گزشتہ نشست میں میلبورن کی لائی گان سٹریٹ کا ذکر ہو رہا تھاجہاں دیس دیس کے کھانے دستیاب ہیں۔ یہاں‘ بڑے بڑے ‘ تین پاکستانی ریستوران قائم ہیں جو پاکستانی کھانوں کی الگ شناخت قائم کرنے میں رات دن لگے ہوئے ہیں۔ایک کا نام'' ذائقہ‘‘ ہے۔ اسے بوریوالہ کا ایک نوجوان چلا رہا ہے۔اس کی مچھلی اور کباب لاجواب ہے۔ دوسرے ریستوران کا نام '' کھابے ‘‘ ہے۔ اسے شیخوپورہ کے دو بھائی چلا رہے ہیں۔پاکستان سے باہر ریستوران چلانے کا یہ مطلب نہیں کہ آپ آرام سے کرسی پر بیٹھے ہیں اور آپ کا منیجر اور ویٹر بھاگ دوڑ کر رہے ہیں۔ یہ صرف پاکستان میں ممکن ہے جہاں بیروزگاری شدید ہے اور کم اُجرت پر ملازم میسر آجاتے ہیں۔ میلبورن جیسے شہر میں مالک کو بہت سے کام کرنے پڑتے ہیں۔ وہ مالک بھی ہے‘ منیجر بھی ‘ بسا اوقات ویٹر بھی اور کبھی کبھی باورچی بھی! اگر آپ زیادہ ملازم رکھیں تو قانون کے مطابق ان کی کم سے کم اُجرت مقرر ہے جسے ادا کرنے کے بعد بچتا کچھ نہیں۔ پھر ان کے حقوق کا مسئلہ بھی ہے جن سے یہاں رو گردانی نہیں کی جا سکتی! وہ مقررہ اوقات سے زیادہ رکیں گے تو اس کا معاوضہ الگ لیں گے۔ تیسرا بڑا ریستوران '' نائٹ سپارک‘‘ ہے۔ اس کا مالک کراچی کا نوجوان ہے۔ یہ بہت کمال کا باورچی بھی ہے۔ کاؤنٹر اس کی نیپالی اہلیہ نے سنبھالا ہوا ہے جو رواں اُردو میں بات چیت کرنے پر قادر ہے۔ میلبورن کے ایک محلے '' پوائنٹ کُک ‘‘میں ایک چھوٹا سا ریستوران'' ریڈ راک ‘‘ کے نام سے ملتان کے ایک صاحب چلا رہے ہیں۔ نام ذہن سے اتر گیا ہے۔ بیٹھنے کی جگہ کوئی خاص کشادہ نہیں۔ یہ صرف ہفتے اور اتوار کو ناشتہ تیار کرتے ہیں اور کمال کرتے ہیں۔ ایسی نہاری اور حلوہ پوری کہیں اور کم ہی کھائی ہے۔ لبنانی چین ( chain)''الجنّہ‘‘ بھی پاکستانیوں کے لیے اچھی پناہ گاہ ہے۔ ہاں! ایک بات گرہ میں باندھ لیجیے۔ وہ یہ کہ پورے میلبورن میں ڈھنگ کا مٹن قورمہ نہیں ملے گا۔ مٹن قورمہ کے نام سے جو کچھ دیتے ہیں‘ وہ مٹن تو ہوتا ہے‘ قورمہ نہیں ہوتا۔ ویسے سچ پوچھیے تو مٹن قورمہ پنڈی اسلام آباد میں بھی کہاں ملتا ہے !! بالکل ایسے ہی جیسے اچھی مچھلی جڑواں شہروں میں عنقا ہے۔جس طرح پلاؤ غائب ہو رہا ہے‘ بلکہ غائب ہو چکا ہے ‘ اسی طرح قورمہ بھی نایاب ہوتا جا رہا ہے۔ پلاؤ کا ذکر ہوا ہے تو ایک گواہی سنتے جائیے۔ ایک معروف کتاب ہے '' ہم کیوں مسلمان ہوئے‘‘ جو اُردو بازار لاہور سے شائع ہوئی ہے۔ انٹرنیٹ پر بھی میسر ہے۔ ڈاکٹر عبد الغنی فاروق اس کے مصنف ہیں۔ اگر میں بھول نہیں رہا تو اس کتاب کا انگریزی ایڈیشن بھی موجود ہے۔ مصنف نے نوّے نو مسلموں کے تفصیلی حالات قلم بند کیے ہیں کہ ان کے مسلمان ہونے کے اسباب کیا تھے۔ ان میں برطانیہ‘ امریکہ‘ہالینڈ‘ پولینڈ‘ کینیڈا‘ جرمنی‘فرانس‘ آسٹریا‘جمیکا‘ چیکو سلواکیہ‘ بھارت وغیرہ سے تعلق رکھنے والے نومسلموں کی آپ بیتیاں ہیں۔ دلچسپ ترین وجہ اسلام قبول کرنے کی ایک انگریز ‘ ڈیوڈ آپسن‘ نے بتائی۔ یہ صحافی تھے اور بمبئی میں رہ رہے تھے۔یہ اپنے قبول اسلام کے بارے میں لکھتے ہیں '' ایک مرتبہ ایک معزز مسلمان نے مجھے کھانے پر بلایا۔جو چیزیں میرے سامنے لائی گئیں ان میں ایک پلاؤ بھی تھا۔زندگی میں یہ پہلا موقع تھا کہ میری زبان اس بہشتی نعمت سے لذت اندوز ہوئی۔میں پلاؤ کھا رہا تھا‘ مسحور ہو رہا تھا اور ساتھ ہی ساتھ غور کر رہا تھا کہ جس قوم کا مذاق کھانے کے معاملے میں اس قدر لطیف ہے‘ دیگر معاملات میں اس کا معیار کیونکر لطیف نہیں ہو گا۔ یہ حقیقت ہے کہ مجھے کسی مُلّا نے مسلمان کیا نہ کسی صوفی نے ‘ میں تو حضرت پلاؤ کے ہاتھ پر مشرف بہ اسلام ہوا ہوں‘‘۔ کتاب کے مصنف کے بقول‘ یہ صاحب بعد میں لاہور منتقل ہو گئے۔ ان کے تعلقات علامہ اقبال سے بھی تھے۔ واللہ اعلم! اب یہ جو بریانی اور پلاؤ کے درمیان ٹھنی ہوئی ہے‘ تو ایسی گواہی بریانی کے حق میں تو نہیں ملے گی! ویسے بھی کراچی اور بالائی سندھ میں جو بریانی پکائی اور کھلائی جاتی ہے اس کا جزوِ اعظم لال مرچ ہے۔ یوں بھی جو قوم نوڈلز اور سپے گتی میں گھی اور مرچ ڈال سکتی ہے وہ کیا نہیں کر سکتی۔ چینیوں اور اطالویوں کو معلوم ہو تو فرطِ غم سے بے ہوش ہو جائیں! اسی طرح ہمارے ہاں ہر شے میں چکن ڈالنا ضروری ہے۔ شکار پور سے ایک دوست اچار لائے جو چکن کا تھا! اللہ اللہ ! ہماری ایک رشتے کی بھابی ہیں۔ انہوں نے تو تاریخ میں اپنا مقام بنا لیا ہے۔ گاؤں سے سرسوں کا ساگ آیا تو موصوفہ نے اس میں بھی چکن ڈال کر پکایا!
ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں
تڑپے ہے مرغِ قبلہ نما آشیانے میں
میرے مستقل قارئین جانتے ہیں کہ اورنگ زیب عالم گیر ایک سخت گیر باپ تھا۔ چونکہ شاہ جہاں دارا شکوہ پر زیادہ توجہ دیتا تھا‘ اس لیے اورنگ زیب ‘ غیر شعوری طور پر اس کا بدلہ اپنے بیٹوں سے لیتا تھا۔ '' رقعاتِ عالمگیری ‘‘ نامی کتاب میں اس کے وہ خطوط ہیں جو اس نے اپنے فرزندوں کو لکھے۔بس یوں سمجھیے کچوکے دیتا رہتا تھا۔ کبھی شکایت کرتا کہ آم ‘ جو بیٹوں نے بھیجے‘ اچھے نہیں نکلے۔ اسی طرح اس کے ایک بیٹے کے پاس ایک باورچی تھا جو بریانی پکانے میں ثانی نہیں رکھتا تھا۔ اورنگ زیب نے بیٹے سے وہ باورچی مانگا‘ بیٹا بھی اسی کا بیٹا تھا‘ طرح دے گیا۔ ایک خط میں لکھتا ہے کہ میں آرہا ہوں‘ بریانی اسی باورچی سے پکوائی جائے۔ اس سے یہ حقیقت تو واضح ہو گئی کہ اورنگ زیب کا عہد آتے آتے‘ وسط ایشیا سے آئے ہوئے پلاؤ کے سامنے بریانی خم ٹھونک کر کھڑی ہو چکی تھی۔ مگر یہ جو بریانی میں منوں کے حساب سے مرچ ڈالی جاتی ہے‘ یہ ستم کب شروع ہوا؟ بھارت کے مشہور ثقافتی محقق سہیل ہاشمی کے بقول ‘ مغلوں کے دور میں تو مرچ تھی ہی نہیں! مرچ مغلوں کے آخری دنوں میں‘ پرتگالی مہاراشٹر یعنی بمبئی میں لائے۔ اس کا اصل جنوبی امریکہ ہے۔ پرتگالی رنگ رنگ کی مرچوں والے پودوں کو‘ گھروں کے گرد‘ باڑ کے طور پر لگاتے تھے۔ آہستہ آہستہ جو لوگ گھاٹوں پر آباد تھے ‘ انہوں نے اسے کھانے کا حصہ بنا لیا۔یہ مرہٹوں کا علاقہ تھا۔ اٹھارہویں صدی کے وسط میں جب مرہٹے ہر طرف چھا گئے اور آدم بو آدم بو پکارتے‘ مار دھاڑ کرتے‘ دہلی میں آن دھمکے تو بمبئی سے مرچ بھی ساتھ لائے۔ اب یہ بریانی میں حد سے زیادہ مرچ ڈالنے کی بدعت کب شروع ہوئی؟ کس نے شروع کی؟ ابھی تک یہ معمہ حل نہیں ہوا۔ وہ تو بھلا ہو مرچ کا کہ اس نے تاشقند کا رُخ نہیں کیا اور پلاؤ اصل حالت میں وہاں آج بھی موجود ہے!
مٹن قورمے کی بات ہو رہی تھی۔ سنا ہے کہ لاہور کے دو ریستورانوں میں اصل مٹن قورمہ ملتا ہے۔ اخبار کی پالیسی کے حوالے سے ان کے نام لکھنا مناسب نہیں! ایک تو‘ سنا ہے ‘ سو سال سے چل رہا ہے۔ اب یہ تو لاہور کے احباب کا کارنامہ ہے کہ ابھی تک میں ان ریستورانوں کے قورمے سے محروم ہوں! یگانہ چنگیزی نے شاید میرے انہی احباب کے بارے میں کہا ہے کہ
شش جہت میں ہے ترے جلوۂ بے فیض کی دھوم
کان مجرم ہیں مگر آنکھ گنہگار نہیں!
پرسوں‘ تیسری اور آخری نشست میں‘ ہم اُن کھانوں کا ذکر کریں گے جو پاکستان میں عام نہیں۔ مگر ہیں مزے کے! اور جن کا یہاں ڈھونڈنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے !!