مراعات یافتہ طبقے اور عوام کے درمیان ہمیشہ فاصلے رہے ہیں!
یہ فاصلے کئی حوالوں سے قائم و دائم ہیں! آپ کسی جگہ چائے پینا چاہتے ہیں۔مگر معلوم ہوتا ہے کہ نہیں پی سکتے! آپ بچے کو کسی تعلیمی ادارے میں داخل کرانا چاہتے ہیں مگر نہیں کرا سکتے۔ اور اگر کرانے میں کامیاب ہو بھی جائیں تو آپ کو فیس‘ مراعات یافتہ طبقے کی نسبت‘ زیادہ ادا کرنا پڑے گی! آپ ہوائی جہاز میں سفر کرنا چاہتے ہیں تو آپ کا ٹکٹ پورا ہو گا جبکہ مراعات یافتہ طبقے کے لیے اس پر ڈسکاؤنٹ ہو گا! آپ کی گاڑی پر عام نمبر پلیٹ ہو گی مگر آگے جانے والی گاڑی کی نمبر پلیٹ پر ''ایم این اے‘‘ لکھا ہو گا یا کوئی اور مخصوص نشان بنا ہو گا۔ وہ گاڑی ٹول پلازا سے زُوں کر کے گزر جائے گی۔ آپ کو رُک کر ٹول ٹیکس ادا کرنا پڑے گا۔آپ جہاز سے اُتر کر‘ پاسپورٹ ہاتھ میں لیے قطار میں کھڑے ہوں گے مگر ایک صاحب آئیں گے‘ ان کے ساتھ ایک چست سمارٹ جوان ہو گا۔ ان کے پاسپورٹ پر فوراًٹھپہ لگ جائے گا۔ جتنی دیر میں آپ قطار سے فارغ ہوں گے وہ صاحب گھر پہنچ چکے ہوں گے۔آپ کچن کی عام چھری لے کر گھر سے باہر نکلیں گے تو پچاس بار پوچھ گچھ ہو گی مگر کچھ لوگوں کی گاڑیوں کے آگے پیچھے بڑے بڑے ڈالوں پر بندوق بردار کھڑے ہوں گے۔ کسی کے باپ میں بھی جرأت نہیں کہ انہیں روکے یا ٹوکے! ایک بڑے شہر میں ماضی قریب میں ایک ایسا ہی منظر دیکھا گیا۔ ملک کے ایک معروف‘ سنجیدہ‘ صحافی نے اس پر وی لاگ بھی کیا۔ مراعات یافتہ طبقے کے ایک رکن نے‘ جو کابینہ کے ممبر بھی تھے‘ اپنے خدام اور مسلح محافظوں کو ایک ریستوران سے کھانا لانے کا حکم دیا۔ ان محافظوں اور خدام نے گاڑیاں اس طرح کھڑی کیں کہ ریستوران کے راستے بند ہو گئے اور کافی دیر تک بند رہے۔ عوام کو چکر کاٹ کر‘ دور سے آنا پڑا۔ وی لاگ والی وڈیو وائرل بھی ہوئی مگر‘ ایکشن تو دور کی بات ہے‘ کسی نے چُوں بھی نہیں کی۔ اس سے زیادہ و اضح اور ناقابلِ تردید مثال اس فرق کی اور کیا ہو سکتی ہے جو اونچے طبقے اور عوام کے درمیان روا رکھا جا رہا ہے۔
ایک واقعہ جو میرے ساتھ پیش آیا‘ ناقابلِ فراموش ہے۔ ملازمت کے ابتدائی سال تھے۔ کراچی سے پنڈی آرہا تھا۔ جہاز میں داخل ہو کر مقررہ سیٹ پر پہنچا تو اس پر سردار شوکت حیات خان بیٹھے ہوئے تھے اور ساتھ والے مسافر سے باتیں کر رہے تھے۔جہاز کے عملے کو بتایا کہ یہ میری سیٹ ہے۔ اسے خالی کرا دیجیے۔ عملے کے رکن نے منمناتے ہوئے‘ نحیف سی آواز میں کہا کہ وہاں سردار صاحب تشریف فرما ہیں‘ آپ کو ہم اور سیٹ دے دیتے ہیں۔ عین شباب تھا مگر پھر بھی اتنی سمجھ ضرور تھی کہ اصرار کیا تو سردار صاحب تو اٹھیں گے نہیں‘ ہاں میں نکّو ضرور بن جاؤں گا۔ شاید وہ جہاز چھوٹا تھا یا فرسٹ کلاس اس میں تھی نہیں‘ ورنہ سردار صاحب اکانومی کلاس میں نہ بیٹھے ہوتے۔آپ کا کیا خیال ہے‘ اگر کوئی عام مسافر کسی اور کی سیٹ پر بیٹھا ہوتا تو کیا اس کے ساتھ بھی جہاز کا عملہ اسی طرح پیش آتا؟ پولیس سروس سے تعلق رکھنے والے ایک دوست نے ایک عجیب و غریب واقعہ سنایا۔ کسی اعلیٰ شخصیت نے کسی دوسرے شہر کو جانا تھا۔ جہاز تیار کھڑا تھا۔ ٹکٹ لینے کا وقت نہیں تھا۔ پولیس کو حکم ہوا کہ بورڈنگ کارڈ حاضر کیا جائے۔ یہ نائن الیون سے بہت پہلے کا زمانہ تھا۔اتنی چھان پھٹک نہیں ہوتی تھی۔ اس سے قطع نظر کہ ٹکٹ کس کے نام پر ہے اور بورڈنگ کارڈ پر کس کا نام درج ہے‘ جس کے ہاتھ میں بھی ٹکٹ یا بورڈنگ کارڈ ہوتا‘ سفر کر لیتا۔ مسافر‘ ہاتھوں میں بورڈنگ کارڈ اٹھائے‘ ڈیپارچر لاؤنج میں تھے۔ کچھ بیٹھے ہوئے‘کچھ کھڑے۔ اچانک ایک آدمی‘ سفید کپڑوں میں ملبوس۔ نمودار ہوا۔ اس نے بجلی کی تیزی سے‘ ایک مسافر کے ہاتھ سے بورڈنگ کارڈ اُچکا‘ اور اتنی ہی برق رفتاری سے یہ جا وہ جا۔ جب مظلوم مسافر اپنے ''ڈاکو‘‘ کی تلاش میں ادھر اُدھر مارا مارا پھر رہا تھا‘ ایک بڑے صاحب‘ اس کا بورڈنگ کارڈ ہاتھ میں لیے‘ جہاز کے اندر داخل ہو چکے تھے۔ اور یہ تو آپ کے ساتھ بھی کئی بار ہوا ہو گا کہ جہاز میں بیٹھے ہیں۔ پیٹی کَس لی ہے۔ جہاز کو اُڑنا چاہیے مگر نہیں اُڑ رہا۔ آدھا گھنٹہ گزر گیا یا اس سے بھی زیادہ۔ تاخیر کی وجہ '' ٹیکنیکل نقص‘‘ بتایا جاتا ہے۔ آپ کو بعد میں ثقہ ذرائع سے معلوم ہوتا ہے کہ اصل میں فلاں حاکم‘ یا فلاں وزیر یا سپیکر‘ یااس کی بیگم کا انتظار ہو رہا تھا۔
مراعات یافتہ طبقے کے اس بڑے طائفہ میں کوئی ایک گروہ نہیں‘ بہت سے گروہ شامل ہیں۔ یوں سمجھیے‘ یہ طائفہ ایک سمندر ہے جس میں کئی دریا ملتے ہیں۔سیاست دان‘ ( حکمران اور اپوزیشن دونوں ) اعلیٰ بیورو کریسی( سول اور خاکی دونوں) منتخب اداروں کے ارکان‘ وزیر‘ سفیر‘ امیر‘ بڑے بڑے فیوڈل اور صنعت کار‘ سب مراعات یافتہ طبقے میں شامل ہیں۔ قانون سے ماورا ہیں۔ کوئی ضابطہ‘ کوئی اصول‘ کوئی رُول ان سے نظر نہیں ملا سکتا!
