میں ایک پاکستانی شہری ہوں۔ ٹیکس پورا ادا کرتا ہوں۔ قانون کا احترام کرتا ہوں۔ کبھی تھانے کچہری کے چکروں میں نہیں پڑا۔ 2018ء کا الیکشن ہوا تو اڑتالیس برسوں میں میں نے پہلی بار ووٹ دیا۔ اس سے پہلے اس لیے ووٹ دینے کا حق استعمال نہیں کیا کہ کوئی پارٹی، کوئی امیدوار اس قابل ہی نہ لگا۔
2018ء میں اس لیے ووٹ دیا کہ تحریک انصاف کے وعدے اور پروگرام تمام پارٹیوں کے منشور سے مختلف تھے۔معلوم ہوتا تھا تحریک انصاف کے آنے سے ، اور کچھ نہیں تو کم از کم قانون کی حکمرانی کے اعتبار سے ،پاکستان مغربی ملکوں جیسا ہو جائے گا۔ تحریک انصاف کے سربراہ انہی ملکوں کی مثالیں دیتے تھے۔ یہ ہوا کا ایک خوشگوار جھونکا تھا۔ تاہم ووٹ دینے کی اصل وجہ تحریک انصاف کا وہ نمائندہ تھا جو ہمارے حلقے میں قومی اسمبلی کی نشست پر انتخاب لڑ رہا تھا۔ یہ صاحب اسد عمر تھے۔ اس نوجوان نے مجھے متاثر کیا تھا۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ تھا۔ نجی شعبے کا بھرپور تجربہ تھا۔ اس کی گفتگو سے ہمیشہ یہ لگا کہ یہ دیانت دار ہے اور بد دیانتی کو کبھی برداشت نہیں کرے گا۔ اگر اسد عمر کے بجائے تحریک انصاف کا کوئی اور رکن ہوتا ، بالخصوص وہ، جن کی بد زبانی ، دروغ گوئی اور غیر ذمہ دارانہ رویّہ ضرب المثل ہے اور جن کے ناموں سے ہم سب واقف ہی ہیں، تو کبھی ووٹ نہ ڈالتا۔ چنانچہ اسد عمر کو ووٹ دیا۔ وہ کامیاب ہو گئے۔ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ ان کی کامیابی کا سبب میرا ووٹ تھا۔اگر ایسا کہوں تو میرا معاملہ اُس مچھر کی طرح ہو جائے گا جو آندھی آنے پر ایک درخت کے تنے کے ساتھ لپٹ گیا اور بعد میں دعویٰ کیا کہ اگر اس نے درخت کو مضبوطی سے نہ پکڑا ہوتا تو آندھی درخت کو اکھاڑ لے جاتی! اسد عمر آج بھی میرے ایم این اے ہیں! دوسرے ہزاروں افراد کی طرح پارلیمنٹ میں وہ میری نمائندگی بھی کرتے ہیں۔ اخلاقی طور پر ، اور شاید قانونی طور پر بھی ، میرا حق ہے کہ میں ان سے پوچھوں کہ انہوں نے مجھے مایوس کیوں کیا؟ انہوں نے الیکشن جیتنے سے پہلے بد دیانتی کو برداشت نہ کرنے کا جو تاثر دیا تھا، اسے الیکشن جیتنے کے بعد زائل کیوں کر دیا؟ جہاں احتجاج کرنا تھا وہاں منقار زیرِ پر کیوں رہے؟
کیا اسد عمر ، خدا کو حاضر ناظر جان کر ، کہہ سکتے ہیں کہ عثمان بزدار کی تعیناتی میرٹ اور صرف میرٹ پر تھی ؟ اسد عمر صاحب 2012ء میں تحریک انصاف میں شامل ہوئے۔ چھ سال میں ان کی کتنی ملاقاتیں بزدار صاحب سے ہوئیں ؟ پارٹی کے کتنے اجلاسوں میں بزدار صاحب نے اسد عمر کے شانہ بشانہ شرکت کی ؟
کیا اسد عمر صاحب کو نہیں معلوم تھا کہ عمران خان بزدار کو جانتے ہی نہیں تھے اور یہ کہ جمیل گجر انہیں بنی گالا لائے اور وہی واپس لے کر گئے۔ اسد عمر اگر سمجھتے ہیں کہ یہ تعیناتی میرٹ پر تھی اور بزدار اس منصب کے اہل تھے تو اس کا اعلان کریں تا کہ ان کے ووٹرز کو ان کی رائے معلوم ہو۔ اور اگر وہ سمجھتے ہیں کہ یہ تعیناتی ایک پُراسرار دروازے سے ہوئی اور میرٹ پر نہیں ہوئی تو میرا بطور ووٹر یہ سوال ہے کہ اسد عمر نے اس تعیناتی پر احتجاج کیوں نہ کیا؟ کیا ان کا کام صرف آمنّا و صدّقنا کہنا تھا؟ اصولی طور پر اسد عمر صاحب کو اس صریح دھاندلی اور کرونی ازم پر پارٹی سے استعفیٰ دے دینا چاہیے تھا۔
