وہ یہیں پیدا ہوا۔ اس کا باپ بھی اسی دھرتی کا بیٹا تھا۔ ماں بھی اسی مٹی سے اٹھی تھی! سینکڑوں ہزاروں برس سے یہ لوگ اسی زمین کی اولاد تھے۔ ایسا بھی نہیں کہ وہ فاتر العقل تھے یا ان کے خاندان میں کوئی ذہنی یا جسمانی نقص نسل در نسل چلا آرہا تھا۔ یہ ذہنی اور جسمانی طور پر صحت مند‘ چست‘ فِٹ اور ذہین لوگ تھے۔ یہ اَن پڑھ بھی نہیں تھے۔ پشت در پشت پڑھے لکھے چلے آرہے تھے۔ خوش لباس تھے۔ خوش وضع تھے۔ سوشل تھے۔ ملنسار تھے۔ علاقے میں ان کی عزت ان کے باپ دادا کے زمانے سے چلی آرہی تھی۔ دیانت دار تھے۔ لین دین میں ‘ داد و ستد میں‘ کھرے اور قابل ِاعتبار تھے۔ اچھی شہرت کے مالک تھے۔ ملک کے بھی وفادار تھے۔ان کی جبیں پر بے وفائی کا کوئی داغ نہیں تھا!
سب کچھ ٹھیک تھا! مگر ایک مسئلہ تھا۔وہ یہ کہ ان میں سے ہر ایک کے گلے میں ایک بورڈ آویزاں تھا۔ وہ جہاں جاتے یہ بورڈ ساتھ ہوتا۔ گھر میں‘ بستر پر ‘ باتھ روم میں ‘ کلاس روم میں ‘ بازار میں‘ دفتر میں ‘ گلی محلے میں‘ سفر میں‘ قیام میں ‘ عدالت میں‘ کابینہ میں ‘ عساکر میں‘ سول سروسز میں‘ یہاں تک کہ اسمبلی میں بھی یہ بورڈ ان کے سینے پر لہرا رہا ہوتا۔ یہ اسے اتار نہیں سکتے تھے۔اس بورڈ پر ایک لفظ لکھا تھا۔ جلی حروف میں ! وہ لفظ تھا ''اقلیت‘‘۔ یا فرنگی زبان میں 'Minority‘۔آپ اس ملک کا انصاف دیکھیے ! جو لوگ گولیوں سے پولیس کو‘ فوجی جوانوں اور افسروں کو‘ نہتے عوام کو ‘ بچوں عورتوں اور بوڑھوں کو دن رات بھون رہے ہیں اور کئی دہائیوں سے بھون رہے ہیں ‘ ان کے گلے میں کوئی بورڈ نہیں لٹکایا جاتا۔ جو سمگلر ہیں‘ ٹیکس چور ہیں‘ ذخیرہ اندوز ہیں ‘ ان کے گلے میں بھی کوئی بورڈ نہیں! جو کروڑوں اربوں اس ملک کے کھا گئے‘ ڈکار تک نہیں مارا‘ لندن میں اور دبئی میں اور نیویارک میں جائدادیں بنا لیں‘ ان کے گلے میں کوئی بورڈ نہیں ! ڈاکوؤں‘ قاتلوں‘ چوروں‘ فریب کاروں اور غنڈوں کے گلے میں کوئی بورڈ نہیں ‘ مگر ایک شریف عورت یا مرد‘ جس نے کوئی جرم نہیں کیا‘ اس کے ماتھے پر ‘ اور اس کے سینے پر اور اس کی پیٹھ پر یہاں جلی حروف میں '' اقلیت ‘‘ لکھا ہوا ہوتا ہے! میں نے یہ خبر ملک کے مؤقر ترین اور سب سے پرانے انگریزی روزنامے میں پڑھی اور دم بخود رہ گیا! لکھا تھا کہ ڈاکٹر ثنا رام چند گلوانی‘ اسسٹنٹ کمشنر تعینات ہو ئی ہیں۔وہ ہندو برادری سے پہلی خاتون ہیں جو پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس میں مقابلے کا امتحان پاس کر کے آئی ہیں! گویا اتنا بتانا کافی نہیں تھا کہ ساتھ ہی دودھ میں مینگنیاں ڈال دیں کہ ان کا تعلق اقلیت سے ہے!
