پانچ مہینے میلبورن میں یوں گزرے جیسے ایک لمحہ۔ بقول شاعر:
یوں گزرا وہ ایک مہینہ
جیسے ایک ہی پل گزرا تھا
یہاں تو ایک نہیں پانچ مہینوں کا کچھ پتا نہ چلا۔ اقبال نے کہا تھا:
مہینے وصل کے گھڑیوں کی صورت اڑتے جاتے ہیں
مگر گھڑیاں جدائی کی گزرتی ہیں مہینوں میں
بارہا اس شہر کا سفر کیا ہے۔ بارہا اس کے کوچہ و بازار میں گھوما ہوں مگر بقول احمد ندیم قاسمی:
جب بھی دیکھا ہے تجھے عالمِ نو دیکھا ہے
مرحلہ طے نہ ہوا تیری شناسائی کا
سب سے پہلا تاثر جو اس شہر کا ایک سیاح پر پڑتا ہے‘ وہ اس کی بہترین ٹاؤن پلاننگ اور خیابان بندی (Landscaping) ہے۔ گھروں کے آگے وسیع و عریض قطعے ہیں جو گھاس اور پودوں سے مزیّن ہیں۔ اسی طرح شاہراہوں کے دونوں طرف سبزہ زار ہیں۔ ساٹھ لاکھ کی آبادی کے اس شہر میں کہیں بھی احساس نہیں ہوتا کہ آبادی گنجان ہے۔ ایک مربع کلو میٹر میں پندرہ سو افراد رہتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں کراچی میں‘ ایک مربع کلو میٹر میں چوبیس ہزار اور نیویارک میں ستائیس ہزار افراد رہتے ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ میلبورن کی منصوبہ بندی میں کشادگی کو کتنی اہمیت دی گئی ہے۔ اس شہر میں سینکڑوں پارک ہیں۔ گھروں کے اندر یا باہر بنائے گئے باغات اس کے علاوہ ہیں۔ ہر پارک میں بار بی کیو کے لیے سرکار نے گیس اور چولہوں کا بندوبست کر رکھا ہے۔ یہ بندوبست ہر بیچ پر بھی موجود ہے۔ اکثر لوگوں نے گھروں میں بھی بار بی کیو کا جدید ترین سامان رکھا ہوا ہے‘ مگر ڈسپلن کا یہ عالم ہے کہ جس دن گرمی زیادہ ہو‘ بار بی کیو منع کر دیا جاتا ہے اور لوگ اس حکم کی پابندی کرتے ہیں!
میلبورن کے بچوں اور لڑکوں کے لیے کرکٹ لازمی سرگرمی ہے۔ انتظامیہ نے کرکٹ کے لیے ایک مضبوط ڈھانچہ بنایا ہوا ہے جو پرائمری کی سطح ہی سے شروع ہو جاتا ہے۔ ہر محلے کی اپنی ٹیم ہے۔ اس کے مقابلے دوسری ٹیموں سے باقاعدگی کے ساتھ میچ ہوتے ہیں۔ ساتویں جماعت کے ایک بچے کا روٹین میں نے نوٹ کیا۔ یہ بچہ ہفتے میں تین دن‘ شام کے وقت‘ محلے کی کرکٹ ٹیم میں کھیلتا ہے۔ ہفتے کے دن چھٹی ہوتی ہے مگر کرکٹ کے لیے اسے ہفتے کے دن بھی سکول جانا ہوتا ہے۔ باسکٹ بال اور فٹ بال کے تربیتی پروگرام اس کے علاوہ ہیں! تیراکی میں ہر بچہ ماہر ہے۔
میلبورن میں تقریباً چالیس ہزار پاکستانی رہتے ہیں۔ یہ لوگ‘ سوشل لائف کے حوالے سے‘ ہر ممکن طریقے سے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ ہر پاکستانی فیملی‘ کم از کم چار پانچ اور زیادہ سے زیادہ پچیس تیس یا اس سے بھی زیادہ پاکستانی خاندانوں کے ساتھ سوشل تعلقات رکھتی ہے۔ دعوتیں ہوتی ہیں۔ پارکوں اور باغات میں پکنک کے پروگرام بنتے ہیں۔ کرکٹ کے دوستانہ میچ ہوتے ہیں یا کسی بھی اور حوالے سے مل بیٹھتے ہیں۔ ہر گروپ کا موضوعِ گفتگو الگ ہوتا ہے اور ان حالات کے حوالے سے ہوتا ہے جو گروپ کو درپیش ہیں! مثلاً جو تازہ تازہ ہجرت کر کے پہنچتے ہیں‘ وہ آپس میں ملتے ہیں تو کرائے کے مکانوں کے بارے میں باتیں کرتے ہیں یا ملازمت ملنے یا نہ ملنے کے بارے میں۔ جب پاؤں جما لیتے ہیں تو پھر موضوعِ گفتگو مکان کی خرید ہوتی ہے۔ کس آبادی میں لینا چاہیے‘ قرض کن شرائط پر ملتا ہے‘ وغیرہ وغیرہ۔ میلبورن کی کچھ آبادیاں جنوبی ایشیا (یعنی پاکستان‘ بھارت‘ بنگلہ دیش‘ سری لنکا) کے تارکین وطن کے لیے زیادہ پُرکشش ہیں۔ بہت سے نئے آنے والے ان آبادیوں میں مکان خریدنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ جو گروپ زیادہ آسودہ حال ہیں‘ ان کی گفتگو مہنگی گاڑیوں یا بہت ٹاپ کلاس گھروں اور محلات کے بارے میں ہوتی ہے۔ تاہم ہر خاندان کی اتنی آمدنی ضرور ہوتی ہے کہ وہ انڈونیشیا کے خوبصورت جزیرے بالی کی سیر کر لے‘ جو آسٹریلیا کے پڑوس میں ہے۔ نیوزی لینڈ اور جزائرِ فجی کی سیر بھی ان لوگوں کے لیے مشکل نہیں! اس حوالے سے اہم ترین بات یہ ہے کہ آسٹریلیا میں کم از کم معیارِ زندگی طے شدہ ہے۔ اس سے نیچے‘ ریاست کسی کو جانے نہیں دیتی۔ رہنے کے لیے گھر بھی دیتی ہے اور ساتھ گزارا الاؤنس بھی! معمولی سے معمولی ملازمت بھی لڑکھڑانے نہیں دیتی اور بندے کو قائم رکھتی ہے۔ ایک بھارتی نوجوان نے بتایا کہ کئی برسوں سے اس کے پاس مستقل ملازمت نہیں تھی۔ کبھی کہیں نوکری کر لی‘ کبھی کہیں فی گھنٹہ کچھ کما لیا۔ اس کے باوجود ہر سال بھارت کا چکر لگا لیتا تھا!
