مسلم لیگ (ن) کی سینئر قیادت نے موجودہ سیاسی صورت حال میں نواز شریف کو فوری وطن واپسی کی درخواست کی تھی لیکن نواز شریف نے فی الحال فوری وطن واپسی سے صاف انکار کر دیا۔ اگلے چند روز میں مریم نواز کی فوری وطن واپسی کا فیصلہ ہوگا۔ مریم نواز یہاں واپس آ کر کچھ عرصے کے بعد نواز شریف کو رپورٹ دیں گی تو اس کے بعد وہ وطن واپسی کا فیصلہ کریں گے۔ ذرائع کے مطابق نواز شریف نے وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کو لندن طلب کر لیا ہے اور انہیں پنجاب کے تمام صوبائی حلقوں کے ممکنہ امیدواروں کی فہرست بھی ساتھ لانے کی ہدایت کی ہے۔
یہ خبر دو دن پہلے تمام اخبارات میں چھپی ہے۔ مجھے یہ خبر پڑھ کر ہنسی آئی کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت‘ جس نے بڑے میاں صاحب کی خدمت میں فوری وطن واپس آنے کی عرضی گزاری‘ کتنی سادہ لوح ہے! کہاں لندن اور کہاں پاکستان! میاں صاحب اب لندن کے پکے پکے رہائشی ہیں۔ اپنا گھر! وہ بھی ایسا عالی شان کہ گوروں کی اکثریت اس کا سوچ بھی نہیں سکتی! صاحبزادے ماشاء اللہ دونوں لندن میں ان کے پاس ہیں۔ دونوں کی شہریت برطانوی ہے! لندن کی جنت کو چھوڑ کر میاں صاحب پاکستان آجائیں! اب وہ اتنے بھی کوتاہ اندیش نہیں! وہ تو سال ہا سال عید پر بھی پاکستان سے لندن چلے جاتے رہے۔ بالکل اسی طرح جیسے ہم لوگ عید منانے اپنے اپنے شہر یا اپنے اپنے گاؤں چلے جاتے ہیں۔ لندن کی آب و ہوا‘ وہاں کی خوراک‘ وہاں کا پولیس سسٹم‘ وہاں کے ریستوران‘ وہاں کے سپر سٹور‘ وہاں کے ہسپتال‘ یہ اعلیٰ ترین معیارِ زندگی چھوڑ کر میاں صاحب اس ملک میں چلے آئیں جہاں نو ماہ شدید گرمی رہتی ہے‘ ہر طرف گرد اور مٹی! ڈھنگ کے ریستوران نہ علاج کی سہولتیں! مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں!
کئی برسوں سے میاں صاحب لندن ہی سے پارٹی کے معاملات چلا رہے ہیں۔ جب سے ان کے چھوٹے بھائی وزیراعظم بنے ہیں‘ ملکی معاملات بھی میاں صاحب کے لندن والے گھر ہی میں طے ہوتے ہیں۔ اب بھی انہوں نے رانا ثنا اللہ صاحب کو حکم دیا ہے کہ حاضر ہوں اور پنجاب کے صوبائی حلقوں کے امیدواروں کی فہرست پیش کریں!
تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے لوگ جانتے ہیں کہ جب متحدہ ہندوستان پر تاجِ برطانیہ کی حکومت تھی تو برطانیہ کے وزیراعظم کی کابینہ میں ایک وزیر‘ وزیرِہند بھی ہوتا تھا جسے Secretary of State for Indiaکہا جاتا تھا۔ اس کی ذمہ داری تھی کہ ہندوستان کی انگریزی حکومت یعنی ہندوستان کا وائسرائے برطانیہ کے مفادات کو ہر حال میں مقدم رکھے۔ ہندوستان کا وائسرائے وزیرِ ہند کا براہِ راست ماتحت تھا۔ وزیرِ ہند‘ ہندوستان کے علاوہ عدن‘ برما اور سری لنکا کا بھی انچارج تھا۔ وزیرِ ہند کی اسامی اس وقت پیدا کی گئی جب 1857ء کی جنگِ آزادی کی ناکامی کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی کو ختم کر دیا گیا اور ہندوستان‘ براہِ راست برطانوی حکومت کے زیر انتظام آگیا۔ انگریزی اقتدار ختم ہوا اور پاکستان اور بھارت الگ ہوئے تو وزیرِ ہند کی پوسٹ بھی ختم کر دی گئی۔
تقسیمِ ہند کے پچھتر سال بعد پھر تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے۔ پاکستان کا وزیراعظم لندن کو رپورٹ کر رہا ہے مگر اس بار وزیرِ ہند کو نہیں بلکہ میاں نواز شریف کو! وفاقی وزرا بھی اکثر و بیشتر وہیں جاتے ہیں۔ اب پنجاب کے معاملات طے کرنے کے لیے رانا صاحب بھی وہیں حاضر ہو رہے ہیں۔ الیکشن میں کھڑے ہونے والے امیدواروں کی فہرستیں بھی وہیں جا رہی ہیں۔ ہم مانیں یا نہ مانیں‘ عملاً صورت حال وہی ہے جو قیامِ پاکستان سے پہلے تھی۔ میاں صاحب لندن میں بالکل وہی فرائض سر انجام دے رہے ہیں جو وزیرِ ہند یعنی ''سیکرٹری آف سٹیٹ فار انڈیا‘‘ انجام دیتا تھا! بظاہر اس بات کا دور دور تک کوئی امکان نہیں نظر آرہا کہ میاں صاحب واپس پاکستان آنا پسند کریں! (یہ بھی یاد رہے کہ 2013ء سے 2016ء تک‘ اپنی وزارتِ عظمیٰ کے دوران‘ دستیاب اطلاع کے مطابق میاں صاحب سترہ بار برطانیہ یعنی لندن تشریف لے گئے) توکیوں نہ ان کے لندن قیام سے سیاسی اور سرکاری فائدہ اٹھایا جائے تاکہ پاکستان کا بھلا ہو۔ شاہِ برطانیہ کی خدمت میں گزارش کی جائے کہ میاں صاحب کو ''سیکرٹری آف سٹیٹ فار پاکستان‘‘ کے طور پر تسلیم کیا جائے۔ وہ برطانوی کابینہ میں اس خاص حیثیت سے جلوہ افروز ہوں۔ اس طرح پاکستان کو وہ تمام سہولتیں‘ مراعات اور فنڈز حاصل ہو جائیں گے جو برطانیہ کو حاصل ہیں۔ اگر ایسا نہ ہو سکے تو کم از کم مسلم لیگ (ن) کا ہیڈ آفس مستقل طور پر لندن منتقل کر دیا جائے۔
اور اگر میاں صاحب چوتھی بار پاکستان کے وزیراعظم بن جائیں تو اب کے تمام حجابات درمیان سے اٹھا دیے جائیں اور ان کے لندن والے گھر کو وزیراعظم ہاؤس قرار دیا جائے۔ کابینہ کے اجلاس وہیں ہوں۔ آخر وڈیو کانفرنسوں سے پوری دنیا میں کام لیا جا رہا ہے! مسلم لیگ (ن) کی سینئر قیادت کا جو اجلاس لاہور میں دو دن پہلے منعقد ہوا ہے‘ اس میں بڑے میاں صاحب اور محترمہ مریم نواز وڈیو لنک کے ذریعے ہی لندن سے شریک ہوئیں۔ اس وقت میاں صاحب کے بچے لندن میں ان کے پاس ہیں۔ اگر وہ چھوٹے بھائی کو بھی وہیں بلا لیں اور شہباز شریف صاحب وہیں سے وزارتِ عظمیٰ چلاتے رہیں تو پاکستان کو بڑے میاں صاحب کی براہِ راست نگرانی کے ثمرات حاصل ہو سکیں گے!
کالم کے آغاز میں جو خبر درج کی گئی ہے‘ اسے دوبارہ پڑھیے۔ ایک پوائنٹ پر شاید آپ نے غور نہیں کیا! اس میں دو اہم فیصلوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ پہلا یہ کہ اگلے چند روز میں مریم نواز کی فوری وطن واپسی کا فیصلہ ہوگا۔یعنی مریم نواز کو پاکستان واپس آنا چاہیے یا نہیں‘ اس کا فیصلہ ابھی ہونا ہے۔ یہ بھی کہ اگر آنے کا فیصلہ ہو گیا تو پھر یہ فیصلہ بھی کیا جانا ہے کہ کب آئیں گی۔ اگر وہ آ گئیں تو پھر وہ میاں صاحب کو رپورٹ دیں گی‘ تب دوسرا اہم فیصلہ‘ یعنی میاں صاحب کی واپسی کا فیصلہ ہوگا! غور کیجئے کہ جہاں ملک کو کئی نازک اور حساس مسائل درپیش ہیں۔ جیسے آئی ایم ایف سے قرض کا حصول‘ ملک میں دہشت گردی کی نئی لہر‘ حد سے زیادہ گرانی‘ افغانستان سے تعلقات کی نوعیت‘ وہاں یہ نازک اور حساس مسئلہ بھی درپیش ہے کہ میاں صاحب پاکستان واپس کب آئیں۔ میرے خیال میں اس مسئلے کو اتنی اہمیت نہیں دی جا رہی‘ جتنی دینی چاہیے۔ تمام سیاسی جماعتوں کا مشترکہ اجلاس بلانا چاہیے جس میں حساس ادارے بھی شامل ہوں۔ بیورو کریسی‘ وکیلوں‘ ڈاکٹروں اور دیگر شعبوں کے نمائندے بھی اس اجلاس میں موجود ہوں۔ اس اجلاس کا ون پوائنٹ ایجنڈا ہو اور وہ ہو میاں صاحب کی لندن سے واپسی۔ میاں صاحب وڈیو لنک کے ذریعے اس اجلاس سے خطاب کریں اور ضروری ہدایات دیں۔ یہ اجلاس کم از کم ایک ہفتہ رات دن جاری رہے۔ اس میں میاں صاحب کی واپسی کے تمام پہلوؤں پر خوب غور کیا جائے۔ ان کی واپسی یا ناواپسی سے خطے پر کون کون سے سیاسی‘ سماجی‘ تاریخی اور اقتصادی اثرات پڑ سکتے ہیں‘ عالمی منظر نامے پر کیا تبدیلیاں ان کی واپسی سے یا واپس نہ آنے سے رو نما ہو سکتی ہیں‘ ان سب سوالوں کے جواب تلاش کیے جائیں۔ اگر غیرملکی ماہرین کی مدد درکار ہو تو وہ بھی حاصل کی جائے۔ آخر میں اگر اجلاس یہ رائے دے کہ حالات میاں صاحب کی واپسی کے لیے کبھی بھی مناسب نہیں ہوں گے‘ اس لیے وہ واپسی کا نہ سوچیں تو اس رائے کو میاں صاحب بہت پسند کریں گے!