صبح اُٹھا تو پروفیسر معین نظامی صاحب کا پیغام اِن بکس میں انتظار کر رہا تھا۔ اکرام چغتائی اپنا جسدِ خاکی زمین کے پاس امانت کے طور پر رکھ کر خود سماوات کی طرف چلے گئے۔ ہم سب نے پروردگار کی طرف ہی جانا ہے۔
اکرام چغتائی بہت بڑے عالم تھے۔ بہت بڑے محقق تھے۔ بیسیوں کتابوں کے مصنف! سینکڑوں تحقیقی مقالوں کے خالق! (افسوس! اس وقت گھر سے دور ہوں کہ جہاں ان کی تمام تصانیف موجود ہیں۔ اس وقت ان سب کے نام یاد نہیں کہ قارئین سے شیئر کروں! )
معلومات کا وہ دریا تھے۔ جرمن زبان و ادب پر عبور حاصل تھا۔ آسٹریا اور جرمنی کے علمی‘ تاریخی اور تحقیقی حلقوں میں ان کی بہت پذیرائی کی جاتی تھی۔ کتنی ہی بار ان ملکوں نے انہیں دعوت دے کر اپنے ہاں بلایا اور ان کے علم و فضل سے استفادہ کیا۔ان ملکوں نے اپنے قومی اعزازات سے بھی انہیں نوازا۔ ان کی بہت بڑی خوبی یہ تھی کہ اتنے بڑے مقام پر متمکن ہونے کے باوجود انکسار کا پیکر تھے۔ '' میں‘‘ کا لفظ ان کی لغت میں نہیں تھا۔ ایک سرکاری ادارے میں عام سی ملازمت میں زندگی گزار دی۔شاید آخر میں بہت کم وقت کے لیے اُس ادارے کے سربراہ بنے۔
ملاقات کا شرف حاصل ہونے سے پہلے ہی میں ان سے متاثر ہو چکا تھا۔ اس کی وجہ علامہ اسد سے میری عقیدت تھی جبکہ چغتائی صاحب نے علامہ اسد پر بہت وسیع اور وقیع کام کیا ہوا تھا۔ میں علامہ اسد سے اُس وقت متعارف ہوا جب اٹھارہ برس کا تھا اور گورنمنٹ کالج اصغر مال راولپنڈی میں بی اے کا طالب علم تھا۔ محمد حامد مرحوم ‘ جو بعد میں کرنل بنے ‘ اور ایک بغاوت کیس کی لپیٹ میں آگئے ‘ ایم اے کر چکے تھے اور زیادہ وقت ہمارے ساتھ کالج میں گزارتے تھے۔ بعد میں انہوں نے امام شامل کی سوانح حیات لکھی جو بہت مشہور ہوئی۔ حامد صاحب نے ایک دن مشورہ دیا کہ ایک کتاب ہے '' دی روڈ ٹو مکہ‘‘ اس کا مطالعہ کرو۔ علامہ اسد کی اس تصنیف نے اپنی گرفت میں یوں لیا کہ آج تک یہ گرفت جوں کی توں ہے۔ یہ ایک حیرت انگیز داستان ہے۔ کس طرح وہ ایک اخباری نمائندے کے طور پر مشرق وسطیٰ میں تعینات ہوئے۔ کیسے عرب ثقافت اور عرب طرزِ زندگی میں دلچسپی پیدا ہوئی۔ اسلام قبول کیا۔ عربی زبان سیکھی۔ سعودی بادشاہ عبد العزیز کے ساتھ تعلقات استوار ہوئے۔ لیبیا کی جنگِ آزادی میں کردار ادا کیا۔ ہندوستان آکر علامہ اقبال سے ملاقات کی اور رہنمائی کے طالب ہوئے۔ دی روڈ ٹو مکہ پڑھنے کے بعد جو کچھ ان کے بارے میں ملا اور جو کچھ ان کی تصانیف سے ملا‘ پڑھ ڈالا۔ ان کی ادارت میں کچھ عرصہ ایک جریدہ '' عرفات‘‘ کے نام سے نکلتا رہا تھا‘ اس کے شمارے بھی کہیں نہ کہیں سے حاصل کر کے پڑھے۔
1980ء میں ‘یا1979ء میں اخبار میں پڑھا کہ علامہ اسد اسلام آباد آئے ہوئے ہیں۔ جنرل ضیا الحق کی دعوت پر وہ اور ڈاکٹر حمید اللہ پاکستان آئے تھے۔ معلوم ہوا کہ اسد پرل کانٹی نینٹل راولپنڈی میں قیام فرما ہیں۔ میں نے انہیں فون کیا کہ ایک عقیدت مند ہوں اور ملاقات کا شرف حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ فرمایا آ جاؤ۔ میں پہنچ گیا۔ کمرے سے باہر نکل کر ملے۔ طویل قامت تھے اور سرخ سفید چہرہ! کوئی آدھ گھنٹہ ان کے پاس‘ ان کے کمرے میں بیٹھا رہا۔ حماقت یہ ہوئی کہ اس ملاقات کی روداد یعنی گفتگو کی تفصیل ‘ جو اسی دن احاطۂ تحریر میں لے آنی چاہیے تھی‘ نہ لایا۔ آج بیالیس برس بعد کچھ یاد نہیں۔
