سمندر‘ جزیرے اور جدائیاں

''آپ تایا کے گھر نہ جائیں۔ وہ سب بھی یہیں آجایا کریں‘‘۔تیمور نے میرے گلے میں بانہیں ڈال کر کہا۔ اس کا چھوٹا بھائی سالار میری گود میں لیٹ گیا۔'' آپ نے مجھے کہانی بھی تو سنانا ہوتی ہے‘‘۔
بہت دن ان لوگوں کے گھر رہنے کے بعد اب ہمیں اتنے ہی دنوں کے لیے حمزہ اور زہرہ کے ہاں جانا تھا۔ وہاں پہنچے تو حمزہ کہنے لگا '' آپ چاچا جی کے گھر زیادہ دن رہتے ہیں اور ہمارے ہاں کم!‘‘ اسے یقین دلایا کہ ایسی بات نہیں۔اتنے ہی دن اُدھر رہتے ہیں جتنے دن اِدھر! ہفتہ اور اتوار کے دن‘ بہر حال‘ دونوں گھرانے اکٹھے ہی ہو جاتے ہیں۔ دادا دادی جس گھر میں بھی ہوں‘ چھٹی کے دن سب وہیں ہوتے ہیں۔ دونوں گھروں کے درمیان پینتالیس منٹ کا فاصلہ ہے۔ہفتہ اور اتوار خوب ہنگامہ رہتا ہے۔ کھانا سمندر کے کنارے کھایا جاتا ہے۔ چچا زاد اور تایازاد بچے اپنی دنیا بسا لیتے ہیں۔ اتوار کی شام ڈھلتی ہے تو دونوں میں سے ایک فیملی اپنے گھر روانہ ہوتی ہے کہ پیر کی صبح کارو بارِ دنیا پھر سے آغاز ہونا ہوتا ہے۔ ایک شام‘ جب حمزہ اور اس کے ابا امی اور بہن بھائی چلے گئے تو سالار سسکیاں لیتا ہوا مجھ سے لپٹ گیا۔ پوچھا کہ کیا بات ہے تو کہنے لگا '' حمزہ بھائی یاد آرہے ہیں۔ آخر وہ سب ہمارے گھر کیوں نہیں رہتے؟‘‘ واپسی کے دن قریب آرہے ہیں۔
جدائیوں کے زمانے پھر آگئے شاید
کہ دل ابھی سے کسی کو صدائیں دیتا ہے
تیمور کی سوئی ایک ہی جگہ اٹکی ہوئی ہے کہ آپ ایک مہینہ اور رُک جائیں۔اپنی طرف سے اُس نے بہت بڑی پیشکش بھی کر دی کہ بہت سے چپس لے کر دے گا۔ جب بھی واپسی کا ذکر ہو‘ رونا شروع کر دیتا ہے۔ یوں لگتا ہے‘ آنسو ہر وقت تیار رکھتا ہے! کمال کی مصوری کرتا ہے اور اتنے ہی شاندار‘ اپنی بنائی ہوئی تصویروں کے نام رکھتا ہے۔ جیسےOld Guitarist ''بوڑھا موسیقار‘‘Lonely islander''جزیرے کا اکیلا باشندہ‘‘۔ کچھ تصویریں اس سے لے لی ہیں کہ جا کر فریم کرا لی جائیں! پانچ سالہ سالار‘ذرا جارحانہ مزاج رکھتا ہے۔ کچھ کر رہا ہو اور بلایا جائے تو کہہ دیتا ہے '' بِزی ہوں‘ ابھی نہیں آ سکتا!‘‘ مگر رات کو میرے بغیر سوتا نہیں۔ سونے سے پہلے کہانی اس کے لیے نشہ بن گئی ہے۔ پاس نہ ہو تو آن لائن کہانی سنتا ہے۔ پاکستان میں ہوتا ہوں تو ٹھیک دن کے تین بجے فون کی سکرین پر دونوں بھائی نمودار ہوتے ہیں۔اُس وقت اُن کے ہاں رات کے نو بج رہے ہوتے ہیں! ''ہم بستر پر ہیں۔ اب آپ سے کہانی سنیں گے۔ پھر سوئیں گے‘‘۔