گفتگو کا ایک موضوع ایسا ہے جو تمام پاکستانیوں کا یکساں طور پر پسندیدہ ہے۔ نئے تارکینِ وطن ہوں یا پرانے‘ کم آمدنی والے ہوں یا آسودہ حال‘ کراچی کے ہوں یا شمال کے یا کسی اور حصے کے‘ اس بات پر ضرور بحث کرتے ہیں کہ اچھا پاکستانی کھانا کہاں ملتا ہے۔ یہ بھی شاید ''ہوم سِک نیس‘‘ کا ایک شاخسانہ ہے۔ وطن سے دوری کا اثر! اچھی نہاری‘ اچھی بریانی اور اچھی حلوہ پوری کی خواہش سب کے دل میں چٹکیاں لیتی ہے! ایک المیہ یہ ہے کہ دنیا بھر میں جس طرح انڈین ریستوران‘ افغان ریستوران‘ ملائیشین یا ایرانی ریستوران اپنی الگ شناخت رکھتے ہیں‘ پاکستانی ریستوران نہیں رکھتے۔ اس کی دو وجوہ ہیں۔ ایک شاید یہ کہ تقسیم ِہند سے پہلے بھی ان کھانوں کو انڈین کھانے ہی کہتے تھے۔ تقسیم کے بعد یہ ممکن نہ تھا کہ اچانک ان کا نام پاکستانی Cuisineپڑ جاتا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ جوہری طور پر انڈین کھانوں اور پاکستانی کھانوں میں کوئی فرق نہیں۔ پرانی دہلی میں جو بریانی‘ نہاری‘ گولا کباب‘ مٹن قورمہ اور دوسرے کھانے پک رہے ہوتے ہیں‘ وہی پرانے لاہور اور برنس روڈ کراچی میں بھی بن رہے ہوتے ہیں۔ رہا انڈین اور پاکستانی کھانوں میں ذائقے کا فرق تو ذائقے کا فرق تو کراچی اور لاہور کے کھانوں میں بھی موجود ہے۔ یہ جسے ہم سندھی بریانی کہتے ہیں‘ (پتا نہیں کب وجود میں آئی) اس کا بھی اپنا ہی ذائقہ ہے۔ پاکستانی جب آسٹریلیا یا امریکہ میں ریستوران کھولتا ہے تو اسے ریستوران کے اوپر لٹکے ہوئے بورڈ پر ''انڈین اور پاکستانی کھانے‘‘ لکھنا پڑتا ہے۔ بہت سے پاکستانی صرف انڈین ریستوران کے نام سے کارو بار کر رہے ہیں! سفید فام لوگوں کو انڈین کھانوں اور انڈین ریستورانوں کا علم ہے۔ بنگلہ دیشی یا پاکستانی کھانوں کی الگ پہچان باہر کی دنیا میں نہیں ہے اور یہ کوئی اتنا بڑا ایشو بھی نہیں ہے۔
ان سارے زمینی حقائق کے باوجود پاکستانی ریستوران میدان میں ہیں اور بزنس کر رہے ہیں۔ پاکستانیوں کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ انہی ریستورانوں میں جائیں اور مہمانوں کو بھی وہیں لے کر جائیں۔ میلبورن میں ''لائی گان سٹریٹ‘‘ دنیا بھر کے کھانوں کا مرکز ہے۔ شروع میں یہاں صرف اطالوی کیفے تھے مگر اب یہ جاپانی‘ تھائی‘ یونانی‘ پاکستانی اور بہت سے دوسرے ملکوں کے دسترخوانوں کے لیے معروف ہے۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ دنیا کے جن شہروں کو رہنے کے لیے بہترین شہر قرار دیا جاتا ہے‘ انہیں متعدد کسوٹیوں پر جانچا جاتا ہے۔ ان کسوٹیوں میں سے ایک کسوٹی یہ بھی ہے کہ ایسے شہر میں بین الاقوامی کھانوں کا وسیع چوائس ہو۔ ان بہترین شہروں کی فہرست میں میلبورن کا نام اکثر و بیشتر نمایاں مقام پر ہوتا ہے۔ کل کی نشست میں ہم میلبورن کے ان پاکستانی ریستورانوں کا تعارف کرائیں گے جو انڈین ریستورانوں کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ اس تعارف کا مقصد یہ بھی ہے کہ میلبورن جانے والوں کو ان کا پتا ہو۔ عین ممکن ہے کہ میلبورن میں رہنے والے پاکستانیوں کو بھی ان میں سے بعض کا علم نہ ہو!