموں کا وہ مجموعہ ہے جو اردو شاعری میں اپنی نظیر نہیں رکھتا! ایک مختصر مجموعہ اس کے بعد بھی شائع ہوا۔ یوں ان کی مماثلت محبوب خزاں سے بنتی نظر آتی ہے۔ محبوب خزاں بھی اپنے مختصر مجموعۂ کلام‘‘ اکیلی بستیاں‘‘ کی وجہ سے ادب کی تاریخ میں ممتاز مقام رکھتے ہیں! مگر سہیل احمد خان کے ساتھ ستم یہ ہوا کہ ان کا نام ہی شعرا کے اکثر تذکروں سے غائب ہے! سہیل احمد خان کی نظمیں یکسر مختلف ہیں۔ انہوں نے عناصر پر نظمیں لکھیں جیسے ' آندھیاں‘ ، 'ہوائیں‘،'بارشیں‘۔'گلاب کا پھول‘ اور 'سفید گلاب‘ بھی کمال کی نظمیں ہیں۔ پرندے اور سمندر ان کے ہاں زندگی کی تیز رفتاری کی علامتوں کے طور پر آئے ہیں۔ ان نظموں کے عنوانات ہی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ کیسی طلسمی شاعری ہو گی۔ عنوانات دیکھیے۔ ایک سمندر کے پرندے‘ پرندوں کی بولی‘ پرندے‘ ہنس نامہ‘ راج ہنس‘ پت جھڑ کے مہاجر‘ ایک پرندے کی موت‘ تیس پرندے‘ بگلوں کی قطار‘ سمندری گھونگے کی آوازیں‘ سمندر کے پیچھے سمندر‘ کہاں ہے سمندر!
جس شاہراہ پر بیٹھا ہوں اس کا نام '' گریٹ اوشن روڈ‘‘ ہے۔ سامنے سمندر ہے۔ نام اس کا جنوبی سمندر ہے مگر اصلاً بحر الکاہل ہے۔ اس کے بعد جنوب میں کوئی انسانی آبادی نہیں! یہ آباد دنیا کا انتہائی جنوبی کنارا ہے!
سہیل احمد خان یاد آرہے ہیں۔ ان کی نظم '' ایک لمحے کا سمندر‘‘ جیتی جاگتی شکل میں سامنے ہے! ایک لمحے میں‘ صرف ایک لمحے میں کیا کچھ ہو جاتا ہے! ایک لمحے میں‘ صرف ایک لمحے میں پورا منظر نامہ بدل جاتا ہے۔ جو پرندے پانی میں غوطے لگا لگا کر اپنے پروں کو دھو رہے تھے۔ اسی لمحے اُڑ گئے ہیں۔ شور مچاتی‘ جھاگ پیدا کرتی موجیں ساحل سے ٹکرا گئی ہیں۔ ٹھہرے ہوئے بادلوں کے قافلے چل پڑے ہیں۔ سامنے ایک کشتی جو ساکن کھڑی تھی‘ رواں ہو گئی ہے۔ ایک پرندے کا پر‘ جو اس کے جسم سے الگ ہو کر اُڑ رہا تھا‘ نیچے ساحل کی ریت پر گر پڑا ہے! جہاز کے عرشے سے اُٹھتی ہوئی کُوک‘ پانیوں میں گم ہو گئی ہے۔ یہ سب کچھ‘ یہ سب تبدیلیاں‘ صرف ایک لمحے میں ظہور پذیر ہوئی ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ خود یہ لمحہ کہاں ہے ؟ یہ لمحہ خود بھی گزر گیا ہے! فنا ہو گیا ہے! اب یہ کبھی واپس نہیں آئے گا!
یہ سمندر ہماری زندگی کا سمبل ہے! یہ لمحہ ہی زندگی ہے۔ اس ایک لمحے میں کئی جہان آباد ہیں۔یہ ایک لمحہ جو گزرا ہے‘ اس میں کتنے بچے اس کرہ ٔارض پر لامکان سے آموجود ہوئے! کتنے انسان زمین کے سینے سے زمین کے پیٹ میں منتقل ہو گئے! کتنے جہاز فضا میں بلند ہوئے‘ کتنے ہوا سے زمین پر آئے۔لاکھوں کروڑوں لوگ سامان اٹھائے سفر پر چل پڑے۔ کتنے اپنے ٹھکانوں کولوٹے! اس ایک لمحے میں زمین کو کروڑوں درختوں سے محروم کر دیا گیا۔ کروڑوں ٹن کثافت فضا میں شامل ہو گئی۔ آلودگی سے سمندر کچھ اور بھر گئے۔لاکھوں انسان خطِ غربت سے نیچے لڑھک گئے۔ اس ایک لمحے میں اربوں کھربوں کا سرمایہ مفلوک الحال ملکوں سے خوشحال ملکوں میں منتقل ہو گیا۔ یوں امیر امیر تر اور پسماندہ‘ پسماندہ تر ہو گئے! اس ایک لمحے میں کتنے بچوں نے ریستورانوں میں برتن مانجھے‘ورکشاپوں میں گاڑیاں صاف کیں‘ بسوں کے اڈوں پر آوازیں لگائیں۔مار کھائی اور ناگفتہ بہ سلوک کا شکار ہوئے۔ یہ ایک لمحہ پاکستان جیسے ملک کو کوسوں پیچھے لے گیا اور کئی ملکوں کو کوسوں آگے لے گیا۔
ہم تئیس کروڑ ہیں۔ یہ لمحہ‘ جو گزرا ہے‘ اور ہم نے ضائع کیا ہے‘ یہ ایک لمحہ نہیں تھا۔ یہ تئیس کروڑ لمحے تھے۔یہ کبھی واپس نہیں آئیں گے۔ ہم ہر گزرتے لمحے میں کروڑوں قیمتی لمحے کوڑے کرکٹ کے ڈھیر پر پھینک دیتے ہیں۔ ہم نے لمحہ لمحہ کر کے پچھتر سال ضائع کر دیے۔ غور کیجیے۔ اس ملک میں گلگت سے لے کر کراچی تک اور لاہور سے لے کے کوئٹہ تک کتنے سرکاری اور نیم سرکاری دفتر ہوں گے! ان دفتروں میں کام کرنے والوں کی بھاری اکثریت صبح کئی گھنٹے تاخیر سے کام پر پہنچتی ہے۔کسی شاہراہ پر حادثہ ہو جائے‘ دو گاڑیاں ٹکرا جائیں تو سینکڑوں لوگ اکٹھے ہو جاتے ہیں اور گھنٹوں کھڑے رہتے ہیں۔ ہماری بسیں‘ ٹرینیں اور ہوائی جہاز کبھی وقت پر روانہ ہوتے ہیں نہ پہنچتے ہیں! ہماری شادیاں‘ ولیمے‘ براتیں‘ جنازے سب گھنٹوں کی تاخیر سے شروع ہوتے ہیں اور ختم ہونے کے لیے وقت کی حد کوئی نہیں!ہمارے تاجر دوپہر کے بعد بزنس شروع کرتے ہیں! ہمارا کوئی وزیر‘ کوئی حکمران‘ وقت پر دفتر آتا ہے نہ کسی تقریب میں! ہمارے ہاں گھڑیوں کے بہت تذکرے ہیں۔ پہلے میاں نواز شریف کی گھڑی مشہور تھی جس کی قیمت مبینہ طور پر کروڑوں میں تھی۔ اب عمران خان کے حوالے سے گھڑیوں کے معاملات نے حشر برپا کر رکھا ہے۔ تاہم گھڑیوں سے ہمارا سارا تعلق گھڑیوں کی قیمتوں سے ہے۔ ہمارا تعلق اُس وقت سے بالکل نہیں جو یہ گھڑیاں بتاتی ہیں۔ ہمارے ہاں ہر چیز کی کمی ہے۔ غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر سے لے کر برآمدات تک‘ٹیکسوں سے لے کر مالیہ تک‘ روپے کی قدر‘خواندگی کی شرح‘سالانہ شرحِ نمو‘‘ بجلی کی پیداوار‘ فی کس آمدنی‘پانی کی سپلائی‘ گھروں کی تعداد‘قومی ایئر لائن کے جہازوں کی تعداد‘ غرض سارے اشاریے کمی کی طرف جا رہے ہیں۔ صرف ایک شے ہمارے ہاں افراط میں ہے اور خوب افراط میں ہے! وہ ہے وقت!
لمحے ہوں یا مہینے یا سال‘ ہم انہیں ردی کی ٹوکری میں پھینکتے چلے جاتے ہیں! ہمارے لمحے ہوں یا مہینے یا سال‘ سب بانجھ ہیں! غیر پیداواری ہیں! وقت بہت منتقم مزاج ہے‘ ہم نے اسے کوئی اہمیت نہیں دی! اس نے بھی ہمیں ادھیڑ کر رکھ دیا! جن قوموں نے وقت کی قدر کی‘ اسے اہمیت دی‘ انہیں وقت نے نوازا! بقول احمد ندیم قاسمی ؎
پَل پَل میں تاریخ چھپی ہے‘گھڑی گھڑی گرداں ہے ندیمؔ
ایک صدی کی ہار بنے گی ایک نظر کی بھُول یہاں