رات بھر میں بے پروں کے پر نکل آئیں گے کیا؟

کب تک؟ آخر کب تک؟
کب تک ہر سال فریب دینے اور فریب کھانے کا یہ کاروبار چلتا رہے گا؟ کب تک ہم یہ سمجھتے رہیں گے کہ نیا سال سب کچھ بدل دے گا؟ دسمبر کے آخری دن ہمارے کرتوت دُھل جائیں گے اور یکم جنوری کو ہم یوں ہو جائیں گے جیسے نوزائیدہ بچہ ہوتا ہے‘ غلطیوں سے پاک! ہم کیوں یہ امید کرتے ہیں اور یہ امید دلاتے ہیں کہ نیا سال خوشیاں لائے گا اور آسودگی! اقبال نے کہا تھا ؎
عشق کی تقویم میں عصرِ رواں کے سوا
اور زمانے بھی ہیں جن کا نہیں کوئی نام
مگر ہماری تقویم عشق کی نہیں! ہماری تقویم بد دیانتی کی ہے! اور بدنیتی کی! دروغ گوئی کی ہے اور منافقت کی! اس تقویم میں ایک ہی زمانہ ہے۔ اور وہ ہمارا زمانہ ہے۔ اس زمانے کی انتہا نہیں نظر آرہی! لگتا ہے اس نے تبدیل نہیں ہونا!
محاورہ ہے کہ ''جو یہاں بُرے‘ وہ لاہور میں بھی بُرے‘‘۔ خدا کے بندو! جو دسمبر کے آخری دن مجہول ہیں وہ راتوں رات معروف کیسے ہو جائیں گے؟ کتنے ہی نئے سال نئی پوشاک پہنے ہوئے آئے‘ دسمبر تک ان کا لباسِ فاخرہ چیتھڑوں کی شکل اختیار کر گیا مگر کیا کسی زرداری‘ کسی شریف‘ کسی عمران خان کی فطرت بدلی؟ کیا ایسا ہوا کہ یکم جنوری کو ہم نے اپنے حکمران کو بازار میں عوام کے ساتھ سودا سلف خریدتے دیکھا؟ کیا یکم جنوری کو ہم نے حکمران کو یا اس کے خاندان کے کسی فرد کو عام سرکاری ہسپتال میں قطار کے اندر کھڑے ہو کر دوا لیتے دیکھا؟ کیا یکم جنوری کو حکمران خاندان کے بچے کسی سرکاری سکول میں داخل ہونے چلے گئے؟ کیا نیا سال کوئی جادوگر ہے کہ ہمارا مقدر بدل دے گا؟ کیا ایک رات کے اندر ٹیکس ادا کرنے والوں کی شرح آٹھ فیصد سے بڑھ کر ساٹھ‘ ستر فیصد ہو جائے گی؟ ہم کیوں اپنے آپ کو دھوکے میں رکھتے ہیں؟ نئے سال کی مبارکباد! کون سا نیا سال؟ پون صدی کی تاریخ کھلی کتاب کی طرح سامنے پڑی ہے! کس نئے سال نے ہماری حالت بدلی؟ تو پھر ہم کیوں ہر اکتیس دسمبر کو سراب دیکھ کر تالیاں بجاتے ہیں کہ وہ رہا پانی؟ استاد قمر جلالوی نے یہ سوال کسی اور پیرائے میں پوچھا تھا مگر ہم ذرا اپنے آپ سے پوچھیں کہ:
رات بھر میں بے پروں کے پر نکل آئیں گے کیا؟؟
آسان ترین تبدیلی کسی بھی ملک میں ٹریفک کی تبدیلی ہے۔ اس میں کوئی نئی تعمیر ہے نہ کوئی کارخانہ لگنا ہے۔ کوئی نہر نکالنی ہے نہ تیل کا کنواں کھودنا ہے۔ صرف ٹریفک پولیس کے ایسے اہلکار تعینات کرنے ہیں جو قانون شکنوں کو مزہ چکھا دیں! بس! مگر پچھتر سال میں ہمارے حکمرانوں سے یہ آسان ترین کام نہیں ہو سکا! ہر سال ہزاروں افراد شاہراہوں پر مارے جا رہے ہیں! کیا کوئی نیا سال ایسا آیا ہے کہ یہ قتلِ عام رک گیا ہو؟ ڈمپروں اور ٹریکٹر ٹرالیوں کی شکل میں عفریت دندناتے پھر رہے ہیں۔ رات دن یہ عفریت انسانوں کو نگل رہے ہیں! کیا کسی حکومت کے کان پر جوں رینگی؟ اگر یہ سہل ترین کام نہیں ہو سکتا تو ہم کس برتے پر ہر سال کے آخر میں توقع باندھتے ہیں کہ اگلے سال بجٹ مثبت ہو جائے گا‘ آبادی میں اضافہ کنٹرول ہو جائے گا‘ خواندگی کی شرح بڑھ جائے گی‘ پولیس میں سیاسی مداخلت کی نحوست ختم ہو جائے گی‘ اور تھانوں سے آدم بو آدم بو کی آوازیں نہیں آئیں گی؟ کہتے ہیں کہ مومن ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جاتا مگر ہم کیسے مومن ہیں کہ ہر سال اپنی پنڈلی ننگی کرکے پیش کرتے ہیں اور ڈسے جاتے ہیں!
کتنے ہی راہرو تھے جو ہمارے پیچھے آرہے تھے اور آگے نکل گئے! کتنوں کو ہم نے راستہ دکھایا اور وہ منزل تک پہنچ گئے مگر ہم ہیں کہ ابھی تک بھٹک رہے ہیں۔ مچھیروں کی خستہ حال بستی‘ سنگا پور‘ آج یورپ اور امریکہ کے لیے قابلِ رشک ہے۔ جنوبی کوریا جو دلدل میں دھنسا تھا‘ جادو نگری میں تبدیل ہو چکا۔ اور تو اور تھائی لینڈ کے ٹھگنے‘ ناٹے باشندے اپنے ملک کو ہمارے ملک سے صدیوں آگے لے جا چکے‘ شرقِ اوسط میں جو لوگ بکریاں چراتے تھے‘ اونٹ پالتے تھے اور ریت کے‘ ہر دم جگہ بدلتے‘ ٹیلے جن کا سب سے قیمتی اثاثہ تھے‘ وہ اپنے ملکوں کو دنیا کے ایلیٹ کلب میں شامل کرا چکے مگر ہم ہیں کہ کشکول ہمارا قومی نشان بن گیا ہے۔ پاسپورٹ کی رینکنگ ہو یا انصاف دہی کی‘ ہمارے ملک کا نام ہر فہرست کے آخر میں ہے! عزت ہے نہ عزتِ نفس! ملک قلاش ہے اور باشندے کھرب پتی! لوگ ایڑیاں رگڑ رہے ہیں اور ان پر حکومت کرنے والوں کی دولت کا اندازہ ہی نہیں لگایا جا سکتا!
جب بھی کچھ سال گزرتے ہیں‘ ہم ایک صبح شہر کے صدر دروازے پر کھڑے ہو جاتے ہیں‘ وہاں سے کسی فقیر کو پکڑ لاتے ہیں اور اسے اپنا بادشاہ بنا لیتے ہیں! وہ جتنے دن شاہی محل میں رہتا ہے‘ ہر روز اپنا پسندیدہ حلوہ بنوا کر کھاتا ہے۔ پھر اپنی گدڑی اٹھا کر چل دیتا ہے۔ ہم پھر شہر کے صدر دروازے پر جا کھڑے ہو تے ہیں۔ کب تک؟ آخر کب تک؟ یہ کھیل کب تک کھیلا جاتا رہے گا؟
چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک تیز رَو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں
ہم ہر نئے سال کا آغاز پرانے‘ بوسیدہ چہروں سے کرتے ہیں! اور پھر ان ہزار بار آزمائے ہوئے بے نور چہروں سے امید باندھتے ہیں کہ وہ ہمارا بخت تبدیل کر دیں گے۔ ہر ٹوڈی‘ ہر کاسہ لیس‘ ہر ابن الوقت اور روغنِ قاز ملنے والا ہر موقع پرست ہمارے رہنماؤں کی صف میں شامل ہے۔ ہم ہر نئے لیبل والی بوتل سے پرانی Expired دوا نکال کر پیتے ہیں اور پھر انتظار کرتے ہیں کہ سرطان سے نجات پا لیں گے! ایسا کبھی ہوا نہ ہوگا۔ جو چینی کی‘ آٹے کی‘ دوا کی قیمتیں بڑھا کر اپنی تجوریاں بھرتے ہیں‘ ہم ان سے توقع کرتے ہیں کہ چینی کی‘ آٹے کی اور دوا کی قیمت کم کریں گے! جو بھی کابینہ بنتی ہے‘ اس میں شامل افراد وہی ہوتے ہیں جو گزشتہ پچاس برسوں میں ہر کابینہ میں رہے۔ پھر نیا سال کیسے تبدیلی لا سکتا ہے؟ ہم نئے سال سے تبدیلی کی امید باندھتے ہیں مگر خود تبدیلی لانے کی کوشش نہیں کرتے۔ تو کیا ہم نے نئے سال کو اپنا زر خرید غلام سمجھ رکھا ہے کہ ہم آرام سے اپنے عشرت کدوں میں بیٹھے رہیں گے اور سارا کام وہ کر دے گا۔ حیرت ہے ہزاروں سال پرانا سرداری نظام بدلنے کے لیے ہم تیار نہیں‘ سینکڑوں سال سے چلا آرہا جاگیرداری سسٹم بدلنے کے لیے ہم آمادہ نہیں اور نئے سال سے بہتری کی آس لگاتے ہیں! غضب یہ ڈھاتے ہیں کہ کسی اور کو نہیں‘ اپنے آپ کو بے وقوف بناتے ہیں۔ آئن سٹائن سے منسوب ایک قول ہے کہ بار بار ایک ہی تجربہ کرنا اور ہر بار مختلف نتیجے کی توقع کرنا دیوانگی کے سوا کچھ نہیں! بہت سے محقق اس قول کو درست نہیں سمجھتے مگر ہم پر تو یہ قول اس طرح صادق آتا ہے جیسے خصوصاً ہمارے لیے ہی تراشا گیا ہو! ہم ہر نئے سال وہی کچھ کرتے ہیں جو گزشتہ سال کرتے رہے اور توقع کرتے ہیں کہ اس سال نتیجہ مختلف ہوگا!
کوئی تعویذ‘ کوئی جھاڑ پھونک‘ کوئی ورد وظیفہ‘ کوئی چِلّہ‘ کوئی جادو ٹونہ‘ کوئی پیر فقیر‘ کچھ بھی کام نہیں آرہا۔ ہر نیا سال پچھلے سال کی توسیع ہے! فقط توسیع! ایک ہی سال ہے جو ہر یکم جنوری کو طلوع ہوتا ہے!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں