طالبان کی حکومت اور پاکستان کی حکومت کا فرق دیکھیے اور خود فیصلہ کیجیے کہ کون اسفل السافلین ہے اور کون کہاں ہے!
ہر روز لاکھوں‘ کروڑوں ڈالر غیر قانونی طریقے سے پاکستان سے افغانستان جا رہے ہیں۔ اس پر بہت شور برپا ہے اور کافی عرصہ سے برپا ہے۔ اخبارات دہائی دے چکے ہیں۔ منی چینجرز ایسوسی ایشن کے سربراہ ملک بوستان خان بارہا حکومت کی توجہ اس تباہی کی طرف دلا چکے ہیں۔ ٹی وی کے مباحثوں میں‘ ٹاک شو ز میں‘ بحثوں میں‘ اس رہزنی پر بہت کچھ کہا جا رہا ہے۔ مگر حکومت کا حال یہ ہے کہ:
زمیں جنبد نہ جنبد گُل محمد!
مشہور مزاحیہ شاعر‘ جعفر زٹلّی نے‘ جسے مغل بادشاہ فرخ سیر نے قتل کرا دیا تھا‘ نکمے بادشاہ کی ہجو میں کہا تھا :
زہے شاہ ِشاہان کہ روزِ وغا
نہ ہلّد نہ جنبد نہ ٹلّد ز جا
کہ لڑائی کے دن بادشاہ نہ ہلتا ہے‘ نہ اپنی جگہ سے حرکت کرتا ہے نہ جگہ سے ٹلتا ہے! المیوں کا المیہ یہ ہوا کہ حکومت نے یا کسی حکومتی ادارے نے اس صورتحال کے بارے میں ایک لفظ تک نہیں کہا! معلوم نہیں یہ بے نیازی ہے یا بے خبری ! یا بے حسی! کہ 'جانے نہ جانے گُل ہی نہ جانے‘ باغ تو سارا جانے ہے‘! یوں لگتا ہے ڈالر کی اس ناجائز ٹرانسفر سے پاکستان کا تو بے تحاشا نقصان ہو رہا ہے مگر پاکستان کی حکومت کا اس نقصان سے کوئی لینا دینا نہیں !
مشہور بین الاقوامی نیوز ایجنسی'' بلوم برگ‘‘ نے پانچ دن پہلے پاکستان کی اس صورتحال کے متعلق تفصیلی خبر دی ہے۔اس خبر کے مطابق پاکستان سے روزانہ لاکھوں ڈالر سمگلنگ کے ذریعے‘ افغانستان منتقل ہو رہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں افغانستان کی معیشت مضبوط ہو رہی ہے اور پاکستان کی اقتصادی زبوں حالی روزانہ کے حساب سے بدتر ہو رہی ہے۔ قربان جائیے کہ بلوم برگ کی اس رپورٹ پر بھی پاکستانی حکومت کی نیند کا خمار نہیں اترا۔ دوسری طرف طالبان نے اس پر فوری ایکشن لیا۔ طالبان کی حکومت نے کرنسی کنٹرول آرڈر جاری کیا جس کی رُو سے زر مبادلہ بغیر اجازت کے افغانستان میں نہیں لایا جا سکے گا۔ ڈالروں کی تعداد بھی بتانا ہو گی۔زمینی راستے سے صرف پانچ سو ڈالر تک لانے کی اجازت ہو گی۔ دس لاکھ ڈالر سمگل کرنے کی سزا ایک سال قید اور ایک لاکھ ڈالر جرمانہ ہو گا۔ ایک لاکھ ڈالر سمگل کرنے والے کو ایک ماہ قید میں رہنا ہو گا۔ ایک لاکھ ڈالر سے کم مقدار میں ڈالر سمگل کرنے والے کو دس دن کے لیے جیل کاٹنا ہو گی! اسے کہتے ہیں ایکشن لینا! طالبان سے کئی معاملات میں اختلاف کیا جا سکتا ہے ! بلکہ کچھ پہلو تو شدید اختلاف کے متقاضی ہیں۔ خواتین کی تعلیم کے حوالے سے ان کی پالیسی کا کوئی جواز نہیں! اس پالیسی کی مطابقت اسلام سے ہے نہ کسی بھی دنیاوی قانون سے ! یوں بھی ان کا تصورِ حکومت سینکڑوں سال پہلے مدوّن کی گئی فقہ کے ایک خاص مکتبِ فکر پر مبنی ہے جو جامد ہو چکا۔ طالبان کے نظام حکومت میں عوام کے فرائض تو ہیں‘ حقوق کم ہی دکھائی دیتے ہیں۔ اسلامی نظام سے ان کی مراد صرف اور صرف اسلامی سزاؤں کا نفاذ ہے۔ یہ سب اعتراضات اپنی جگہ بجا مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ طالبان جس چیز کو صحیح سمجھتے ہیں‘ وہ کر گزرتے ہیں۔ ان کے ہاں نفاق ہے نہ مداہنت! صاف بات کرتے ہیں۔ ایکشن لینا ہو تو ڈرتے ہیں نہ کسی مصلحت کی پروا کرتے ہیں۔متذبذب ! نہ پورے اس طرف نہ پورے اُس طرف! یہ تو ہماری حکومت کانشان بن چکا ہے۔ کوئی فیصلہ نہیں کرنا! کان پر جوں نہیں رینگنے دینی! افغانستان اپنے ملک میں ڈالر آنے سے روک رہا ہے۔ دوسری طرف پاکستان ڈالر باہر جانے سے نہیں روک رہا! عملاً جو کچھ ہو گا‘ وہ بعد میں دیکھا جائے گا مگر طالبان حکومت نے ایک دن ضائع کیے بغیر کرنسی آرڈر جاری تو کر دیا! بقول سودا ع
اے رُو سیاہ! تجھ سے تو یہ بھی نہ ہو سکا!