جوں جوں وقت گزر رہا ہے‘ دنیا طلسم خانہ بنتی جا رہی ہے۔ ہماری دادی اور نانی گاؤں میں ہوتی تھیں۔ ہم پنڈی گھیب میں! وڈیو کال کیا‘ فون بھی نہیں تھا! انتظار کرتے تھے کہ کب سکول سے چھٹیاں ملیں گی اور کب گاؤں جائیں گے! گاؤں میں میمنے ہوتے تھے اور بھیڑوں کے سفید بچے! بیر تھے اور خربوزے‘ موٹھ کی پھلیاں تھیں اور باجرے کے سِٹے! سیروں کے حساب سے دودھ‘دہی اور مکھن تھا ! کھیت تھے اور گندم‘ جوار‘ مکئی اور سرسوں کی فصلیں! شام کو واپس آتے ریوڑ تھے اور جانوروں کے گلوں میں بجتی گھنٹیاں ! ہر ریوڑ کے پیچھے ایک کتا ہوتا تھا! چرواہے کے ساتھ چلتا ! کیکر کے پیلے رنگ کے اور دھریک کے کاسنی رنگ کے پھول تھے۔ صحنوں میں انجیر‘ لسوڑے اور انار کے درخت تھے اور ریحان ( نیاز بو) کی خوشبو! اب دنیا ہی اور ہے۔ بچے ننھیال اور دھدیال جاتے ہیں یا آتے ہیں‘ تو بس ایک شہر سے نکل کر دوسرے شہر میں آجاتے ہیں! وہی فاسٹ فوڈ! وہی چپس! وہی چاکلیٹیں! وہی فن سٹی! وہی گاڑیاں‘ وہی جہاز! وہی ٹی وی وہی کارٹون! اب وہ دادا یا نانا کو ہٹی پر نہیں لے کر جاتے جہاں سے بٹنگیاں‘ سنگتریاں‘ مکھانے‘ نُگد ی‘ ریوڑیاں اور بتاشے لے کر دیے جاتے تھے۔اب گھر وں میں گٹھوں کے حساب سے گنّے بھی نہیں آتے ! ہاں یاد آیا اب گنڈیریاں بھی معدوم ہوتی جا رہی ہیں۔ ہم نے تو آٹھ آنے سیر لے کر کھائیں اور خوب کھائیں! اب بچے دادا اور نانا کو میکڈانلڈ‘ پِزا ہَٹ اور کے ایف سی لے کر جاتے ہیں! اب چھ چھ سال کے بچوں کو گاڑیوں کے نام اور برانڈ معلوم ہیں! اور بڑوں کو کمپیوٹر اور موبائل فون کے استعمال سکھاتے ہیں! اقبال نے کہا تھا جوانوں کو پیروں کا استاد کر۔ جوان نہیں‘ اب تو بچے بوڑھوں کے استاد ہیں! والدِ گرامی حیات تھے تو ایران سے بہت سے رسالے اور جریدے گھر میں آتے تھے۔ انہی میں سے ایک رسالے میں کارٹون دیکھا جو بھولتا نہیں۔ اس کارٹون کے تین حصے تھے۔ پہلے حصے میں ایک بوڑھا‘ ایک بچے کے ساتھ شطرنج کھیل رہا ہے۔ دوسرے حصے میں بچہ جیت جاتا ہے اور بوڑھا ہار جاتا ہے۔ تیسرے حصے میں بوڑھا بچے کی پٹائی کر رہا ہوتا ہے ! مجھے فون پر آواز کا میسج ریکارڈ کرنے کی آسان ترکیب بارہ سالہ حمزہ نے سکھائی اور کمپیوٹر پر میرا بہت سا کام میری نواسی زینب کر کے دیتی ہے!