ان کی آپ بیتی '' دی روڈ ٹو مکہ‘‘1954ء میں شائع ہوئی۔ وفات ان کی1992ء میں ہوئی۔ سوال یہ تھا کہ پچاس کی دہائی کے بعد ‘ جو ان کے حالات تھے‘ کہاں سے ملیں گے ؟ یہ زبر دست کام اکرام چغتائی نے کیا۔ محمد اسد پر ان کی تصانیف کی تعداد نصف درجن سے زیادہ ہے جن میں اہم ترین پانچ ہیں۔ محمد اسد بندۂ صحرائی (اردو)‘ محمداسد ایک یورپین بدوی (اردو)‘ محمداسد...اسلام کی خدمت میں یورپ کا تحفہ (دوجلدوں میں بزبان انگریزی )۔Home coming of the Heartمحمد اسد کی خودنوشت کا دوسرا حصہ ہے۔ اس دوسرے حصے کو اکرام چغتائی نے مرتب کیا ہے اور اس پر حواشی بھی لکھے ہیں۔ اس کتاب کا آخری حصہ محمد اسد کی وفات کے بعد ان کی بیگم پولا حمیدہ اسد نے تحریر کیا ہے۔
اکرام چغتائی صاحب سے میری پہلی ملاقات آج سے چودہ پندرہ سال پہلے اورینٹل کالج لاہور میں ہوئی۔ وہ برادرم تحسین فراقی صدر شعبہ اردو کے کمرے میں تشریف فرما تھے‘ تعارف پرمعلوم ہوا کہ کالم کے حوالے سے وہ مجھے غائبانہ طور پر جانتے تھے۔ ان کے لیے یہ بات بہت اہم تھی کہ مجھے علامہ اسد سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا تھا۔ میرا گمان ہے کہ انہوں نے علامہ صاحب کو نہیں دیکھا ورنہ وہ ضرور ذکر کرتے۔ اس کے بعد ان سے مسلسل رابطہ رہا۔ ایک بار لاہور ‘ جب میں اپنی بیٹی کے گھر میں ٹھہرا ہوا تھا‘ وہ ملنے بھی تشریف لائے۔ ایک تفصیلی ملاقات اسلام آباد کلب میں بھی ہوئی۔ فون پر ان سے تفصیلی گفتگو اکثر رہتی۔ اپنی تصانیف باقاعدگی سے ارسال فرماتے رہے۔ جب بھی ان سے کسی علمی مسئلے پر رہنمائی چاہی تو انہوں نے کمال شفقت اور فیاضی کا مظاہرہ کیا۔ علامہ اسد کے حوالے سے کچھ غلط فہمیاں پھیلائی جا رہی تھیں( جن کی تفصیل میں جانا اس وقت مناسب نہیں )۔ میں نے ان غلط فہمیوں کا رد کرنے کا ارداہ کیا تو چغتائی صاحب سے ذکر کیا۔ انہوں نے حوصلہ افزائی بھی کی اور رہنمائی بھی کی۔ اس سلسلے میں میرے دو اہم کالم روز نامہ دنیا ہی میں شائع ہوئے۔ پہلا کالم ''قائداعظم اور علامہ محمد اسد...؟ حقیقتِ حال‘‘ کے عنوان سے بیس مئی 2013ء کو چھپا۔ دوسرے کا عنوان '' لیاقت علی خان‘ محمد اسد اور پطرس بخاری‘‘ تھا جو تین دن بعد 23 مئی2013ء کو شائع ہوا۔
چغتائی صاحب کی تصانیف کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ انہوں نے متنوع موضوعات پر لکھا ‘ جم کر لکھا اور بہت زیادہ لکھا۔ جب بھی کسی موضوع پر ہاتھ ڈالتے‘ اس کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتے اور حوالے دیتے۔مولانا محمد حسین آزاد پر مطالعۂ آزاد کے عنوان سے کتاب تصنیف کی۔ڈپٹی نذیر احمد کی سوانح حیات لکھی اور ان کی تصانیف پر تنقیدی اور تحقیقی جائزہ پیش کیا۔ اقبال اور گوئٹے پر اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں کتابیں لکھیں۔ اقبال‘ افغان اینڈ افغانستان ان کی انگریزی تصنیف ہے۔ نواب واجد علی شاہ کے خطوط ترتیب دیے۔ سرسید احمد خان پر لکھا‘ خواجہ حسن نظامی پر تحقیق پیش کی۔1857ء کی جنگ آزادی سے متعلق روزنامچے اور یاد داشتیں مرتب کیں۔ اس کے علاوہ بھی بہت سی تصانیف ہیں اور تقریباً ہر تصنیف ‘ تحقیق پر مشتمل ہے۔
اس بات کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے کہ وفاقی یا پنجاب حکومت چغتائی صاحب کے لیے کچھ کرے گی۔سرکاری عمائدین کو شاید ان کا یا علامہ اسد کا نام ہی معلوم نہ ہو۔ایسے میں یہ توقع کرنا کہ کوئی شاہراہ ان کے نام سے منسوب کی جائے گی یا سرکاری سطح پر ان کی تصانیف کی اشاعت کا اہتمام ہو گا‘ محض خواب دیکھنے والی بات ہے۔ ہاں‘ جن حضرات کو ادب اور تحقیق سے لگاؤ ہے وہ ان کی تصانیف پر ضرور توجہ دیں گے۔اس ضمن میں یونیورسٹیوں کا کردار بہت اہم ہے۔ ادب اور تاریخ کے اساتذہ کو چاہیے کہ اپنے اپنے دائرے میں ان کی تصانیف کو عام کریں اور ایم فِل اور پی ایچ ڈی کے طلبہ و طالبات سے ان پر تحقیقی کام کرائیں۔ ان کی کتابیں انٹر نیٹ پر بھی دستیاب ہونی چاہئیں۔