آج مذہب کی بنیاد پر اقلیت کہا جا رہا ہے! یہی رنگ ڈھنگ رہے تو کل مسلک کی بنیاد پر اقلیتیں تخلیق کی جائیں گی! پرسوں زبان کی بنیاد پر! پھر رنگ کی بنیاد پر! اور پھر شاید قد و قامت اور وزن کی بنیاد پر! انور مسعود کے بقول ؛
یہی اندازِ تجارت ہے تو کل کا تاجر
برف کے باٹ لیے دھوپ میں بیٹھا ہو گا
غور کیجیے کہ ایک طرف امریکی ہیں‘ برطانوی ہیں ‘ یورپ‘ جاپان اور آسٹریلیا کے باشندے اور حکومتیں ہیں کہ دوسرے ملکوں سے آنے والوں کو بھی ‘ پناہ لینے والوں کو بھی‘ اقلیت نہیں کہتے حالانکہ اُن کا مذہب‘ رنگ‘ خوراک سب کچھ الگ ہے ‘ ان کی زبان اجنبی ہے! اس کے باوجود وہ اب صرف امریکی کہلاتے ہیں ‘ صرف برطانوی کہلاتے ہیں اور صرف آسٹریلوی کہلاتے ہیں! دوسری طرف ہم ہیں کہ اپنے اُن ہم وطنوں کو اقلیت کہتے اور سمجھتے ہیں جو صدیوں سے یہاں رہ رہے ہیں‘ جن کی زبان وہی ہے جو ہماری زبان ہے‘ جن کا رنگ وہی ہے جو ہمارا رنگ ہے‘ جن کی خوراک وہی ہے جو ہم سب کھاتے ہیں! انہیں فوج میں افسر بناتے ہیں تو احسان چڑھاتے ہیں کہ بھئی! افسر تو ہو گئے ہو مگر ہو اقلیت سے ! اسسٹنٹ کمشنر کے منصب پر فائز کرتے ہیں تو ساتھ دنیا میں ڈھنڈورا پیٹتے ہیں کہ ہم نے اقلیت سے تعلق رکھنے والے کو فلاں پوسٹ پر بٹھایا ہے! سوال یہ ہے کہ کیا انکے پاس پاکستان کا پاسپورٹ نہیں؟ کیا ان کے پاسپورٹ پرNationalityکے سامنے پاکستان نہیں لکھا ہوا؟ ہمارا طرزِ عمل تو ایسا ہونا چاہیے تھا کہ اسے دیکھ کر دنیا بھارت کو طعنہ دیتی کہ ایک پاکستان ہے جو مذہب کی بنیاد پر اپنے باشندوں کے درمیان تفریق نہیں کرتا ‘ اور ایک تم ہو جو مذہب کی بنیاد پر اپنے لوگوں کو اقلیت کہتے ہو اور اقلیت سمجھتے ہو! تو پھر کیا فرق رہ گیا ہم میں اور بھارت میں؟ ہاں! ایک فرق ضرور ہے کہ وہاں ڈاکٹر ذاکر حسین یا عبد الکلام مسندِ صدارت پر فائز ہو سکتے ہیں ‘ ہمارے ہاں کوئی بھگوان داس‘ کوئی کارنیلیس‘ کوئی جمشید مارکر‘ اس کا سوچ بھی نہیں سکتا! جواب اس کا ہم یہ دیتے ہیں کہ بھارتی تو صرف نمائش کے لیے ایسا کرتے ہیں! المیہ یہ ہے کہ ہم تو نمائش کے لیے بھی ایسا نہیں کر تے!