وصال اور فراق کے تلازمے بدل گئے ہیں! جدید سہولتوں اور ایجادات نے جدائی کی شدت کم کرنے کی کوشش کی ہے! بچے کراچی میں ہیں یا لاہور میں‘ یا لندن میں یا نیویارک میں‘ ہر روز ان سے بات چیت ہو سکتی ہے‘ بلکہ دن رات میں کئی بار! سامنے متحرک تصویر بھی ہوتی ہے! میرے استاد‘ جناب ڈاکٹر ظہیر فتحپوری نے کہا تھا ؎
تنہا نہ کہو‘ ہیں ساتھ بچھڑنے والے
جیسے حائل دیوار نہ ہو‘ پردہ ہو!
پہلے جب فون تھا نہ انٹرنیٹ‘ درمیان میں پتھروں سے بنی دیوار حائل تھی! تب جدا ہونے والا اپنی تصویر دے جاتا تھا۔
ہٹی توں لَے سردا
فوٹو تے میں دے جاساں‘
فوٹو گلّاں تے نہیں کردا
احمد فراز نے اسی مضمون کو اردو میں ادا کیا :
جس طرح بادل کا سایا پیاس بھڑکاتا رہے
میں نے یہ عالم بھی دیکھا ہے تری تصویر کا
اب دیوار کی جگہ پردہ حائل ہے! دیکھ سکتے ہیں‘ بات کر سکتے ہیں‘ مگر چھو نہیں سکتے! باپ بیٹے کو اور دادا پوتے کو سینے سے نہیں لگا سکتا !
دل تو بیٹے کی جدائی میں بھی صحرا ہے‘ مگر
ہجر پوتے کا نہ پوچھو‘ ہے بگولا کیسا
یہ بڑے بڑے ہوائی جہاز دراصل عظیم الجثہ وہیل مچھلیاں ہیں جو ہمارے پیاروں کو ہڑپ کر کے‘ فضاؤں میں تیرتی‘ دور چلی جاتی ہیں اور سمندر کے دوسرے کنارے جا کر انہیں باہر اگل دیتی ہیں۔ عمریں یوں بیتتی ہیں کہ درمیان میں سمندر ہوتے ہیں۔دور‘ بہت دور‘ خشکی کے کسی ٹکڑے میں ماں باپ انتظار کر رہے ہوتے ہیں۔ بخت یاوری کرے تو تدفین کے وقت پہنچ جاتے ہیں ورنہ مرنے والے بھی حسرت میں مرتے ہیں اور جینے والے بھی حسرت میں جیتے ہیں۔ زندگی جدائی اور ملاپ کا کھیل ہے! پانیوں کے ساتھ جزیرے لگے ہیں اور جزیرے سمندروں سے گلے ملتے دکھائی دیتے ہیں! وقت نے بڑے بڑے پلٹے کھائے۔پہلے سفر کاروانوں کی شکل میں ہوتے تھے۔ صحرائے گوبی سے لے کر نیل کے کناروں تک قافلے چلتے تھے! پھر بحری جہازوں کا دور آیا۔چین سے خلقِ خدا جاوا‘ ملایا اور سماٹرا کے جزیروں میں جا پہنچی اور یورپ سے‘ بحر اوقیانوس عبور کرتی‘ شمالی اور جنوبی امریکہ میں جا اتری۔ اب ہوائی جہازوں کا زمانہ ہے۔ مگر ایک سلسلہ‘ جو سب زمانوں میں زندہ رہا اور جس کا زور کبھی نہ ٹوٹا‘ فراق اور وصال کا سلسلہ ہے! رخصتی کا درد‘ انتظار کی کسک اور ملاقات کی خوشی تب بھی رلاتی اور ہنساتی تھی ! آج بھی رلاتی اور ہنساتی ہے!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں