صائمہ خان ایک نیک دل خاتون تھیں۔ انہوں نے اسلام آباد کے علاقے چک شہزاد میں ایک چھوٹے سے گھر میں‘‘ اولڈ ہوم‘‘ بنایا ہوا تھا۔اس میں وہ چار یا پانچ بے گھر بزرگ مردوں اور بزرگ عورتوں کی دیکھ بھال کرتی تھیں۔ گھر چھوٹا تھا۔ پھر یہ سارا کام وہ تن تنہا ہی سر انجام دیتی تھیں۔ گنتی کے چند افراد اس کام میں مالیاتی شرکت کر لیتے تھے‘ وہ بھی کبھی کبھی‘ مگر انتظام سارا صائمہ خان کے کندھوں پر تھا۔ یہ کام وہ ملازمت کے ساتھ ساتھ کر رہی تھیں۔ میں ایک بار اس اولڈ ہوم میں گیا اور ان کی بے لوث خدمت سے بے حد متاثر ہوا۔ سال بھر پہلے صائمہ خان گاڑی کے حادثے میں جاں بحق ہو گئیں۔اولڈ ہوم بند ہو گیا۔صائمہ خان اولڈ ہوم میں لائے جانے اور رکھے جانے والے بزرگوں کے حالات کبھی کبھی اپنی وال پر لکھتی تھیں۔ یہ حالات درد ناک بھی ہوتے تھے اور عبرتناک بھی ! ایک بار انہوں نے ایک بزرگ خاتون کو فٹ پاتھ پر بیٹھے ہوئے دیکھا۔ ساتھ سامان کی پوٹلی پڑی تھی۔پوچھا تو معلوم ہوا بہو نے گھر سے نکال دیا ہے۔ صائمہ خان انہیں اولڈ ہوم لے آئیں۔ ان کے بیٹے نے انہیں واپس لے جانا چاہا مگر بزرگ خاتون نے انکار کر دیا۔ جس دن میں اولڈ ہوم گیا‘ صائمہ خان نے مجھے اس بزرگ خاتون سے ملوایا۔ اولڈ ہوم بند ہونے کے بعد نہ جانے ان کا کیا بنا۔ایک اور صاحب جو بہت امیر کبیر تھے‘ گردشِ زمانہ سے تہی دست ہو کر‘ گرتے پڑتے‘ اولڈ ہوم پہنچے۔ بہت بیمار تھے۔ صائمہ خان نے ان کے ٹیسٹ کروائے اور علاج مہیا کیا۔
بزرگوں کے معاملے میں ہمارا معاشرہ گزشتہ پچاس ساٹھ برسوں کے دوران بہت تبدیل ہو چکا ہے۔ بد قسمتی سے یہ تبدیلی مثبت نہیں منفی ہے۔ یہ معاشرہ تو ایسا تھا کہ بزرگ‘ آخری دم تک خاندان کا مرکز رہتے تھے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ بیٹے اور پوتے چلتے وقت بڑے میاں کے پیچھے چلا کرتے۔ کھانا کھانے کا وقت ہوتا تو ہاتھ دھلانے کے لیے دوڑ لگتی۔ چارپائی سے نیچے اترنا ہوتا یا مسجد سے باہر نکلتے تو بیٹے آگے بڑھ کر جوتے سیدھے کرتے۔ گھر میں‘ یا کسی مجلس میں باپ داخل ہوتا تو بیٹے اُٹھ کر کھڑے ہو جاتے۔ہمارے گاؤں میں تین نیم تعلیم یافتہ بھائی تھے۔ ان کا والد ایک اَن پڑھ زمیندار تھا۔ وہ گھر سے نکلتا اور اس کے کھانسنے کی آواز مردانے میں پہنچتی تو تینوں لڑکے فوراً کھڑے ہو جاتے! یہی مقام استاد کا بھی تھا۔ ہم نے دیکھا کہ اُس زمانے میں بڑے بڑے لوگ اپنے سر سے نئی پگڑی اتار کر استاد کی کرسی‘ یا مسند‘ صاف کرتے۔اور یہ واقعہ تو مشہور ہے کہ شاگرد اور استاد دونوں زندان میں تھے۔سرما کا موسم تھا۔ شاگرد رات بھر ٹھنڈے پانی کا کوزہ اپنے جسم سے لگائے رکھتا۔ یوں سحری تک پانی ذرا سا گرم ہو جاتا۔ گرم کیا ہوتا‘ بس یخ بستگی ذرا کم ہو جاتی۔وہ یہ پانی وضو کے لیے استاد کی خدمت میں پیش کرتا۔ اس ماحول میں اور ان روایات کے ساتھ‘ بزرگ جب ضعفِ پیری کا شکار ہو تے تو ان کی دیکھ بھال میں پورا خاندان جُت جاتا۔ مشترکہ خاندانی نظام (جوائنٹ فیملی سسٹم) بھی اپنا کردار ادا کرتا۔ بیٹیاں‘ بہوئیں‘ بھتیجیاں‘ بیٹے‘ پوتے‘ چھوٹے بھائی‘ داماد‘ سب بابے کی خدمت میں رات دن ایک کر دیتے۔ بزرگ کئی کئی سال صاحبِ فراش رہتے مگر دیکھ بھال میں کمی نہ آتی!
