تاریخ ایک محمد تغلق کو رو رہی ہے۔یہاں‘ہمارے ہاں‘ ہر روز ایک محمد تغلق نازل ہو رہا ہے۔ مگر معاف کیجیے! یہ جو اصل محمد تغلق تھا‘ جسے پڑھا لکھا بے وقوف کہا جاتا ہے‘ بے وقوفی میں آج کے محمد تغلقوں کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتا۔
اگر وکیلوں اور عدلیہ میں جھگڑا ہو جائے اور ایک تحقیقاتی کمیٹی بنے تو کیا کمیٹی کے سارے ارکان وکیلوں پر مشتمل ہوں گے ؟ نہیں ! ہر گز نہیں !! اگر کسی کارخانے میں انتظامیہ اور یونین کے درمیان فساد برپا ہو جائے اور تحقیقاتی کمیٹی میں یونین کا کوئی نمائندہ شامل نہ ہو توکیا اس کمیٹی کی رپورٹ مانی جائے گی ؟ نہیں! ہر گز نہیں !! مگر آج کے محمد تغلق‘ آج کے پڑھے لکھے '' عقل مند‘‘ ٹھیک یہی کچھ کر رہے ہیں! گزشتہ ہفتے گجرات جیل میں فساد بر پا ہوا۔ قیدیوں نے ہنگامہ کر دیا۔ واچ ٹاور‘ راشن‘ ادویات‘ فرنیچر‘ ٹریننگ سنٹر‘غسل خانوں کے پائپ‘ کیمرے‘ پانی فلٹر کرنے والا پلانٹ‘ سب کچھ جل گیا۔ ضلعی انتظامیہ نے جو ابتدائی تحقیقات کیں ان سے معلوم ہوا کہ اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ جیل اور دو دیگر سینئر اہلکار‘ قیدیوں کے ساتھ مسلسل بدسلوکی کر تے رہے ہیں اور انہیں رشوت دینے پر مجبور کرتے رہے ہیں! صرف یہی نہیں‘ ڈپٹی کمشنر نے باقاعدہ تجویز پیش کی یعنی Recommend کیا کہ ضلعی جیل کے معاملات پر ایک باقاعدہ انکوائری کرائی جائے کیونکہ گزشتہ دو تین برسوں میں یہ دوسرا فساد رو نما ہوا ہے۔ پہلے فساد کا سبب بھی مبینہ طور پر جیل اہلکار وں کی کرپشن اور رشوت ستانی تھی۔ اب آپ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ کیا انکوائری‘ جیل کے سٹاف اور جیل میں تعینات افسروں کے خلاف ہونی چاہیے تھی یا نہیں ؟ اور کیا یہ انکوائری حکومت کو کرانی چاہیے تھی یا جیل کے حکام کو ؟ ظاہر ہے جب فسادات کی وجہ جیل حکام اور جیل اہلکاروں کا رویہ ہے تو تفتیش ایسی اتھارٹی کو کرنی چاہیے جو جیل حکام سے الگ ہو بلکہ ان سے سینئر ہو! مگر قربان جائیں پاکستان کے تغلقوں پر ! ملاحظہ فرمائیے کہ انکوائری کمیٹی کے ارکان میں کون کون شامل ہیں ! اے آئی جی جیل لاہور‘ سپرنٹنڈنٹ اٹک جیل‘ سپرنٹنڈنٹ سیالکوٹ جیل‘ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ جیل فیصل آباد ریجن۔ ہم کسی طور بھی کمیٹی کے ان معزز ارکان کی دیانت اور قابلیت پر شک نہیں کر رہے مگر بھائی ! یہ پاکستان ہے۔ سنگا پور یا جاپان نہیں ! یہ سب حضرات اسی محکمے سے تعلق رکھتے ہیں جس محکمے کے افسر اور اہلکار گجرات جیل میں‘ مبینہ طور پر‘ بدسلوکی اور رشوت ستانی کے مرتکب ہوئے ہیں! یہ معاشرہ تعلقات اور اور ایک دوسرے کو سزا سے بچانے کے کلچر پر چل رہا ہے۔ یہاں دباؤ ہے۔ سماجی زور ہے۔ ایک ہی محکمے کے افراد آپس میں دوستیاں اور مخالفتیں رکھتے ہیں! یہاں مجبوریاں پیروں میں زنجیر بن جاتی ہیں۔
مطلب صاف ہے کہ جیلوں کو سدھارنے کا کوئی ارادہ ہے نہ نیت نہ آثار!! جیل کی دنیا‘ ہم سب جانتے ہیں‘ ناانصافیوں سے اٹی ہوئی ہے۔ جن کے ہاتھ لمبے ہیں ان کے لیے جیل فائیو سٹار ہوٹلوں کی طرح ہیں۔ کھانے بھی باہر سے آ جاتے ہیں۔ موبائل فون بھی رکھے ہوئے ہیں۔ جیل اہلکار جھک کر سلام بھی کرتے ہیں۔ جیل کے اندر رہ کر مافیا چیف قسم کے افراد ملک بھر میں جرائم بھی کرا تے ہیں۔جن غریبوں کا آگا پیچھا کوئی نہیں‘ وہ جیلوں میں جانوروں اور کیڑے مکوڑوں جیسی زندگی گزار رہے ہیں۔ انہیں ٹھوکریں پڑتی ہیں۔ بدترین خوراک ملتی ہے۔ بسا اوقات ایسی زندگی پر وہ خود کشی کو ترجیح دیتے ہیں ! قیدی عورتوں کے ساتھ جو سلوک ہوتا ہے‘ اس کی تفصیل کا یہ کالم متحمل ہی نہیں ہو سکتا۔ اُن بچوں کی زندگی کا اندازہ کیجیے جو جیل میں پیدا ہوتے ہیں اور اپنی ماؤں کے ساتھ بچپن جیل میں گزارتے ہیں ! نہیں معلوم کسی قیدی نے پاکستانی جیلوں میں گزاری ہوئی زندگی پر کوئی کتاب تصنیف کی ہے یا نہیں! اگر ایسی کوئی کتاب‘ پوری سچائی سے‘ کبھی‘ لکھی گئی تو یقیناً رونگٹے کھڑے کردینے والی ہو گی !!
سوال یہ ہے کہ کوئی مسئلہ چھوٹا ہو یا بڑا‘ پاکستان میں حل کیوں نہیں ہوتا؟ حکومت کوئی بھی ہو‘ نااہلی میں کمی نہیں آتی۔ وفاقی دارالحکومت میں نئے ایئر پورٹ کے قرب و جوار میں سینکڑوں غیر قانونی ہاؤسنگ سوسائٹیاں وجود میں آتی رہیں۔ متعلقہ ادارے آنکھوں پر مفادات کی چربی چڑھائے بے حس و حرکت بیٹھے رہے۔ کسی ذمہ دار افسر یا اہلکار کو سزا نہ ملی۔ پاکستانی حکومت اور پاکستانی ریاست کی نالائقی کی بدترین مثال تحریک طالبان پاکستان ( ٹی ٹی پی) کا عروج اور مسلسل عروج ہے۔ یہی نہیں طے ہو رہا کہ ٹی ٹی پی کو گلے لگانا ہے یا دور رکھنا ہے۔ اندھوں اور بہروں کو بھی معلوم ہے کہ طالبان افغانستان کے ہوں یا پاکستان کے‘ امیر سب کا ایک ہی ہے۔ گزشتہ حکومت قیدی طالبان کو رہا کرتی رہی۔ سابق وزیر اعظم نے افغانستان میں طالبان حکومت آنے پر زبردست خیر مقدمی بیانات دیے۔ اب انہوں نے یہ بتایا ہے کہ وہ ٹی ٹی پی کے پانچ ہزار افراد کو اور ان کے خاندانوں کو پاکستان واپس لا کر آباد کرنا چاہتے تھے۔موجودہ حکومت کو سابق وزیراعظم سے یہ پوچھنے کی ہمت نہیں ہو رہی کہ کیا یہ پانچ ہزار جنگجو اسلحہ کے ساتھ آباد کرنے تھے ؟ اگر نہیں تو کیا انہیں غیر مسلح کرنے کے لیے کوئی اقدام اٹھایا گیا تھا اور مزید یہ کہ اتنے بڑے فیصلے سے پارلیمنٹ کو کیوں بے خبر رکھا گیا تھا؟ ویسے مسلم لیگ نون بھی‘ اس ضمن میں‘ پاکیٔ داماں کی حکایت بہت زیادہ بڑھانے کی پوزیشن میں نہیں! اس کے ایک ممتاز لکھاری ہمیشہ طالبان کے حق ہی میں لکھتے رہے! پاکستانی حکومتوں کی دوغلی اور دو رُخی پالیسیوں کا بھی جواب نہیں۔ آج یہ بیانیہ ترتیب پارہا ہے کہ جہاد کا اعلان صرف ریاست کر سکتی ہے۔ ضیاء الحق کے عہدِ تاریک میں جو کچھ ہوتا رہا‘ کیا ریاست نے اس کا باقاعدہ اعلان کیا تھا ؟ ؟ اس وقت تو پاکستانی سرحدوں اور پاکستانی ویزے کا وجود ہی ختم کر دیا گیا تھا۔ قاضی حسین احمد‘ بعد میں‘ اخبارات میں کالم لکھ لکھ کر اعتراف کرتے رہے کہ فلاں کو پاکستان میں فلاں جگہ چھپا کر رکھتے رہے! کل کا خوب آج ناخوب ہو گیا ! کبھی ایکشن لے کر جسے ختم کیا جاتا ہے‘ اسی کو پھر حیاتِ نودی جاتی ہے! اس کے بعد پھر ایکشن کی بات کی جاتی ہے۔ جس دیوار کو چاٹ کر ختم کرتے ہیں‘ اسی دیوار کو اپنے ہاتھوں سے دوبارہ کھڑا کرتے ہیں !خیر یہ تو بہت بڑا مسئلہ ہے۔ سب کو معلوم ہے کہ ان تلوں میں تیل نہیں ! اور یہ بھی سب جانتے ہیں کہ کن تلوں میں تیل نہیں !! مگر چھوٹے سے چھوٹے مسئلے کو لے لیجیے۔ نااہلی‘ نالائقی اور بد انتظامی کے عفریت اس میں بھی ناچتے نظر آئیں گے۔ وفاقی دارالحکومت میں دو الگ الگ اسامیاں ہیں۔ چیف کمشنر اور سی ڈی اے کا چیئر مین ! سالہا سال سے ان دونوں پوسٹوں پر ایک ہی فرد کو لگایا جا رہا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ افسر‘ جو بھی ہو‘ ڈھنگ سے ایک پوسٹ کا بھی حق نہیں ادا کر سکتا۔ ان بزرجمہروں سے کوئی پوچھے کہ اے عقل کے نا بیناؤ! اگر یہی کرنا ہے تو ایک پوسٹ کو ختم کیوں نہیں کر دیتے ؟ ایک ایک افسر کے لیے دو دو پوسٹیں‘ دو دو گاڑیاں‘ دو دو سٹاف ممبران ! آخر کیوں ؟؟ المیہ یہ ہے کہ اہلیت‘ توازن‘ عقل‘ لیاقت اور ذہانت‘ بازار میں دستیاب نہیں ورنہ پاکستان کی حکومت اور پاکستان کی ریاست ان اجناس کی سب سے بڑی خریدار ہوتی !
لگا ہے دربار‘ شمع بردار سنگ کے ہیں!
ہوا کے حاکم ہیں‘ موم کے ہیں گواہ سارے