سر گھوم جاتا ہے یہ جان کر کہ سال سوا سال پہلے ایک ڈالر کے بدلے میں ایک سو چوبیس( 124 )افغانی مل رہے تھے۔ آج ڈالر کے بدلے میں نوّے( 90 )افغانی مل رہے ہیں۔ یعنی جتنی تعدادکم و بیش‘ پاکستان کی وفاقی کابینہ کی ہے‘ اتنی تعداد میں ایک ڈالر کے افغانی مل رہے ہیں۔ ہماری قومی غیرت کا تقاضا تو یہ ہے کہ اس وقت اگر ایک ڈالر کی قیمت دو سو ستر پاکستانی روپے ہے تو ہماری کابینہ کی تعداد بھی دو سو ستر ہونی چاہیے!! غور کرنے کی بات ہے کہ افغان حکومت نے اپنے ملک میں روپے کے استعمال پر پابندی لگائی ہوئی ہے۔ اگر کوئی شے پاکستان کو برآمد ہوتی ہے تو اس کی قیمت روپوں میں نہیں‘ ڈالروں میں لی جائے گی! فرض کیجیے‘ زر گُل ایک تاجر ہے جو افغانستان سے کوئلہ خریدتا ہے۔یہ کوئلہ وہ افغانی میں‘ یعنی افغان کرنسی میں‘ خریدے گا۔ اب یہ کوئلہ وہ پاکستان لے آتا ہے اور پاکستان میں بیچ دیتا ہے۔ پاکستانی خریدار اسے کوئلے کی قیمت روپوں میں ادا کرتا ہے۔ اب زر گل کے لیے مصیبت یہ ہے کہ وہ پاکستانی روپیہ افغانستان نہیں لے جا سکتا۔ افغان حکومت نے ایسا کرنے سے منع کیا ہوا ہے۔ وہ روپے کو پاکستان میں ڈالر میں بدلوائے گا اور ڈالر لے کر افغانستان چلا جائے گا۔ یوں ڈالر پاکستان سے اُڑ کر افغانستان پہنچ جائے گا۔ اگر پاکستانی حکومت کے لرزتے کانپتے جسم میں ریڑھ کی ہڈی ہوتی یا پاکستانی پارلیمنٹ اگر واقعی پارلیمنٹ ہوتی اور محض امرا کا کلب نہ ہوتی تو پاکستان افغانستان حکومت سے پوچھتا کہ پاکستانی روپیہ افغانستان میں کیوں نہیں جا سکتا؟ اگر پاکستانی آٹا‘ چاول‘ گندم‘ گھی‘ چینی‘ ادویات‘ سیمنٹ‘ سریا‘ کھاد‘ کپڑا‘ فرنیچر‘ جانوراور سینکڑوں دیگر پاکستانی اشیا قابلِ قبول ہیں تو پاکستانی روپیہ کیوں قابلِ قبول نہیں؟؟ یعنی میٹھا میٹھا ہپ اور کڑوا کڑوا تھو!! واہ بھئی واہ ! پاکستانی حکومت میں یہ تک کہنے کی جرأت نہیں کہ چلو! برآمدات کی آدھی قیمت ڈالروں میں سہی! آدھی قیمت تو روپوں میں لینے کی پالیسی بناؤ۔ یوں لگتا ہے پاکستان کی زندگی کا ایک ہی مقصد ہے اور وہ ہے افغانستان کی مسلسل پرورش اور کفالت!
کہاں ہیں بارڈر کنٹرول کرنے والے محکمے اور امیگریشن والے؟ کہاں ہے وزارتِ داخلہ؟ ان سب پر‘ ان کی تنخواہوں پر‘ ان کی گاڑیوں پر‘ان کی مراعات پر‘ اس بھوکی ننگی قلاش قوم کی خون پسینے کی کتنی کمائی خرچ ہو رہی ہے‘ یہ سینکڑوں افسر اور اہلکار کس مرض کی دوا ہیں؟ کیا یہ مذاق نہیں کہ ہر روز ہزاروں غیر ملکی بغیر دستاویزات کے اندر آجاتے ہیں اور ہر روز لاکھوں کروڑوں ڈالر باہر چلے جاتے ہیں؟ یہ ریاست ہے یا جنگل؟ ایسا کب تک چلے گا؟ کیا اُس دن کا انتظار کیا جا رہا ہے جب ایک ڈالر‘ خدا نخواستہ‘ پانچ سو روپے کا ہو جائے گا اور ایک افغانی کی قیمت دو امریکی ڈالر ہو گی؟ اب تو چیف جسٹس نے بھی کہہ دیا ہے کہ ہر روز چار کروڑ ڈالر غیر قانونی طور پر باہر جا رہے ہیں۔عدالت ِعالیہ نے حکم دیا ہے کہ حکومت فارن کرنسی کی بیرونِ ملک سمگلنگ روکنے کے اقدامات کرے ! تو اب اور کس کے حکم کا انتظار ہے؟ جسٹس شاہ دین ہمایوں نے شاید ہمیں ہی مخاطب کیا تھا ؎
اُٹھو وگرنہ حشر نہیں ہو گا پھر کبھی
دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا
اک تم کہ جم گئے ہو جمادات کی طرح
اک وہ کہ گویا تیر کماں سے نکل گیا