تحریک انصاف کی حکومت کے ابتدائی ایام ہی میں وہ شرمناک واقعہ پیش آیا جو صاف بتا رہا تھا کہ اس حکومت کا رنگ اور آہنگ کیسا ہو گا۔ پاک پتن کے انچارج، سینئر پولیس افسر، کو وزیر اعلیٰ کے دفتر میں طلب کیا گیا۔ ساری دنیا کو معلوم ہو گیا کہ سینئر پولیس افسرسے ''سوال جواب‘‘ وزیر اعلیٰ نے نہیں ، بلکہ ایک اور صاحب نے کیے جن کا حکومت سے کوئی تعلق تھا نہ ان کے پاس اس جواب طلبی کا کوئی اختیار تھا۔ اس واقعہ کو ایک معمولی یا الگ تھلگ ، مجرّد، واقعہ کہہ کر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ واقعہ ایک علامت تھا۔یہ صاف اعلان تھا کہ یہ حکومت اُن لوگوں کے ہاتھ میں ہے جو منتخب شدہ ہیں نہ سرکاری اختیار رکھتے ہیں بلکہ ان کا تعلق صرف اور صرف پُر اسرار دروازے سے ہے! میرا بطور ووٹر، اپنے ایم این اے جناب اسد عمر سے سوال ہے کہ قانون پسندی کے دعویٰ کے باوجود انہوں نے اس انتہائی غلط اور غیر قانونی ابتدا کو کیسے برداشت کیا ؟ کیا وہ اس کا جواز پیش کر سکتے ہیں؟ کیا اپنی جد و جہد کا یہ ثمر ان کے خوابوں سے مناسبت رکھتا ہے؟
تین دسمبر2019ء کو کابینہ کے اجلاس میں اُس وقت کے وزیراعظم نے ایک بند لفافہ لہرایا اور کابینہ کے ارکان کو حکم دیا کہ اس لفافے کے اندر جو کچھ ہے اس کی منظوری دیں۔میڈیا رپورٹ کے مطابق دو وزرا نے یہ پوچھنے کی جسارت کی کہ اس کے اندر کیا ہے۔ روایت ہے کہ انہیں سرزنش کی گئی۔ میرے ایم این اے اسد عمر صاحب نے ، ان کے ووٹرز کی بدقسمتی کہ پوچھنے کی جرأت نہیں کی! اور ایک عضوِ معطل کی طرح بند لفافے کے مندرجات، بغیر پڑھے ، بغیر جانے ، منظور کر دیے۔ کیا ایسا کرنا کسی تعلیم یافتہ اور عزت نفس رکھنے والے انسان کو زیب دیتا ہے؟ میں ووٹرکی حیثیت سے اپنے ایم این اے اسد عمر صاحب سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا کسی جمہوری ملک میں کبھی ایسا ہواہے اور جن مغربی ملکوں کی مثالیں اسد عمر کا لیڈر دیا کرتا تھا کیا ان میں بھی کابینہ کے ارکان ، کٹھ پتلیوں کی طرح، بند لفافوں کی منظوری میں سر ہلا دیتے ہیں ؟ کیا اسد عمرکو اپنی اس حرکت پر افسوس ہے یا وہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے ٹھیک کیا؟
بعد میں معلوم ہوا کہ اس بند لفافے کی رُو سے جو رقم برطانیہ سے ریاست پاکستان کے لیے آئی تھی، وہ ایک پراپرٹی ٹائیکون کی طرف سے کہیں اور جمع کرا دی گئی۔ کیا اسد عمر اس ایکشن کو درست سمجھتے ہیں ؟ اگر ایسا ہے تو اس کا جواز پیش کریں۔ اس نوازش کے بعد چار سو اٹھاون کنال زمین القادر ٹرسٹ کو ''عطیہ‘‘ کے طور پر دی گئی! اس ٹرسٹ کے صرف دو ٹرسٹی تھے۔ اُس وقت کے وزیر اعظم اور ان کی اہلیہ! کیا اسد عمر اس سارے معاملے کو شفاف سمجھتے ہیں۔ اگر نہیں تو کیا انہوں نے احتجاج کیا؟
معاملات اور بھی ہیں اور کثیر تعداد میں ہیں جن پر اسد عمرصاحب جیسے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور بااصول ہونے کا دعویٰ کرنے والے شخص کو احتجاج کرنا چاہیے تھا مگر میں نے اسد عمر صاحب کی خدمت میں صرف یہ پانچ واقعات پیش کیے ہیں۔ ایک ووٹر کی حیثیت سے یہ جاننا میرا حق ہے کہ کیا اسد عمر ان واقعات کو درست سمجھتے ہیں یا غلط! اگرچہ لگتا یہی ہے کہ دوسروں کی طرح اسد عمر بھی اپنے لیڈر کو جمہوری رہنما نہیں بلکہ ایک فرقے( Cult)کا سربراہ گردانتے ہیں اور انہیں غلطیوں سے مبرّا سمجھتے ہیں ! میں نے ابھی تک فیصلہ نہیں کیا کہ گزشتہ الیکشن میں اسد عمر صاحب کو ووٹ دے کر میں نے گناہ کیا ہے یا صحیح کام کیا ہے ! اگر وہ ازراہ کرم میری معروضات کا جواب مرحمت فرمائیں تو مجھے یہ فیصلہ کرنے میں آسانی ہو گی کہ اگلے الیکشن کے دن گھر ہی میں رہوں یا باہر نکل کر اپنا ووٹ کاسٹ کروں !