کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ زندگی گزارنے کے لیے کچھ ملکوں کو بہترین ممالک کیوں قرار دیاجاتا ہے؟
یہ وہ ممالک ہیں جن میں امن و امان حد درجہ اطمینان بخش ہے۔ باشندے اپنے آپ کو محفوظ سمجھتے ہیں۔ صحت اور تعلیم کی سہولتیں اعلیٰ درجے کی ہیں! اوسط عمر طویل ہے۔ ملازمت حاصل کرنے کے اور بزنس کرنے کے مواقع سب کے لیے برابر ہیں۔ مزدوروں اور کارکنوں کو ڈیوٹی کے دوران بہترین ماحول مہیا کیا جاتا ہے۔ عوام کو پولیس پر اعتماد حاصل ہے۔ حکمران اپنا سودا سلف خود خریدتے ہیں اور عام شہریوں کی طرح رہتے ہیں! ان ملکوں میں ناروے‘ سویڈن‘ ڈنمارک‘ آئر لینڈ‘ فِن لینڈ‘ آئس لینڈ‘ نیدرلینڈز‘ کینیڈا‘ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ شامل ہیں۔ ان میں سے چار ملکوں کی وزرائے اعظم‘ آج کل‘ خواتین ہیں۔ آئس لینڈ کی خاتون وزیر اعظم گزشتہ پانچ سال سے حکومت کر رہی ہیں۔ ڈنمارک اور فن لینڈ کی خواتین وزرائے اعظم کو تین تین سال ہو گئے ہیں۔ نیوزی لینڈ کی خاتون وزیر اعظم پانچ سال سے اقتدار پر فائز ہیں۔ ماضی قریب میں وہاں جب ایک دہشت گرد نے مسلمانوں کا قتل عام کیا تو خاتون وزیراعظم نے بہترین رویّے کامظاہرہ کیا۔ انہوں نے اپنی مسلم آبادی کے غم میں شریک ہو کر مثالی اقدامات کیے۔ پوری مسلم اور غیر مسلم دنیا نے ان کی کارکردگی کی تعریف کی۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ایک خاتون‘ انگیلامرکل‘ نے جرمنی پر سولہ سال حکومت کی اور ماضی قریب میں ریٹائر ہوئیں۔ انہوں نے شام اور عراق کے مہاجرین کے لیے جرمنی کی آغوش وا کی اور لاکھوں مسلمانوں کو پناہ دی۔ ساری مدّتِ اقتدار میں انہوں نے معمولی پرانا لباس پہنے رکھا۔ مارگریٹ تھیچر بھی ایک خاتون تھیں۔ وہ گیارہ سال برطانیہ کی وزیر اعظم رہیں اور کئی انقلابی اقدامات کیے۔
اب وزرائے خارجہ کا بھی ذکر ہو جائے۔ گزشتہ پچھتر برس کے دوران‘ دنیاکے مختلف ملکوں میں تقریباً تین سو عورتیں اپنے اپنے ملک کی وزیر خارجہ رہی ہیں۔ان میں بڑے‘ چھوٹے‘ ترقی یافتہ‘ ترقی پذیر ممالک‘ سب شامل ہیں۔ امریکہ کی تین وزرائے خارجہ‘ میڈلین البرائٹ‘ کنڈولیزارائس اور ہلیری کلنٹن نے تو عالمی شہرت پائی مگر بے شمار دیگر خواتین نے بھی سفارت کاری میں کارہائے نمایاں سرانجام دیے۔ پاکستان کے علاوہ جن دیگر مسلمان ملکوں میں خواتین وزرائے خارجہ رہیں‘ ان میں قازقستان‘ ازبکستان‘ کرغزستان‘ ترکی‘ البانیہ‘ بوسنیا‘ سیرا لیون‘ لیبیا اور سوڈان شامل ہیں۔
یہ قصہ اس لیے چھیڑنا پڑا کہ دو دن پہلے ہماری پارلیمنٹ کے ایک فاضل رکن نے امور ِخارجہ کی وزیر مملکت‘ حنا ربانی کھر‘ پر اعتراض کیا کہ ایک خاتون وزیر کا افغانستان جا کر مذاکرات کرنا درست نہیں تھا۔ اگرچہ انہوں نے بعد میں معذرت کردی مگر‘ بہر طور‘ اس اعتراض سے ایک خاص مائنڈ سیٹ کا پتا چلتا ہے۔ یہ مائنڈ سیٹ صرف مذہبی طبقات تک محدود نہیں ہے۔ اس میں جاگیردار‘ سردار‘ اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ‘ مڈل کلاس‘ اَن پڑھ‘ شہری‘ دیہاتی سب شامل ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے ہم نے اپنے قارئین کو بتایا تھا کہ حال ہی میں ایک تعلیم یافتہ جوڑے کے ہاں جب دوسری بیٹی کی ولادت ہوئی تو ان کے اعلیٰ تعلیم یافتہ دوستوں کی اکثریت نے ان کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا۔ ہمدردی‘ بلکہ افسوس‘ کرنے والوں میں انجینئر‘ ڈاکٹر اور سائنسدان شامل تھے۔ یہ اور بات کہ ماں باپ خود دوسری بیٹی کی آمد پر خوش تھے۔
پارلیمنٹ کے معزز رکن‘ اور ان کے ہم خیال حضرات نے‘ عورتوں پر ہونے والے ظلم و ستم اور نا انصافیوں پر کبھی کوئی رد عمل نہیں دکھایا۔ یہ جو حوا کی لاکھوں بیٹیوں کو اس لیے مارا پیٹا جاتا ہے‘ گھروں سے نکال دیا جاتا ہے اور طلاق دے دی جاتی ہے کہ بیٹی کیوں پیدا کی اور بیٹا کیوں نہیں جنم دیا تو یہ حضرات اس حوالے سے قانون سازی کیوں نہیں کرتے ؟ آخر پارلیمنٹ میں تشریف فرما ہیں! کاروکاری‘ ونی اور سوارہ جیسی ظالمانہ‘ وحشیانہ اور غیر اسلامی جبری رسموں کے خلاف کیوں نہیں آواز اٹھاتے ؟ وراثت میں عورتوں کو ان کا حق نہیں ملتا۔ اس کے بارے میں کبھی کوئی تقریر نہیں کرتے! لڑکیوں کی شادیاں ان کی رضامندی کے خلاف کی جاتی ہیں جو اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے مگر ان فاضل معززین نے کبھی اس بارے میں اظہارِ خیال نہیں فرمایا۔ بچیوں کے سکول جلا دیے جاتے ہیں مگر احتجاج کا ایک لفظ ان حلقوں کی طرف سے سننے میں نہیں آتا!
کوئی مانے یا نہ مانے‘ زمینی حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی معاشرہ‘ عملاً مرد کی بالا دستی( Male chauvinism)کا شکار ہے۔ بجا کہ مرد خاندان کے یونٹ کا سربراہ ہے‘ تو پھر عورت کو اس یونٹ کا وزیر اعظم کیوں نہیں مانا جاتا؟ یہ مردانہ بالادستی عورت کی پیدائش ہی سے شروع ہو جاتی ہے۔ بیٹی کی پیدائش کی خبر ملے تو موت پڑ جاتی ہے۔ چہرہ سیاہ ہو جاتا ہے۔ نرسوں سے پوچھئے کہ جب وہ بیٹی کی پیدائش کی خبر دیتی ہیں تو دادیوں کا رد عمل کیا ہوتا ہے۔ بعض دادیاں تو خبر دینے والی نرس کو مارنے لگ جاتی ہیں۔ دو پوتیاں آ جائیں تو دادی نئی بہو لانے کا سوچنا شروع کر دیتی ہے۔ اس سے کوئی پوچھے کہ بڑی بی! تم بھی ایک عورت ہو۔ کیا تمہاری پیدائش بھی منحوس تھی ؟ پھر جب اعلیٰ تعلیم کا مرحلہ آتا ہے تو بیٹی کو کہا جاتا ہے کہ تم نے کون سی نوکری کرنی ہے جو آگے پڑھو؟ حالانکہ روز مرہ کا مشاہدہ ہے کہ تعلیم یافتہ ماں اور اَن پڑھ ماں کی اولاد میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ شادی کا وقت آئے تو جہیز کا بہانہ بنا کر بیٹی کو وراثت سے محروم کر دیا جاتا ہے حالانکہ بیٹے کی بری پر بھی کم خرچ نہیں ہوتا۔ بیٹی بھائی کے کپڑے استری کرتی ہے۔ بھائی بہن کے لیے یہ کام کبھی نہیں کرتا۔ بہن ہی چائے بنائے! بھائی کبھی نہیں چائے بناتا! فیل ہونے والے یا کم نمبر لینے والے لڑکے کی سب کو فکر ہے مگر لائق بیٹی یونیورسٹی میں داخلہ لینے کی خواہش کرے تو اس خواہش کو قتل کر دیا جاتا ہے۔
یہ بھی طرفہ تماشا ہے کہ جو طبقات تعلیمِ نسواں کے مخالف ہیں‘ ان کی خواتین بیمار پڑ جائیں تو مرد ڈاکٹر کے بجائے خاتون ڈاکٹر کو تلاش کرتے ہیں! پہلے درخت کاٹتے ہیں‘ پھر چھاؤں تلاش کرتے ہیں۔ ہماری ترجیحات عجیب ہیں۔ دنیا عناصر کو فتح کرنے کی فکر میں ہے۔ ستاروں تک پہنچنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ہم عورت کو نیچا دکھانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ کبھی اس کی تعلیم پر معترض ہیں۔ کبھی اسے کھیل کے میدان میں دیکھ کر غضب ناک ہو رہے ہیں۔ ٹیڑھی پسلی سے لے کر پاؤں کی جوتی تک‘ ہمارے محاورے بیمار ذہنیت کی عکاسی کر رہے ہیں۔ تاریخ میں پڑھایا جاتا ہے کہ عورتیں‘ کبھی تخت پر بیٹھ کر‘ کبھی پسِ پردہ رہ کر‘ سلطنتوں کی باگیں کھینچتی رہی ہیں۔بڑے بڑے فیصلے کرتی رہی ہیں‘ آج انہیں عضوِ معطل کر دینے پر اصرار ہے۔ کچھ عرصہ پہلے ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ افسر خاندان سے تعارف ہوا۔ لڑکی ان کی ڈاکٹری پڑھ کر شادی کے انتظار میں برسوں سے بیٹھی ہوئی تھی۔ جو بھی رشتہ آتا‘ لڑکی کے تایا سے اور دادی سے رائے لی جاتی۔ تایا یورپ میں رہ رہے تھے اور دادی امریکہ میں۔ ان دونوں کی آرا میں موافقت ہو ہی نہیں رہی تھی۔ اگر رائے نہیں لی جا رہی تھی تو بیچاری لڑکی کی! المیہ یہ ہے کہ جہالت کی کئی قسمیں ہیں! ہمارے ہاں‘ ماشاء اللہ یہ ساری قسمیں موجود ہیں؛ تاہم سب سے زیادہ خطرناک قسم جہالت کی وہ ہے جو اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں میں پائی جاتی ہے!