اس لکھنے والے نے ملازمت کا آغاز کراچی سے کیا۔یہ سی ایس ایس کا آخری بَیچ تھا جس میں مشرقی پاکستان کے حضرات شامل تھے۔ کیا شہر تھا اُس وقت کا کراچی! صحیح معنی میں ایک عظیم الشان کاسمو پولیٹن شہر! ایمپریس مارکیٹ کے سامنے والا سارا علاقہ‘ بوہری بازار سے لے کر مسجد خضرا تک کے اپارٹمنٹ‘ ریگل سے آگے برنس روڈ سے پہلے دائیں بائیں کے فلیٹ‘ یہ سارے علاقے مسیحی اور پارسی برادریوں کے پاس تھے۔ یہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور مہذب لوگ تھے۔ پھر راولپنڈی تعیناتی ہوئی تو مختلف محکموں میں مسیحی برادری کافی تعداد میں ہمارے شانہ بشانہ کام کر رہی تھی۔ اینگلو انڈین برادری بھی تھی۔ ہم ان کے گھروں میں جاتے۔ ان کے ساتھ کھاتے پیتے۔ یہ سب بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ تھے۔ ان کی ذہنی سطح قابلِ رشک تھی۔ ان کے گھروں میں لائبریریاں تھیں! پھر وہ ہو گیا جو نہیں ہونا چاہیے تھا۔ بھٹو صاحب نے میرٹ کا قتل کیا۔ یہ قتل صرف انہیں نہیں‘ پورے ملک کو مہنگا پڑا۔ وہ تاریک دور آگیا جس کے بارے میں حبیب جالب نے بے خوف ہو کر کہا ؛
ظلمت کو ضیا‘ صَر صَر کو صبا ‘ بندے کو خدا کیا لکھنا
اس عہدِ تاریک میں غیر مسلموں کی کثیر تعداد ملک چھوڑ کر چلی گئی۔ ایمپریس مارکیٹ کے سامنے والی گلیاں ویران ہو گئیں۔ جیسا کہ بابا بلھے شاہ نے پیشگوئی کی تھی‘ کراڑ کی ہٹی سڑ گئی‘ فقیر کی کتیا مر گئی! پنج ست نہیں ہزاروں لاکھوں پڑوسنیں ہلاک ہو گئیں! کوچے سنسان ہو گئے جن میں میرزا یار دندنانے لگا اور آج تک دندناتا پھر رہا ہے! جو کچھ سیالکوٹ میں ہوا‘ وہ گزشتہ ہفتے وار برٹن میں دہرایا گیا۔ ہو سکتا ہے میں غلط ہوں ‘ مگر یہ ساری سفاکیاں اور مذہب کے نام پر قتل و غارت اسی زمانے میں شروع ہوئی جب ظلمت کو ضیا کہا جاتا تھا۔ اگر اس سے پہلے ایسے واقعات ہوئے بھی تو بہت کم بلکہ برائے نام پیش آ ئے!
یہ ملک سب کا ہے! اور کسی تفریق کے بغیر سب کا ہے۔ اگر ہم نے مہذب دنیا کا حصہ بن کر رہنا ہے تو اس اکثریت اور اقلیت والے مائنڈ سیٹ کو چھوڑنا ہو گا۔ ورنہ امریکہ‘ کینیڈا اور یورپ حق بجانب ہوں گے کہ باہر سے آکر آباد ہونے والوں کو وہ بھی مذہب کی بنیاد پر اقلیت قرار دیں! اورنگ زیب کا دور گزرے زمانے ہو گئے۔ جس نئے اورنگ زیب نے دس سال حکومت کر کے ہمیں زمانی لحاظ سے پیچھے دھکیل دیا‘ اسے گزرے بھی ساڑھے تین دہائیاں گزر چکیں! اب تو ہم اندھیرے سے نکل کر روشنی میں آجائیں!