ہمارا حال تو اُن سادہ لوح‘ جھلّے‘ دادا پوتا کی طرح ہے جنہیں لوگ ادھر کا رہنے دے رہے تھے نہ اُدھر کا ! دونوں اپنے گدھے پر سوار‘جا رہے تھے کہ لوگوں نے ملامت کی کہ گدھے پر ظلم کر رہے ہیں۔دادا اتر کر پیدل چلنے لگا۔ لوگوں نے کہا پوتے کو شرم نہیں آتی‘ گدھے پر سوار ہے اور بوڑھا دادا پیدل جا رہا ہے۔ پوتا اتر پڑا اور دادا گدھے پر سوار ہو گیا۔ اب جو بھی دیکھتا کہتا یہ بڈھا کتنا سنگدل ہے۔ چھوٹے بچے کو پیدل چلا رہا ہے‘ خود‘ سواری کا مزا لُوٹ رہا ہے۔ تنگ آکر دونوں پیدل چلنے لگے۔اب لوگوں نے مذاق اُڑانا شروع کر دیا کہ بیوقوفوں کے پاس سواری موجود ہے اور اس سے فائدہ نہیں اٹھا رہے!
تازہ خبر یہ ہے کہ چوبیس سعودی خواتین نے حرمین ایکسپریس چلانے کی تربیت مکمل کر لی ہے۔ حرمین ایکسپریس تیز رفتار برقی ریل ہے جو مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان چلتی ہے۔ بتایا جارہا ہے کہ اس کی رفتار تین سو کلو میٹر ہو گی۔ اس سے پہلے خواتین کار بھی نہیں چلا سکتی تھیں۔ اِکا دُکا خاتون‘ کسی دور دراز علاقے میں ڈرائیونگ سیکھ لیتی تھی۔ایک بار صحرا میں سفر کے دوران‘ مرد کو‘ جو کار چلا رہا تھا‘ دل کا دورہ پڑا۔خوش قسمتی سے اس کی بیوی نے‘ جو ہمسفر تھی‘ ڈرائیونگ چھپ کر سیکھی ہوئی تھی۔ اس نے فوراً ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لی۔ کئی میل کار چلا کر نزدیک ترین آبادی میں پہنچی جہاں اس کے میاں کا علاج کیا گیا اور یوں اس کی زندگی بچ گئی۔ جن دنوں وہاں ڈرائیونگ ممنوع تھی‘ مذہبی رہنما بھی ڈرائیونگ کے خلاف تھے۔ یہاں تک نکتہ آفرینی کی گئی کہ ڈرائیو کرنے سے عورت بانجھ ہو سکتی ہے۔ پھر خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت مل گئی۔اب وہ ماشاء اللہ ٹرین بھی چلائیں گی۔عرب نیوز ڈاٹ کام کے مطابق اب سعودی خواتین ہوائی جہاز بھی چلا رہی ہیں۔ ایک سعودی ایئر لائن Flyadeal نے بتایا کہ جدہ سے ریاض تک ایسی پرواز بھی چل چکی ہے جس کا سارا عملہ‘ بشمول پائلٹ اور نائب پائلٹ‘ خواتین پر مشتمل تھا۔
عبایا پہننا ایک عرصہ تک لازم رہا۔ یہ پابندی غیر ملکی اور غیر مسلم عورتوں کے لیے بھی تھی۔ اتنی سختی تھی کہ شُرطہ صاحب‘ عبایا کے کف پر کی ہوئی کشیدہ کاری پر بھی اعتراض کرتے تھے۔ انیس مارچ2018ء کو'' گلف نیوز‘‘ نے خبر دی کہ اب خواتین کے لیے عبایا پہننا یا سر ڈھانکنا لازم نہیں۔ یہ اجازت کسی عام افسر یا ادارے نے نہیں دی تھی۔ یہ اعلان مملکت کی دوسری اہم ترین شخصیت نے کیاتھا !!
یہ آنکھ مچولی‘ ہم مسلمان عوام کے ساتھ‘ کئی صدیوں سے کھیلی جا رہی ہے۔ سوار ہونے دیا جاتا ہے نہ پیدل چلنے دیا جاتا ہے۔ چھاپہ خانہ (پریس) آیا تو دہلی سے لے کر استنبول تک‘ اس کی اجازت ہی نہ دی گئی۔ اجازت ملی بھی تو کہا گیا کہ مذہبی کتابیں ہاتھ ہی سے لکھی جائیں۔ پھر دوسری انتہا دنیا نے یہ بھی دیکھی کہ بیچارے معصوم چھاپہ خانے تکفیری فیکٹریوں میں تبدیل کر دیے گئے۔ روایت ہے کہ ٹیلی فون آیا تو مشرق وسطیٰ کے کسی سرکاری‘ درباری‘ عالم کو اس پر بات کرائی گئی۔ انہوں نے فرمایا کہ ھذا صوت الشیطان! یہ تو شیطان کی آواز ہے! بادشاہ نے دوسری طرف سے تلاوت کرنے کا حکم دیا‘ کلام پاک سن کر انہوں نے حِلّت کا فتویٰ دیا۔ لاؤڈ سپیکر آیا تو جو کچھ ہوا اور پھر جو کچھ بعد میں ہوا‘ سب کو معلوم ہے۔ تصویر کے ساتھ بھی ایسا ہی معاملہ پیش آیا۔ٹی وی نے بھی حرام ہونے اور حلال ہونے کے کئی مرحلے سر کیے۔اسے پہلے شجرِ ممنوعہ قرار دیا گیا۔اس سے گھر میں جھگڑے پیدا ہوئے۔ باپ بیٹے اور میاں بیوی کے درمیان لڑائیاں ہوئیں۔ یہاں تک کہ گھرانے ٹوٹے۔ پھر سب کچھ بدل گیا۔ بدلنے کی وجوہ پر بات کریں تو بہت سے صالحین اور متّقین کی پیشانیاں شکن آلود ہو جائیں گی۔ غرض‘ پہلے کہتے ہیں پیدل چلو۔ پھر کہتے ہیں سوار ہو جاؤ!
ایک مشہو رو معروف شخصیت نے اپنے سننے والوں کو تلقین کی کہ حجامہ کراؤ‘ یہ ستّر بیماریوں کا علاج ہے۔ اور بطور ِخاص فرمایا کہ ڈاکٹروں سے نجات مل جائے گی۔ بالکل درست! کوئی اعتراض نہیں ! مگر ہوا کیا ؟ جب خود بیمار ہوئے تو ڈاکٹر کے پاس ہسپتال تشریف لے گئے! دوسروں کو حجامہ کی تلقین کی‘ خود ہسپتال جا کر‘ جدید علاج کرایا !!
مولانا جسٹس تقی عثمانی نے اجتہاد سے کام لے کر اسلامی بینکاری شروع کرائی۔ جن بہت زیادہ محتاط لوگوں کے لیے گاڑی یا مکان خریدنے کی کوئی صورت نہ تھی ( کہ وہ سودی قرض سے بچتے تھے) ان کے لیے ایک راستہ نکالا۔اگرچہ اسلامی بینکاری پر تکنیکی اعتراضات موجود ہیں مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ اجتہاد شروع تو ہوا۔ جوں جوں وقت گزرے گا‘ اس میں مزید بہتری آتی جائے گی! جن کے سروں پر چھت نہیں تھی‘ انہیں سہارا تو ملا۔ مگر کچھ حضرات نے اس اجتہاد کو ناجائز قرار دیا۔ ان سے درخواست کی گئی کہ اگر اسلامی بینکاری جائز نہیں تو آپ مسئلے کا حل تجویز فرمائیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حل ان کے پاس کوئی نہیں تھا!!
دنیا کہاں پہنچ گئی ہے‘ ہم ابھی اس بحث میں پڑے ہیں کہ پتلون جائز ہے یا ناجائز! غیر مسلم گھر میں آجائے تو اس کے کھانے کے برتن الگ کر دیے جاتے ہیں! یورپ اور امریکہ میں انہی کے برتنوں میں انہی کے پکائے ہوئے کھانے فخر سے کھاتے ہیں۔ کوئی نماز پڑھے تو اس کی اتنی غلطیاں نکالتے ہیں اور اس قدر اعتراضات کرتے ہیں کہ وہ تنگ آکر نماز سے بھاگ ہی جاتا ہے۔ دوسری طرف جو واضح احکام ہیں ان پر توجہ ہی نہیں ! غریب رشتہ داروں کی مدد تو کیا ہو گی‘ ان سے تعلق ہی توڑ دیا جاتا ہے۔بات بات پر قطع رحمی کا ارتکاب کیا جاتا ہے۔ جھوٹ رگوں میں خون کی صورت رواں ہے۔ ماپ تول میں گڑ بڑ عام ہے۔ کسی نے عباسی دور کے مشہور وزیر اعظم یحییٰ برمکی کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا کہ وعدہ کرے تو یاد رکھتا ہے۔ احسان کرے تو بھول جاتا ہے۔ ہمارا رویّہ اس کے بر عکس ہے۔ کسی پر احسان کریں تو اس کی نسلوں کو بھی جتاتے ہیں۔ وعدہ کریں تو شام سے پہلے بھول جاتے ہیں ! اخبارات میں جو کالم چھپتے ہیں ان کے نیچے‘ ویب سائٹ میں‘ کمنٹ بھی لکھے جاتے ہیں۔ اب یہ تو طے ہے کہ کالم پڑھنے والے اَن پڑھ نہیں ہو سکتے مگر بہت سے کمنٹ پڑھ کر ہاتھ بے اختیار کانوں کی طرف اٹھتے ہیں! گالیاں‘ ذاتی حملے‘ بے سروپا الزامات! تضحیک آمیز اعتراضات۔ توہین! تحقیر اور تنقیص! کالم نگار تو گردن زدنی ہیں ہی! بعض کمنٹ لکھنے والوں کے شجرہ ہائے نسب بھی کھنگال دیے جاتے ہیں۔ دعویٰ جس ہستی کی پیروی کا ہم کرتے ہیں اس کا فرمان تو یہ ہے کہ '' مجھے اچھے اخلاق کی تکمیل کے لیے مبعوث کیا گیا ہے‘‘۔ یہ بھی فرمایا کہ تم میں سب سے زیادہ طاقتور وہ ہے‘ جو غصہ کے وقت خود پرقابوپالے! مگر ہم بد اخلاقی کی آخری حد بھی شاید پار کر چکے ہیں۔ اپنے پسندیدہ مذہبی اور سیاسی لیڈروں کو فرشتہ ثابت کرتے ہیں اور دوسروں کے پسندیدہ لیڈروں کی ناقابلِ برداشت حد تک توہین اور دشنام طرازی ! ہمیں زرداری صاحب‘ میاں صاحب‘ مولانا فضل الرحمن اور عمران خان صاحب سے اختلاف کا حق حاصل ہے مگر یہ حق کس نے دیا ہے کہ ہم ان کے لیے شرافت سے گری ہوئی زبان استعمال کریں ؟ کم از کم بچوں کو تو خوش اخلاقی اور شائستگی سکھا دیں! کیا عجب ہمارا کل‘ ہمارے آج سے بہتر ہو جائے!!