اگر آسمان سے پتھر نہیں برسے‘ اگر زمین دھنس نہیں گئی‘ اگر بجلی کا کڑکا سنائی نہیں دیا‘ تو اطمینان کی کوئی بات نہیں! نہ ہی اس کا مطلب یہ ہے کہ خدائے واحد و قہّار اپنے حبیبؐ کی عزت کا ذمہ دار نہیں رہا! انتظار کرو اور دیکھو کہ ہوتا کیا ہے۔ صادق اور امین ایک اصطلاح ہے جو آپؐ کے لیے مخصوص ہے! جیسے کالی کملی والا اور کوئی نہیں ہو سکتا‘ سبز گنبد کا مکین اور کوئی نہیں ہو سکتا‘ جس طرح مدّثّر اور مزّمّلکے الفاظ صرف آپؐ ہی کے لیے استعمال ہو سکتے ہیں۔ صادق اور امین تو وہ تھے جن کا شباب پورے چاند کی چاندنی کی طرح شفاف تھا۔جن کی عفت کی قسم فرشتے کھاتے تھے۔ جن کے پاؤں کی خاک بادشاہوں کی آنکھوں کا سرمہ تھی مگر برہنہ چٹائی پر استراحت فرماتے تو مقدس بدن پر نشان پڑ جاتے۔ جن کے دن فاقوں میں گزرتے اور راتیں عبادت میں کھڑے ہو کر گزرتیں یہاں تک کہ مقدس پَیروں پر ورم پڑ جاتے۔ جنہوں نے ساری زندگی جھوٹ بولا نہ عہد شکنی کی۔
امین؟ امین تو وہ تھے جو ہجرت کی رات بھی امانتوں کو نہیں بھولے۔ جن کے دشمن اپنی امانتیں انہی کے پاس رکھواتے تھے! کیا دنیا میں ایک مثال بھی ایسی ہے کہ کسی نے اپنی امانت اُس شخص کے پاس رکھوائی ہو جس کی جان کا وہ دشمن ہو؟اور صادق؟ چونسٹھ سال کی دنیاوی زندگی میں آپؐ نے ایک بار بھی جھوٹ نہیں بولا۔ آپ کی سچائی آپ کی نبوت کی دلیل بھی تھی۔ چالیس سال تک جھوٹ نہ بولنے والا شخص جب کہے کہ اس پر وحی اتری ہے اور یہ کہ وہ خدا کا رسول ہے، تو یہ جھوٹ کیسے ہو سکتا ہے! اس کائنات میں صداقت کے سب سے بڑے علمبردار آپؐ ہی تو تھے!اور تم نے یہ ٹائٹل ایک ایسے شخص کو دے دیا جس کا ماضی ناقابلِ رشک اور جس کا حال ناقابلِ اعتبار ہے!اللہ کے عذاب سے ڈرو! اس گنہگار نے دنیا ٹی وی پر‘ کامران شاہد کے پروگرام میں‘ دہائی دی کہ اے اہل ِوطن ! یہ ٹائٹل صرف اور صرف ذاتِ اقدس ﷺ کے لیے مخصوص ہے! اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو! اس گستاخی سے ڈرو اورخدا اجر دے کامران شاہد کو جس نے پوری قوت سے تائید کی!
جس آمر نے آئین کے ساتھ کُشتی لڑی اور اس مقدس اصطلاح کو آئین میں ڈالا وہ خود صادق تھا نہ امین! نوّے دن کا وعدہ کروڑوں انسانوں کو سنا کر کیا اور پھر اس وعدے کو توڑا!آئین امانت تھا جس کی اس نے حفاظت کرنا تھی مگر اس نے کہا یہ تو کاغذ کا ٹکڑا ہے۔جس نے سرحدوں کی حفاظت کا حلف اٹھایا تھا مگر سرحدوں کو عملاً معدوم کر کے رکھ دیا اور لاکھوں مسلح غیر ملکیوں کو اندر لاکر ملک کی مقدس سرحدوں کو پامال کرایا! اس کے بعد آنے والوں پر فرض تھا کہ آئین کے ساتھ کیے گئے اس کھلواڑ کو کالعدم کرتے مگر انہوں نے ایسا نہ کیا۔ پھر جو کچھ ان کے ساتھ ہوا‘ سب نے دیکھا اور دیکھ رہے ہیں !
عقلمندوں نے کہا تھا:
با خدا دیوانہ باش و با محمدؐ ہوشیار
اور وارننگ دی تھی کہ
ادب گاہیست زیر آسمان از عرش نازک تر
نفس گم کردہ می آید جنید و با یزید اینجا
یہاں تو بایزیدؒ اور سید الطائفہ جنیدؒ بھی حاضر ہوتے ہیں تو ان کے ہوش اُڑ جاتے ہیں۔تم نے خدا کے پیغمبرؐ کے پاک القابات کو سمجھ کیا رکھا ہے کہ جسے چاہو اسے یہ القاب پہنا دو! یہ گستاخی ہے۔اور سورج مغرب سے تو طلوع ہو سکتا ہے اور آسمان زمین کی جگہ اور زمین آسمان کی جگہ تو لے سکتی ہے اور درخت چل پھر تو سکتے ہیں اور دریا ؤں کی روانی پر سکتہ تو طاری ہو سکتا ہے مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ جس خدا نے محمد ﷺ کو آخری رسول بنایا وہ خدا ان کے القاب کی حفاظت نہ کرے اور غارتگری کرنے والوں کو چھوڑ دے! تم بھی انتظار کرو! ہم بھی انتظار کرتے ہیں !
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہ صاحب خود کہتے کہ وہ اس مطہّر ٹائٹل کے سزاوار نہیں۔اور جن صاحب نے یہ لقب انہیں دینے کی جسارت کی وہ درِ توبہ پر دستک دیتے مگر انسان طاقت کے چبوترے پر کھڑا ہو تو اس کی نظر محدود سے محدود تر ہو جاتی ہے۔ سچائی یہ ہے کہ کوئی بڑے سے بڑا بادشاہ‘ کوئی وزیر اعظم‘ کوئی جج‘ کوئی چیف جسٹس‘ کوئی کھلاڑی‘ کوئی فنکار‘ کوئی نابغہ‘ کوئی عبقری‘ سیّدِ مکی‘ مدنی العربی کے سامنے تو کیا‘ ان کے غلاموں کے غلاموں کی خاکِ پا کے سامنے بھی ریت کے دانے کی حیثیت نہیں رکھتا! تم نے خدا کے دین کو بازیچۂ اطفال بنا رکھا ہے؟ کبھی اُن نیکو کاروں پر طنز کرتے ہو جو طوافِ حرم اور روضۂ پاک کی زیارت کے لیے گھروں سے نکلے ہیں۔کبھی بڑ ہانکتے ہو کہ( میرے منہ میں خاک) قبر میں سوال ہو گا کہ تمہارا ساتھ دیا یا نہیں ! اور بات بات پر تم اپنی حکومت کو ریاستِ مدینہ سے تشبیہ دیتے ہو! تمہیں معلوم نہیں کہ ریاستِ مدینہ کے حکمران نبی صادقﷺ تھے ؟ کیا تم نہیں جانتے کہ ریاستِ مدینہ کے والی ابو بکرؓ‘ عمرؓ‘ عثمانؓ اور حیدرؓ کرار تھے اور اب دنیا میں ان جیسا کوئی نہیں پیدا ہو سکتا! اس زمین پر ایسے ایسے حکمران گزرے ہیں جن کی تکبیر اُولیٰ کبھی ضائع نہیں ہوئی‘ جو راتوں کو گلیوں میں پھر کر اہلِ حاجت کو تلاش کرتے تھے مگر انہیں بھی یہ جرأت‘ یہ جسارت نہ ہوئی کہ ریاستِ مدینہ کا نام استعمال کرتے! ریاست ِمدینہ کے حکمران تو حکمران تھے‘ ان کے ماتحت گورنر بھی ترکی گھوڑے پر سواری نہیں کر سکتے تھے۔ اور یہاں حکمران نے ہیلی کاپٹر کی سواری پر قومی خزانے کے43کروڑ روپے لگا دیے اور بات بات پر ریاستِ مدینہ کا ذکر؟ بازی بازی‘ با ریش بابا ہم بازی؟ کیا خدا کا خوف عنقا ہو گیا ہے؟ جس ہستی کے سامنے عمرؓ ؓفاروق اور حیدرؓ کرار جیسی ہستیاں آواز تک اونچی نہیں کر سکتی تھیں‘ اُس ہستی کے القاب کوئی اور کیسے استعمال کر سکتا ہے؟ اور وہ بھی اس زمانے میں ؟ ایسا تو خیر القرون میں بھی نہ ہوا!
موت سے پہلے توبہ کا دروازہ کھلا ہے! بشرطیکہ گناہ کا احساس ہو جائے! ابھی وقت ہے‘ جنہوں نے یہ لقب دیا‘ جنہوں نے قبول کیا اور جنہوں نے اس کی حمایت کی‘ توبہ کریں! اپنی جسارت پر اللہ اور اس کے رسولؐ سے معافی کے خواستگار ہوں! اس دیدہ دلیری پر‘ اس Audacityپر ندامت کا اظہار کریں! بعید نہیں کہ عاقبت بھی سنور جائے اور دنیا کی پریشانیاں بھی دور ہو جائیں۔ غیراللہ کی چوکھٹ پر بوسے دے کر دیکھ لیا۔ حرمتِ رسولؐ کی دہلیز بھی چوم کر دیکھو۔
ابو سعید ابوالخیر ؒنے اصرار کیا تھا :
باز آ‘ باز آ‘ ہر آنچہ ہستی باز آ
کر کافر و گَبر و بت پرستی‘ باز آ
این درگہِ ما درگہِ نومیدی نیست
صد بار اگر توبہ شکستی‘ باز آ
واپس آجاؤ! واپس آجاؤ!تم جو کچھ بھی ہو‘ واپس آجاؤ۔ کافر ہو یا آتش پرست یا بتوں کے پجاری‘ واپس آجاؤ! یہ ہمارا دروازہ ناامیدی کا دروازہ نہیں ! سو بار توبہ توڑ چکے ہو‘ تب بھی آجاؤ!