آج کا منظر نامہ کیا ہے ؟ آج کا منظر نامہ یکسر بدل چکا ہے۔ بزرگوں کی بد قسمت ترین کیٹیگری وہ ہے جن کے سب بیٹے بیٹیاں ملک سے باہر چلے گئے ہیں۔ اب صرف میاں بیوی گھر میں رہ گئے ہیں۔ اس صورتحال کوEmpty Nest Syndrome بھی کہا جانے لگا ہے۔ یعنی ؎
خالی مکاں میں کوئی نہ لَوٹا تمام عمر
دو پہریدار روتے رہے‘ جاگتے رہے
مشترکہ خاندانی نظام شکست و ریخت کا شکار ہو چلا۔بیٹے دو اقسام میں بٹ گئے۔ ایک قسم ان خوش بخت بیٹوں کی ہے جن کی بیویاں نجیب خاندانوں سے ہیں۔ان بیویوں نے اپنے ماں باپ کے گھر میں‘ اپنے دادا دادی اور نانا نانی کی خدمت ہوتے دیکھی ہے۔ بزرگوں کی تعظیم اور احترام ان کی تربیت کا حصہ ہے۔ ایسی خواتین اپنے سسر اور ساس کی خدمت بجا لانے میں میاں کا ساتھ دیتی ہیں اور میاں کے جذبات کا خیال رکھتی ہیں۔ مسئلے کا انحصار بنیادی طور پر بیٹے کے رویے پر ہے۔ بعض سیاہ بخت اپنے بزرگوں سے خود ہی غافل ہو جاتے ہیں۔یہ دنیا اور عاقبت دونوں میں خسارے کا سودا ہے۔
مرحوم ملک غلام مرتضیٰ‘ غالباً پہلے واعظ تھے جنہوں نے شد و مد سے یہ بات کہی کہ عورت اپنے ساس سسر کی خدمت کی ذمہ دار نہیں اور یہ کہ شوہر کا فرض ہے کہ بیوی کو پکا ہوا کھانا مہیا کرے۔ اس تصور پر گرفت ہو ئی تھی۔ ہر شخص کے مالی حالات ایسے نہیں ہوتے کہ وہ الگ گھر لے سکے اور ماں باپ کی خدمت کے لیے ملازم رکھ سکے۔ کچھ تقاضے انسانیت کے حوالے سے بھی ہوتے ہیں۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت عمر فاروقؓ جس بڑھیا کے گھر میں پو پھٹے جا کر صفائی کرتے تھے‘ وہ تو ان کی رشتہ دار تک نہیں تھی! ایک ٹی وی فیم مشہور واعظہ نے بھی یہ خیال اپنی پیروکارعورتوں کے ذہنوں میں راسخ کر دیا ہے کہ ساس سسر کی خدمت ان کے فرائض میں شامل نہیں۔ اس کے اثرات کا مشاہدہ متعدد خاندانوں میں ہم نے خود کیا ہے۔ ہمارے ایک دوست راوی ہیں کہ ایک بیوی نے کہا کہ شریعت کی رُو سے وہ کھانا پکانے کی مکلّف ہے نہ اپنے ساس سسر کو ساتھ رکھنے کی۔ شوہر نے کہا کہ آپ بالکل درست فرما رہی ہیں۔ شریعت نے مجھے عقدِ ثانی کی اجازت دے رکھی ہے‘ میں ایک اور بیوی لے آتا ہوں جو یہ فرائض سر انجام دے گی۔ اس پر بیوی مسکرائی اور کہا کہ وہ تو مذاق کر رہی تھی اور یہ کہ میاں کے والدین کو وہ اپنے والدین کی طرح سمجھتی ہے۔
آج کی بہوؤں میں سے اچھی خاصی تعداد اپنے ساس سسر کی خدمت تو دور کی بات ہے‘ انہیں ساتھ رکھنا بھی نہیں پسند کرتی ! دوسری طرف وہ یہ چاہتی ہے کہ اس کے بھائی کی بیوی اس کے ماں باپ کا خیال رکھے اور جب وہ خود میکے جائے تو اسے اور اس کے میاں اور بچوں کی بھی مہمان نوازی کرے! یہ دُہرا معیار ہمارے ہاں سکہ رائج الوقت ہو چلا ہے۔ رہی سہی کسر نجی شعبے کے ٹی وی چینلوں پر دکھائے جانے والے ڈراموں نے پوری کردی ہے۔ شاید ہی کوئی ایسا ڈرامہ ہو جس میں لڑکی کے منہ سے یہ نہ کہلوایا گیا ہو کہ '' اپنی زندگی کے فیصلے میں خود کروں گی‘‘ !
اس گئے گزرے زمانے میں بھی ایسے سعید اور بلند اختر لوگوں کی تعداد کم نہیں جو بوڑھے ماں باپ کی خدمت ہر ممکن طریقے سے کر رہے ہیں۔ ان کی ضرو ریات کا خیال رکھتے ہیں۔ اپنی بساط کے مطابق بہترین علاج معالجہ مہیا کرتے ہیں۔ جھنجھلاہٹ کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ سب سے زیادہ اہمیت اس بات کی ہے کہ بزرگ تنہائی کا شکار نہ ہوں۔ان کے پاس بیٹھا جائے تا کہ وہ باتیں کر سکیں ! جن بزرگوں کو قسّام ازل نے بیٹے نہیں دیے‘ یا بیٹے حاضر نہیں‘ ان کی دیکھ بھال ان کی بیٹیوں پر فرض ہے۔ ایسی بیٹیوں کے شوہروں پر لازم ہے کہ وہ دل بڑا کریں۔ نہ صرف بیوی کو کھلی اجازت دیں بلکہ خود بھی ساس اور سسر کی خدمت تندہی سے کریں۔یہ تو بیج ہے۔ جو بوئیں گے وہی کاٹنا ہو گا۔ پلک جھپکنے کی دیر ہے۔ ان کا اپنا بڑھاپا دروازے پر دستک دے رہا ہو گا!!