آخری نمازیاآخری کھانا ؟

اب یاد نہیں پڑ رہا‘ اتوار تھا یا ویسے کوئی تعطیل تھی۔حمزہ گھر پر تھا۔ اسے کہا کہ شہر چلتے ہیں۔ حمزہ ہر وقت دادا کے ساتھ جانے کے لیے تیار ہوتا ہے۔ریلوے سٹیشن زیادہ دور نہ تھا۔ ہم نے ٹکٹ لیے اور ٹرین میں سوار ہو گئے۔ اس بچے کو ٹرین میں سواری کرنا بہت زیادہ پسند ہے۔ کار پر اس کا اعتراض یہ ہے کہ وہ اُٹھ کر کھڑا نہیں ہو سکتا۔کوشش ہوتی ہے کہ کبھی کبھی اسے ٹرین کی سواری کرا دوں! اس کے ماں باپ کے پاس اتنا وقت کہاں !
ہم ''میلبورن سنٹرل ‘‘ کے سٹیشن پر اترے۔ میلبورن شہر کا مرکزی مقام یہی ہے۔اس کے بالکل سامنے شہر کی بڑی لائبریری واقع ہے جہاں بیٹھے بیٹھے میری کئی شاموں کے سائے طویل ہوئے۔ میلبورن سنٹرل کا ریلوے سٹیشن در اصل بہت بڑا بازار ہے جو کئی منزلوں پر مشتمل ہے اور بھول بھلیوں سے اَٹا پڑا ہے۔اس میں کئی بین الاقوامی ریستوران بھی ہیں۔ ڈھونڈتے ڈھونڈتے ہم ایک ریستوران ''چِلی انڈیا ‘‘ پہنچے۔ حمزہ کہنے لگا '' ابو مجھے پتا ہے آپ دوسا کھائیں گے‘‘۔ میں ہنسا۔ ہاں بیٹے! مجھے تو دوسا ہی کھانا ہے! حمزہ نے اپنے لیے مکھن والا چکن منگوایا۔
دوسا بر صغیر کے جنوبی حصے کا خاص کھانا ہے۔موجودہ پاکستان کی اکثریت کو اس کے بارے میں علم نہیں ہو گا۔ کچھ اس کا پیدائشی وطن کرناٹک بتاتے ہیں اور کچھ تامل ناڈو۔ مگر مجموعی طور پر یہ سارے جنوب میں کھایا جاتا ہے۔ اب تو یوں بھی سرحدیں مٹ گئی ہیں۔ دنیا کے شمال جنوب مشرق اور مغرب کے کھانے ہر ملک میں‘ ہر خطے میں اور ہر بڑے شہر میں مل جاتے ہیں۔ وہ سفید چمڑی والا انگریز نہیں بھولتا جو ایک ریستوران میں ساتھ والی میز پر بیٹھا تھا۔ پہلے اس نے بریانی کا آرڈر دیا۔ جب ویٹر بریانی لا چکا تو '' مینگو لسّی ‘‘ منگوائی۔ دوسا ایک باریک ‘مہین‘ ورق جتنی پتلی‘کاغذی روٹی ہوتی ہے جو چاول اور دال یا چاول اور کالے چنوں کے سفوف سے بنتی ہے۔ اس کا سائز بڑا ہوتا ہے۔اس کی اصل تو بس اتنی ہے جسے ہم نے بیان کیا ہے۔ یعنی پلین دوسا! یہ چٹنیوں کے ساتھ کھایا جاتا ہے جن میں سے کچھ تیز اور کچھ نارمل ہوتی ہیں۔ ''مصالحہ دوسا‘‘ میں آلو بھرے ہوتے ہیں۔ بہت پہلے‘ کراچی میں ایک ریستوران ''پانڈے روسا‘‘ کے نام سے موجود تھا جہاں جنوبی بر صغیر کے کھانے مہیا کیے جاتے تھے۔اس میں کئی بار دوسا کھایا۔ پھر اچانک یہ ریستوران ختم ہو گیا۔ نہیں معلوم اب کراچی میں جنوب کے کھانے ملتے ہیں یا نہیں۔ اور اگر ملتے ہیں تو کس معیار کے؟ کافی تلاش کے بعد اسلام آباد میں ایک ریستوران کا پتا چلا ہے۔ ابھی تک وہاں جانے کا اتفاق نہیں ہوا۔ سنا ہے یہ ایک سیکٹر کی چھوٹی مارکیٹ میں ‘ جیسا کہ ہر سیکٹر میں مارکیٹ ہوتی ہے ‘واقع ہے۔ اسے ایک میاں بیوی چلا رہے ہیں جن کا پس منظر چنائی ( مدراس ) کا ہے۔ اگر یہ روایت‘ جو ہم تک پہنچی ہے‘ درست ہے تو پھر اس دوسا کے اصلی اور جینوئین ہونے کا خاصا امکان ہے۔