اس طاقتور طبقے اور عوام کے درمیان جو جو فرق ہیں‘ ان میں سے بہت سے ہم بتا چکے ہیں۔ اب ایک اور فرق بھی آن پڑا ہے۔اس طبقے نے گھروں میں شیر ہاتھی‘ چیتے‘ تیندوے اور سانپ پالنے شروع کر دیے ہیں۔ شاید اس لیے کہ عوام کے مقابلے میں مزید ممتاز نظر آئیں! عام آدمی مرغی بھی رکھ لے یا بلی بھی‘ تو بڑی بات ہے۔ آپ اندازہ لگائیے شیر یا ہاتھی کا یا تیندوے کا یا چیتے کا خوراک کا خرچ اور اس کی دیکھ بھال!! عام آدمی اس کا تصور تک نہیں کر سکتا! مگر مراعات یافتہ طبقے کے ارکان اپنی تفریح کے لیے‘ اور اس سے بھی زیادہ‘ اپنی طاقت دکھانے کے لیے ان خونخوار‘ وحشی اور خطرناک جانوروں کو اپنے گھروں میں رکھتے ہیں۔یہ جانور اس طبقے کے لیے طاقت کی علامت ہیں۔ علامت ایک بہت بڑا عامل ہے۔ بادشاہ کے سر پر تاج‘ یا اونچا تخت‘ یا پیچھے کھڑے‘ ننگی تلواریں لیے پہریدار‘ یہ سب ہیبت اور قوت کی علامتیں ہیں۔ ایک صدر یا وزیر اعظم کے پیچھے بیٹھے ہوئے‘ آرمی یا نیوی یا فضائیہ کی وردی پہنے‘ اے ڈی سی‘ اس امر کی علامت ہیں کہ صدر یا وزیر اعظم مسلح افواج کا باس ہے۔ پالتو شیر یا چیتا اس بات کی علامت ہے کہ اس کا مالک ایک طاقتور اور زورمند ہستی ہے۔ یہ ایک مخصوص مائنڈ سیٹ کا بھی پتا دیتا ہے۔
قانون اس باب میں کیا کہتا ہے؟ کیا خطرناک اور خونخوار جانور آبادی کے درمیان رکھا جا سکتا ہے؟ اگر یہ جانور کسی کو ہلاک یا زخمی کر دے تو کیا مالک ذمہ دار ہو گا؟ یہ سوال اہم نہیں! اس لیے کہ قانون عام آدمی کے لیے ہے۔ خواص کے سامنے قانون کی حیثیت وہی ہے جو شیر کے سامنے ہرن یا بکری کی ہے! قانون ایک قالین ہے! خوبصورت قالین! جس کے اوپر مراعات یافتہ طبقے کے ارکان جوتے پہن کر چلتے ہیں!پالتو چیتا یا شیر یا ہاتھی کسی ذی نفس کو زخمی کر دے یا ہلاک! تو یہ تو تقدیر میں لکھا تھا! پالنے والے کا کیا قصور!! یوں بھی ہمارا قومی رویّہ ''مٹی پاؤ‘‘ والا ہے۔
اس ملک میں مراعات یافتہ طبقے اور عوام میں بہت بڑی خلیج حائل ہے۔ اس خلیج کے ختم یا کم ہونے کا مستقبل قریب میں کیا‘ مستقبل بعید میں بھی کوئی امکان نہیں! اس حقیقت کو میں اور آپ جتنا جلدی سمجھ لیں اور سمجھ کر جتنا جلدی ہضم کر لیں‘ ہمارے لیے بہتر ہے!