راٹھور صاحب نے عزت کے ساتھ ملازمت کی۔نیک نامی کمائی۔ریٹائرمنٹ کے بعد ایک صاحب کی شراکت کے ساتھ ٹائلوں کا کاروبار شروع کیا۔ میں ریٹائرمنٹ کے بعد بارہ کہو میں مکان بنوا رہا تھا۔ اس کے لیے ٹائلیں راٹھور صاحب سے خریدیں۔ انہوں نے بہت محبت اور شفقت کا سلوک کیا۔
بارہ کہو میں اس لیے کہ گاؤں کا بیک گراؤنڈ رکھنے کی وجہ سے بڑے صحن کی خواہش تھی۔ آپ گاؤں سے نکل جاتے ہیں مگر گاؤں آپ کے اندر سے کبھی نہیں نکلتا۔ جون جولائی کی گرمی میں بھی ظہر اور عصر کی نماز کمرے میں پنکھے کے نیچے ادا کرنے کے بجائے باہر کسی درخت کی چھاؤں میں ادا کرنا اچھا لگتا ہے۔ بڑے صحن کی خواہش اسلام آباد کے کسی باقاعدہ سیکٹر میں پوری کرنے کی استطاعت نہیں تھی۔بارہ کہو کا علاقہ سی ڈی اے کی تحویل میں نہیں بلکہ ضلعی انتظامیہ کے تحت ہے۔ بڑے صحن کی خواہش میں عمر بھر کی کمائی اس مکان پر لگا دی۔ صحن میں اپنے ہاتھ سے گھاس لگائی۔ ثمردار پودے لگائے۔سو ڈیڑھ سو شعرا اس صحن میں آرام سے تشرف فرما ہو سکتے تھے۔ پچاس ساٹھ کی نشست تو کئی بار ہوئی۔
راٹھور صاحب کو بزنس راس آیا نہ مجھے یہ وسیع و عریض صحن! ان کی شراکت داری‘ جیسا کہ ہوتا ہے‘ اختلافات کی نذر ہو گئی۔ میری زندگی میرے ایک پڑوسی نے جہنم بنا دی۔ یہ صاحب ایک ایسی جماعت کے سرکردہ رکن تھے جو گاؤں گاؤں‘ شہر شہر‘ دین کے راستے میں محنت کرتی ہے۔ انہوں نے میرے گھر کے عقبی دروازے کے سامنے دیوار کھڑی کر دی۔ فون کیا تو بات کرنے سے انکار کر دیا۔ایک دوست سے‘ جو اسی جماعت سے تعلق رکھتے تھے‘ کہا کہ پنڈی کے امیر سے بات کریں۔ بہر طور داد رسی نہ ہوئی۔ مقدمہ بازی کی لعنت میں میں پڑنا نہیں چاہتا تھا؛ چنانچہ یہی فیصلہ کیا کہ ٹنڈ پھوہڑی ترڈّا ہی اٹھا لیا جائے کہ بقول ظفر اقبال ؎
جس آب رود کی اوقات چند قطرے ہو
تو اس کو پھاندنا کیا‘ اس میں پاؤں دھرنا کیا
چنانچہ ہزار حسرت و ارمان سے بنایا ہوا یہ گھر‘ اونے پونے داموں بیچنا پڑا اور ایک چھوٹا گھر‘ ایک منظم آبادی میں لیا جہاں قواعد و ضوابط کی سخت پابندی ہے۔ یہ اور بات کہ صحن اس گھر میں افسوسناک حد تک مختصر ہے۔ دو سبق بھی اس المیے سے سیکھے۔ ایک یہ کہ گھر کسی منظم سوسائٹی میں بنانا چاہیے جہاں کوئی غنڈہ گردی نہ کر سکے۔ دوسرے یہ کہ زیادہ ''نیک‘‘ لوگوں کے نزدیک نہیں رہنا چاہیے!! مگر اب تک جو لکھا ہے وہ اصل موضوع نہیں!
راٹھور صاحب پرانے دوست تھے اس لیے خریداری کے علاوہ ان کے ساتھ بیٹھک بھی ہوتی تھی۔ چائے بھی پلاتے تھے۔ اس ناکارہ نے دوستوں سے ہمیشہ کچھ نہ کچھ سیکھا! ایک نشست کے دوران ان کی گفتگو سے اخذ کیا کہ وہ اپنے والدین کے لیے معروف قرآنی دعا ''رب ارحمھما کما ربیانی صغیرا‘‘ کی روزانہ تسبیح کرتے ہیں۔ یہ میرے لیے نئی چیز تھی۔ یوں تو ایک بزرگ نے بتایا تھا کہ نماز کے دوران‘ آخری تشہد میں‘ درود کے بعد دیگر دعاؤں کے ساتھ یہ دعا بھی کرنی چاہیے لیکن روزانہ تسبیح کا پہلی بار سنا کیونکہ جو تسبیحات عام طور پر بتائی جاتی ہیں‘ یہ ان میں شامل نہیں!
اصل سوال یہ ہے کہ ہم جیسے افراد‘ جن کے والدین دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں‘ والدین کے لیے کیا کچھ کر سکتے ہیں ؟ اس سے بھی زیادہ دردناک سوال یہ ہے کہ جب وہ حیات تھے تو کیا تیر مارا ؟ کتنے پچھتاوے ہیں اور کتنی ندامتیں ! فلاں موقع پر یوں کیوں کہا ؟فلاں وقت یوں کیوں کیا؟ یوں کیوں نہ کیا؟ پاس بیٹھ کر زیادہ باتیں کیوں نہ کیں ؟ علاج معالجے میں کوتاہی کیوں کی ؟ فلاں حکم کی تعمیل کیوں نہ کی؟ فلاں حکم کی تعمیل تاخیر سے کیوں کی ؟ ان کے لیے فلاں چیز کیوں نہ خریدی ؟ فلاں جگہ لے کر کیوں نہ گئے؟ حسرتوں کی ایک طویل قطار ہے جو ختم ہونے میں نہیں آتی! اس قطار کے ایک کنارے پر درد کا چوبدار کھڑا ہے اور دوسرے کنارے پر کرب پہرہ دے رہا ہے! کیا کوئی صورت ہے تلافی کی ؟ ناصر کاظمی نے کہا تھا ؎
کھویا ہے اسے جس کا بدل کوئی نہیں ہے
یہ بات مگر کون سنے‘ لاکھ پکارو
رات کو دیر سے آنا ہوتا تو سب سو چکے ہوتے مگر دو ہستیاں جاگ کر انتظار کر رہی ہوتیں! کچھ خرید کر پیش کرتے تو صرف وہی تھے جو کہتے تھے کہ بیٹا! اتنے پیسے کیوں لگائے؟ بیمار پڑتے تو اُن کی جان پر بن جاتی ! کسی آزمائش یا مصیبت کا سامنا ہوتا تو راتوں کو اُٹھ کر رو رو کر دعائیں کرتے! سفر پر روانگی ہوتی تو امانت کے طور پر خدا کے سپرد کرتے!واپسی ہوتی تو بسم اللہ بسم اللہ کہہ کر استقبال کرتے۔مشکل میں کام آتے تو بتانے یا جتانے کا سوال ہی نہ تھا! جب کوئی تقریب ہوتی یا ہنگامہ تو کسی سے کہتیں ''اظہار تھک گیا ہو گا‘ اسے تکیہ لا کر دو کہ ذرا لیٹ جائے‘‘۔ ان کی وفات پر گاؤں میں ہجوم تھا۔ دور و نزدیک سے بہت خلقت آئی تھی۔ تدفین‘ تعزیت‘ باہر سے آئے ہوؤں کے لیے کھانا‘ پھر ان کی رخصتی ! تھک کر نڈھال ہو گیا۔ اچانک خیال آیا کہ ابھی کسی سے کہیں گی '' تکیہ لاؤ۔یہ ذرا آرام کر لے !‘‘ اسی ثانیے احساس ہوا کہ انہی کی تو وفات ہوئی ہے۔ منہ سے بے اختیار نکلا '' اظہارالحق! آج کسی نے نہیں کہناکہ تھک گئے ہو! خود ہی لیٹ جاؤ!‘‘ دریاں بچھی تھیں۔ ایک طرف ہو کر لیٹ گیا۔ سوچا ایسے ہی تو خدا نے ربوبیت میں انہیں شریک نہیں کیا! ''رَبَّیَانِیی‘‘ میں ربوبیت ہی کا تو مادّہ ہے!! ان کے بعد کڑکتی دھوپ ہے! طوفان اور آندھیاں! جھکڑ اور بلائیں! فراق گورکھپوری نے کہا تھا ؎
یہ زندگی کے کڑے کوس! یاد آتا ہے
تری نگاہِ کرم کا گھنا گھنا سایہ
ہر شخص‘ مخلص سے مخلص ہی کیوں نہ ہو‘ ہر کام میں‘ ہر چیز میں‘ کوئی نہ کوئی پیچ اپنا ضرور ڈالتا ہے! کامیابی پر بہت سوں کے دل میں ٹیس اٹھتی ہے۔ مصیبت آئے تو دل میں کہتے ہیں '' یہ تو ہونا تھا‘‘۔ یہ تو وہ دو ہی تھے جو مکمل‘ سو فیصد‘ بے لوث تھے! پوری طرح بے غرض ! نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پروا! آخری دم تک سراپااخلاص! سراپا شفقت ! سراپا محبت!
اب کیا ہو سکتا ہے سوائے شدید احساسِ محرومی کے ! تاسف کے! اور کوتاہیوں پر ندامت کے ! ایک ہی لنگر ہے جس سے یہ ڈوبتی کشتی باندھی جا سکتی ہے ! دعا! دعا اور دعا !!! افتخار عارف نے کہا ہے ؎
قبول ہونا مقدر ہے حرفِ خالص کا
ہر ایک آن‘ ہر اک پل‘ دعا کیے جائیں
دعا وہی بہترین ہے جو سکھا ئی گئی ہے اور بتائی گئی ہے!اور ان کے قریبی اعزّہ اور دوستوں کے ساتھ بہت زیادہ حسنِ سلوک اور رابطہ !اور ان کی یاد میں انفاق اور مسلسل انفاق!اور ان کی آخری آرام گاہوں کی زیارت اور مسلسل زیارت !اور برسی پر ان کے حوالے سے تقریب اور دعا!
بہت سے لوگ برسی کے جواز اور عدم جواز کی بحث چھیڑ دیتے ہیں۔ انہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ! یہ یاد تازہ کرنے کا بہانہ ہے ! اور پھر یہ برسی بھی تو ایک ہی نسل منعقد کرے گی! اور ہاں جن خوش بختوں کے والدین‘ یا ان میں سے ایک‘ حیات ہے‘ وہ خبردار ہو جائیں !!