یہ حسرت آج کی نہیں‘ اُس دن سے ہے جس دن امیر حمزہ اور عادی پہلوان والی کہانی میں سلیمانی ٹوپی کے بارے میں پڑھا تھا!
ذرا تصور کیجیے! آپ نے سلیمانی ٹوپی پہنی ہوئی ہے! کسی کو نظر نہیں آ رہے! جس گھر میں چاہیں گھس سکتے ہیں! جس کی خفیہ بات چیت سننا چاہیں‘ پاس جا کر سُن سکتے ہیں! بڑے سے بڑے افسر‘ وزیر‘ سفیر‘ حکمران کے دفتر میں جا کر خفیہ راز معلوم کر سکتے ہیں! اپنے سسرال جا کر وہ باتیں سُن سکتے ہیں جو آپ کے بارے میں وہ لوگ آپ کے سامنے نہیں کر تے! دوستوں کی محفل سے اٹھ کر جائیں تو سلیمانی ٹوپی پہن کر فوراً واپس آجائیں اور سنیں کہ آپ کے جاتے ہی‘ آپ کے دوست‘ آپ کے بارے میں کیا کیا لغو باتیں کرنے لگے ہیں !
بچپن سے لڑکپن آیا۔ پھر جوانی! اب پیری ہے۔ اس سارے عرصے میں سلیمانی ٹوپی پانے کی خواہش مدہم نہ ہوئی! طالب علمی کے زمانے میں ایچ جی ویلز کی کہانیinvisible man یعنی ''نظر نہ آنے والا آدمی‘‘ پڑھی تو سلیمانی ٹوپی کی حسرت نے مزید زور پکڑا۔ اس کہانی میں ایک سائنسدان قسم کا شخص اپنے اوپر تجربے کرتا ہے اور لوگوں کو دکھائی نہیں دیتا۔ مگر یہ زندگی اسے راس نہیں آتی اور بہت تکلیفیں اٹھاتا ہے۔ لوگ بھی اس سے تنگ آجاتے ہیں اور آخر کار اسے مار دیتے ہیں! اس مغربی کہانی کے مقابلے میں‘ سلیمانی ٹوپی والی‘ ہماری مشرقی کہانی زیادہ خوشگوار ہے۔ اس میں جان کا خطرہ نہیں! مزے ہی مزے ہیں! لیکن یہ خواہش کبھی پوری نہ ہوئی! ہم سے تو وہ چیتا ہی زیادہ خوش نصیب ہے جسے سلیمانی ٹوپی مل گئی اور اس نے اس راز میں وائلڈ لائف کے محکمے کو شریک کیا!
وائلڈ لائف والوں کاکہنا ہے کہ چیتا کسی گھر سے نہیں نکلا بلکہ کہوٹہ سے آگے جو جنگل ہے‘ وہاں سے نکلا اور عسکری ہاؤسنگ اتھارٹی میں آن دھمکا! ہم سب جانتے ہیں کہ کہوٹہ سے اس ہاؤسنگ سوسائٹی کا فاصلہ کم ازکم بھی پچیس تیس کلو میٹر ہے۔ یہ پچیس تیس کلو میٹر ویرانے پر مشتمل نہیں ‘ بلکہ آبادیوں سے اَٹے پڑے ہیں۔رات دن ٹریفک رواں دواں ہے۔ ادھر ادھر ہر طرف گاؤں بکھرے پڑے ہیں۔وائلڈ لائف والوں کی یہ بات ماننے کی صرف ایک ہی صورت ہے کہ چیتے نے جنگل سے نکلتے وقت سلیمانی ٹوپی اوڑھ لی۔ پھر بہت آرام سے‘ خراماں خراماں‘ معشوقانہ انداز میں چلتا‘ آبادیوں سے گزرتا‘ شاہراہیں کراس کرتا‘ کاک پُل تک پہنچا۔ کاک پُل ‘ وہ مشہور پُل ہے جہاں سے راستہ کہوٹہ کی طرف نکلتا ہے۔یہاں چیتے کے سامنے کئی آپشنز تھے۔ ارد گرد کئی بستیاں تھیں۔ ہمک کا گاؤں ہے۔ ساتھRiver Gardenہے۔ اس کے ساتھ سواں گارڈن کی آبادی ہے۔ ساتھ پی ڈبلیو ڈی ‘ پولیس فاؤنڈیشن ‘ میڈیا ٹاؤن‘ پاکستان ٹاؤن اور کورنگ ٹاؤن کی بستیاں ہیں۔ یہ سب کسی قسم کی چار دیواری کے بغیر ہیں۔ اس سارے علاقے میں صرف ایک ہی ایسی آبادی ہے جو چار دیواری کے اندر ہے اور اس کے متعدد گیٹ ہیں! چیتا ذرا مہم جو طبیعت کا مالک تھا۔ اس نے سوچا کہ کھلی آبادیوں میں گیا تو کیا کمال کیا۔ مزہ تو تب ہے جب چار دیواری پھلانگ کر جاؤں ؛چنانچہ وہ دیوار پھلانگ کر اندر آگیا!
یہ چیتا مجھے اُن خوابوں کی تعبیر دے سکتا ہے جو میں بچپن سے دیکھتا آیا ہوں! چیتا مجھے اس راز میں شریک کر سکتا ہے کہ اُس نے سلیمانی ٹوپی کہاں سے حاصل کی؟ کتنے میں حاصل کی؟ کیا وہاں اور بھی سلیمانی ٹوپیاں موجود ہیں یا صرف آرڈر پر بنتی ہیں؟ کیا چیتے نے اپنے سر کا ماپ دے کر‘ خصوصی آرڈر پر بنوائی یا کسی سے سیکنڈ ہینڈ خریدی؟ کیا بیچنے والے نے اس کی لائف ٹائم گارنٹی دی؟ کیا یہ ٹوپی مختلف رنگوں میں دستیاب ہے یعنی کیا اپنی پسند کے رنگ کی ٹوپی لی جا سکتی ہے؟ ان سارے سوالوں کے جواب لینے کے لیے میں چیتے سے بنفس نفیس ‘ ذاتی طور پر ‘ ملنا چاہتا تھا۔ مگر کل کے اخبار میں جو خبر پڑھی اس نے اس امید پر پانی پھیر دیا! وائلڈ لائف والوں نے بتایا ہے کہ چیتے کو خفیہ طور پر جنگل میں پہنچا دیا گیا ہے۔ خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ اس میں اتنی رازداری کی کیا ضرورت تھی؟ اس کی ایک ہی وجہ ہو سکتی ہے۔ چیتے نے وائلڈ لائف والوں سے کہا ہو گا کہ بھلے لوگو! میں اس کمینی اور خود غرض دنیا کی بے برکت آنکھوں سے بچ کر رہنا چاہتا ہوں۔ جبھی تو کہوٹہ سے نکلا تو سلیمانی ٹوپی پہن لی۔ اب تم مجھے کیوں رُسوا کرنا چاہتے ہو! مجھے پردے میں رکھ کر جنگل میں چھوڑو! چنانچہ وائلڈ والوں نے یہ سارا کام خفیہ طور پر کیا۔کس جنگل میں چھوڑا؟ کب چھوڑا؟ کوئی تصویر؟ کوئی گواہ ؟ یہ سب باتیں غیر ضروری ہیں !
ادھر تو وائلڈ لائف والے خفیہ طریقے سے چیتے کو کسی نامعلوم جنگل میں چھوڑ رہے تھے ‘ اُدھر سہیل احمد صاحب نے ایک ٹویٹ کر کے چیتے کی ترجمانی کا حق ادا کر دیا۔ یہ وہی مشہور سہیل صاحب ہیں جو عزیزی کے روپ میں ‘ دنیا ٹی وی‘ پر نمودار ہوتے ہیں اور لاکھوں ناظرین کو اپنی صداکاری اور ادا کاری سے محظوظ کرتے ہیں۔ ان کا ٹویٹ یہ ہے '' چیتے کا بیانِ حلفی:میں مسمی چیتا‘ ولد بڑا چیتا‘ سکنہ کہوٹہ جنگلات‘ اپنے پورے ہوش و حواس ‘ اور بغیر کسی دباؤ کے ‘ یہ بیان دیتا ہوں کہ فدوی ایک سویلین چیتا ہے اور فدوی کا کسی ریٹائرڈ یا حاضر سروس فوجی افسر سے کوئی تعلق نہ ہے! ‘‘۔ اس ٹویٹ سے ایک بات واضح ہو رہی ہے کہ یہ چیتا بہت بااثر ہے! اس کے بڑے لوگوں سے تعلقات ہیں۔ یہ مالدار بھی ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے اس گرانی کے دور میں سلیمانی ٹوپی خریدنا آسان ہے؟ یہ تو لاکھوں روپوں میں ملتی ہو گی۔ اسے اس چیتے جیسے متمول لوگ ہی افورڈ کر سکتے ہیں! پھر عزیزی یعنی سہیل احمد صاحب ایک سیلیبریٹی ہیں۔ ان کے پاس اتنا وقت یقینا نہیں ہو گا کہ ہر کسی سے ملیں یا اس کی بات سنیں! مگر چیتے کی اُن تک رسائی تھی! جبھی چیتے نے اپنی ترجمانی کے لیے ان کی خدمت میں التماس کی!اور انہوں نے کمال شفقت سے یہ ٹویٹ کر کے چیتے کو اُن الزامات اور شکوک ‘ سے بری کر دیا جو مختلف لوگ اپنی کم علمی اور کم فہمی کی وجہ سے پھیلا رہے تھے!
سہیل احمد صاحب کا یہ ٹویٹ میرے لیے امید کی ایک کرن ہے۔ انہوں نے چیتے کا موقف بیان کر کے چیتے پر احسان کیا ہے۔ میں نے سنا ہے کہ چیتا ایک رکھ رکھاؤ والا وضعدار جانور ہے۔ ہم انسانوں کے برعکس اپنے محسنوں کو بھول نہیں جاتا اور احسان یاد رکھتا ہے۔ سہیل احمد صاحب سے میرا تعلق یہ ہے کہ میں ان کا فین ہوں۔دوسرے یہ کہ سہیل احمد صاحب دنیا میڈیا گروپ کے ایک مقبول پروگرام کے سپر سٹار ہیں۔ میں بھی اسی ادارے کا ایک ادنیٰ اور عاجز کالم نگار ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ سہیل احمد صاحب اس تعلق کو اہمیت دیں گے اور اپنے ممدوح چیتے سے میری سفارش کر دیں گے۔ ان کی اس کرم فرمائی سے میری زندگی بھر کی حسرت ‘ مسرت میں تبدیل ہو جائے گی۔ چیتا اپنے ساتھ مجھے اُس کمپنی تک لے جائے جو سلیمانی ٹوپیوں کی سول ڈسٹری بیوٹر یعنی واحد تقسیم کنندہ ہے اور مجھے بھی ایک سلیمانی ٹوپی لے دے۔ میں بھی چیتے کی طرح میلوں دوڑتا بھاگتا پھروں اور کسی کو دکھائی نہ دوں! وائلڈ لائف والوں کے معصومانہ موقف سے ایک شعر یاد آگیاہے۔
سکھر کا پُل‘ جہلم کا دریا‘ دونوں ہو گئے چوری
مال گودام سے لے گئی چیونٹی گندم کی اِک بوری