جس ماں کے سارے بچے نالائق اور غیر سعادت مند ہوں وہ بچوں کو نہیں کوستی‘ وہ صرف اور صرف اپنی قسمت کو روتی ہے۔
قوم رو رہی تھی کہ عمران خان نے وعدہ سترہ رکنی کابینہ کا کیا تھا اور وزیروں مشیروں کی تعداد پچاس پچپن ہو گئی تھی۔ اب پی ڈی ایم کی حکومت میں کابینہ پھُول کر پچھتر تک پہنچ گئی ہے۔ ہر کوئی چھری پکڑے اپنے لیے گوشت کاٹ رہا ہے۔اونٹ بے شک زخموں سے چور ہو کر گر پڑے! پی ڈی ایم والے اگر عمران خان کے مقابلے میں اتنے ہی مخلص تھے تو قربانی دیتے اور وزارتیں نہ لیتے! پندرہ یا بیس رکنی کابینہ بناتے اور اپنے آپ کو بر تر ثابت کرتے! مگر یہاں تو جو بھی آتا ہے اپنے پیشرو سے زیادہ ''نیک‘‘ ثابت ہوتا ہے۔ کسی ایک پارٹی نے بھی نہیں کہا کہ ہم وزارت نہیں لیں گے۔ اس لیے کہ ؎
براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے
ہوس سینوں میں چھپ چھپ کر بنا لیتی ہے تصویریں
بلٹ پروف گاڑیوں کی تقسیم کی جو تفصیل بتائی گئی ہے‘ ہوشربا ہے۔ عمران خان‘ شاہد خاقان عباسی‘ مولانا اسعد محمود‘ بلاول بھٹو زرداری‘ عطا تارڑ‘ اور رانا ثنا اللہ بلٹ پروف گاڑیوں سے متمتع ہو رہے ہیں۔ سپیکر قومی اسمبلی‘ ڈپٹی سپیکر‘ چیئرمین سینیٹ‘ چیف الیکشن کمشنر‘ چیئرمین پی اے سی اور سیکرٹری داخلہ بھی اس فہرست میں داخل ہیں۔ اس پر مستزاد‘ اٹھارہ وی آئی پی گاڑیاں بھی تقسیم کی گئی ہیں۔ سردار ایاز صادق‘ مرتضیٰ جاوید عباسی‘ قمر زمان کائرہ‘ رانا تنویر حسین‘ احسن اقبال‘ عبد القادر پٹیل‘ طارق بشیر چیمہ‘ سعد رفیق‘ شاہ زین بگتی‘ راجہ ریاض اور یوسف رضا گیلانی کے علاوہ اس فہرست میں احد چیمہ بھی شامل ہیں۔ ان گاڑیوں کی مرمت پر ساڑھے چھ کروڑ روپے اور ان میں بھرے جانے والے پٹرول پر ایک کروڑ اٹھائیس لاکھ صرف ہوئے ہیں۔ یہ سب کچھ سرکاری خزانے سے ہورہا ہے۔ جس ہولناک صورتحال کا اس وقت ملکی معیشت کو سامنا ہے‘ اس کے پیش نظر ان صاحبوں کو اپنی گاڑیاں اور اپنا پٹرول استعمال کرنا چاہیے تھا۔ یہ سب حضرات آسودہ حال ہیں۔ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جو صاحبِ استطاعت نہ ہو۔ ملک کی بھوکی‘ ننگی‘ قلاش معیشت‘ اکھڑتی سانسوں کے ساتھ‘ عوام کا پیٹ کاٹ کر‘ یہ عیاشیاں برداشت کر رہی ہے۔ کیا ان گاڑیوں اور اس سرکاری پٹرول کا کوئی جواز ہے ؟
افسوس ! ہم بے زبان لاشوں سے کفن لے اُڑتے ہیں۔ایک پھل کھانے کے لیے درخت گرا دیتے ہیں۔ہماری لالچ کی کوئی انتہا نہیں! ان بد ترین حالات میں کسی ایک حکومتی بڑے نے قطمیر کے برابر قربانی نہیں دی! اندازہ لگائیے! مفلوک الحال لوگ اپنے موٹر سائیکلوں‘ ٹیکسیوں اور گاڑیوں میں پٹرول ڈلوا رہے ہیں مگر یہ امرا اتنا بھی نہیں کر سکتے کہ اگر گاڑیاں قومی خزانے سے لی ہیں تو کم از کم پٹرول کے دام ہی اپنی جیبوں سے نکال لیں ! تبدیلی سرکار کا کچا چٹھا بھی آہستہ آہستہ سامنے آرہا ہے۔ جنوری2019ء سے لے کر‘ مارچ2022ء تک عمران خان صاحب کے ہیلی کاپٹر کی سواری پر 43کروڑ سے زیادہ کے اخراجات آئے۔ یہ خطیر رقم بھی عام پاکستانی کے پچکے ہوئے پیٹ سے نکالی گئی ہے۔صوبوں میں جھانک کر دیکھیں تو مالِ مفت دلِ بے رحم کی ایسی شرمناک مثالیں اربوں تک پہنچتی ہیں۔
عوام تو خون پسینہ ایک کر کے ان امرا کو لگژری بھری زندگی بہم پہنچا رہے ہیں‘ سوال یہ ہے کہ عوام کو بدلے میں کیا مل رہا ہے؟ کسی بھی حکومت کا بنیادی اور اہم ترین فرض عوام کے جان‘ مال اور عزت کی حفاظت ہے۔ دنیا کے غریب سے غریب ملک میں یہ فرض بدرجہ اتم ادا کیا جاتا ہے۔ مگر پاکستان میں عوام کو صرف نچوڑا جاتا ہے۔ بدلے میں امرا اور وزرا کی یہ فوج ظفرموج صرف بیانات دیتی ہے۔ صرف ایک دن( سولہ دسمبر) کا سکور‘ وہ بھی صرف اسلام آباد راولپنڈی کے جڑواں شہروں کا‘ ملاحظہ فرمائیے! ایک وفاقی حکومت کی ناک کے عین نیچے ہے۔دوسرا تختِ لاہور کی رعایا ہے۔ دونوں شہروں میں انتیس مقامات پر وارداتیں ہوئیں۔ ان مقامات میں دونوں شہروں کے پوش علاقے بھی شامل ہیں۔ ڈاکو اور چور چھ گاڑیاں‘ چالیس موٹر سائیکل‘ دو آسٹریلین گائیں‘ لاکھوں روپے نقد‘ لاکھوں کے طلائی زیورات اور کئی موبائل فون لے اُڑے۔ بیرونِ ملک سے آنے والے پاکستانی سخت غیر محفوظ ہیں۔ انہیں لُوٹنے کی وارداتیں روز کا معمول ہیں۔
یہ ملک کیسے چلایا جا رہا ہے؟ تازہ ترین مثال دیکھیے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ پی آئی اے میں فی جہاز عملہ دوسرے ملکوں کی ایئر لائنوں سے کہیں زیادہ ہے۔ یہ ایک بڑا سفید ہاتھی ہے جس کے اندر بے شمار سفید ہاتھی بھرے ہیں۔ جرأت دیکھیے کہ مزید بھرتی کرنا چاہتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے بھرتیوں پر پابندی لگائی ہوئی ہے اس لیے ایئر لائن سپریم کورٹ میں پہنچ گئی۔ سپریم کورٹ نے انتہائی جائز‘ اہم اور منطقی سوالات پوچھے۔ مثلاً یہ کہ کُل جہاز ہی تیس ہیں تو مزید اسّی پائلٹ کیوں لینا چاہتے ہیں؟ بیرونی روٹس بند ہو چکے‘ اندرونِ ملک لوگ پی آئی اے میں بیٹھنا پسند نہیں کرتے‘ تو مزید عملہ کیا کرے گا؟ جس زمانے میں یہ لکھنے والا قومی ایئر لائن سے پر ہیز نہیں کرتا تھا‘ ہر سفر میں دو دھچکے ضرور لگتے تھے۔ پہلا یہ کہ تاخیر اس قدر ہوتی تھی کہ اگلے ایئر پورٹ پر Connected پرواز جا چکی ہوتی تھی۔ دوسرا یہ کہ‘ بہترین نشستیں ایئر لائن کے اپنے ملازموں کے قبضے میں ہو تی تھیں جومفت سفر کرتے تھے۔ اللہ نہ کرے وہ وقت آئے کہ جہاز ایک بھی نہ ہو اور ملازموں کی پرورش بدستور ہوتی رہے۔ ایک پرانا لطیفہ یاد آرہا ہے۔ایک پاکستانی وفد افغانستان گیا تو وزرا سے تعارف کرایا گیا۔ ایک صاحب کے بارے میں بتایا گیا کہ یہ افغانستان کے وزیر ریلوے ہیں۔ پاکستانی وفد نے تعجب کا اظہار کیا کہ افغانستان میں تو ریلوے کا وجود ہی نہیں ! اس پر افغان میز بانوں نے دلیل پیش کی کہ آخر پاکستان میں بھی تو وزیر قانون ہوتا ہے !
ملک کو بہت آرام سے اور مزے مزے سے کھایا جا رہا ہے۔( مناسب لفظ یہاں کھانا نہیں‘ بھنبھوڑنا ہے مگر کیا کیا جائے‘ پیشانیوں پر بل نہ پڑ جائیں! ) اور باقاعدہ چھری کانٹے کے ساتھ کھایا جا رہا ہے۔ شان و شوکت سے میز کرسی پر بیٹھ کر کھایا جا رہا ہے۔ ساتھ جام‘ مکھن‘ شہد اور آملیٹ بھی ہے۔کھانے والوں کی آنکھ میں حیا ہے نہ کھلانے والے ہی شرم کی رمق رکھتے ہیں۔ اب تو یوں بھی سارے حجابات اُٹھ گئے ہیں ! کیسا پردہ اور کہاں کی جھجک؟ ہر سیاسی رہنما کے پجاری اس کے گناہوں کی توجیہ اور جواز بے دھڑک پیش کرتے ہیں۔ اور ان رہنماؤں کا اسلوبِ زندگی دیکھیے! خان صاحب جہاز اور ہیلی کاپٹر سے نیچے نہیں اترتے! گھر تین سو کنال کا ہے۔ ان دنوں لاہور میں ہیں۔ زمان پارک کے پاس سے گزرنے والے عذاب میں ہیں۔ پنجاب حکومت خدمت میں رات دن سرگرم ہے۔ گھر میں بلٹ پروف شیشے مبینہ طور پر نوّے لاکھ کے لگے ہیں! رہے میاں صاحب تو وہ لندن ہی کو گھر سمجھتے ہیں۔ گزشتہ عہدِ اقتدار کے دوران سترہ دورے لندن کے کیے۔ حال ہی میں انہوں نے اپنے خاندان کے ہمراہ یورپ کی سیر کی ہے! یہ اور بات کہ لندن کے مہنگے علاقے میں‘ مہنگے گھر میں رہتے ہیں جہاں رہنا بھی سیر ہی ہے۔ گویا سیر کے اندر سیر ! پاکستانی عوام دو وقت کی روٹی مشکل سے پوری کر رہے ہیں۔ ساتھ والے شہر کو جانا ہو تو کئی بار سوچتے ہیں۔ انہی پِسے ہوئے عوام پر خان صاحب اور میاں صاحب ایک بار پھر حکومت کرنا چاہتے ہیں !! یا اللہ آفات و بلیات سے محفوظ رکھ !!