جنوب کا دوسرا آئٹم جس نے اپنی گرفت میں لے رکھا ہے‘ وہاں کی دال ہے۔ یوں تو روایت ہے کہ مشہور و معروف ملگھٹانی سُوپ بھی اصل میں دال ہی ہے جو انگریزی راج میں سری لنکا سے جنوبی ہند میں آئی۔ سفید فام سرکار نے اس میں مرغی کا گوشت ملا دیا۔ بر صغیر کے جنوب میں جو دال پکائی جاتی ہے‘ وہ لذت اور خوشبو میں جواب نہیں رکھتی۔ سب سے پہلے یہ دال سنگا پور کے ایک ریستوران میں کھائی اور حیران ہو گیا۔تب سے اس کا دلدادہ ہوں مگر یہ کم ہی میسر ہوتی ہے۔ بہت سے جنوبی کھانوں میں املی ڈالی جاتی ہے؛ تاہم صرف املی ڈالنے سے دال ‘ جنوب کی دال نہیں بن جاتی۔چند ہفتے پہلے‘ ایک دوست سے ‘ جو مشہور و معروف صحافی اور کالم نگار ہیں ‘ بات ہو رہی تھی۔ کہنے لگے: سنگاپور آیا ہوا ہوں۔ میں نے تجویز پیش کی کہ '' لٹل انڈیا‘‘ کے علاقے میں جائیں۔ وہاں بڑی مسجد کے بالکل سامنے ''اے بی محمد‘‘ ریستوران ہے۔ اس ریستوران کی دوسری بڑی نشانی یہ ہے کہ دنیا بھر میں مشہور شاپنگ مال '' مصطفی سنٹر ‘‘ اس کے عین پیچھے واقع ہے۔ وہاں جا کر ان کی دال اور روٹی کھائیں۔ نہیں معلوم ‘ وہ گئے یا نہیں‘ مگر مجھے اب بھی جانے کا موقع ملے تو شاید پہنچنے کے بعد پہلا کام یہی کروں!
اس بار ایک عجیب ہی کام ہو گیا۔ ایک جگہ کھانا کھا رہے تھے۔ پوری اور چنے۔ یہ پوری عجیب سی تھی۔ جیسے نارمل آٹے سے بنی ہو۔ پوچھا تو بتایا گیا کہ یہ پوریاں نہیں ‘ پٹھورے ہیں۔ عزیز گرامی یاسر پیر زادہ کو بتایا کہ ایک انڈین دکان پر‘ زندگی میں پہلی بار پٹھورے کھا ئے ہیں تو ان کا ردّ عمل دلچسپ تھا۔ کہنے لگے: اس پر اعتراض نہیں کہ انڈین شاپ سے کھائے‘ اعتراض اس پر ہے کہ زندگی میں پہلی بار کھائے۔ معلوم ہوا کہ لاہور میں تو پٹھورے کھائے جاتے ہیں۔مگر حیرت ہے کہ زندگی لاہور جاتے آتے گزری۔ دوستوں کے ہاں بھی کھانے کھائے اور رشتہ داروں کے گھروں میں بھی‘ مگر پٹھورے کہیں نظر نہ آئے۔ کہا جا سکتا ہے کہ فتح جنگ کے ایک کسان کو‘ جو پنڈی اسلام آباد میں رہتا ہے‘ لاہور کے کھانوں کا کیا پتا! اندھا کیا جانے بسنت کی بہار! مگر یہ بھی تو دیکھیے ‘ لاہور کے پائے‘ حلوہ پوری‘ مرغ چنے اور دیگرکھانے ہر خاص و عام کو معلوم ہیں ‘ تو پھر پٹھورے‘ نسبتاً گمنام کیوں ہیں ؟ بہر طور ‘ پٹھورے زبردست چیز ہیں۔ پوری کے مقابلے میں کم مرغّن ! پوری کھاتے ہوئے جو حشر ہاتھوں کا ہوتا ہے‘ پٹھورے کھانے سے نہیں ہوتا!گمان ہے کہ پنڈی کی سب سے پرانی ‘ روایتی‘ فوڈ سٹریٹ‘ کرتارپورہ‘ میں پٹھورے ملتے ہوں گے۔ کرتار پورہ قدیم آبادی ہے اور پنڈی کے مرکز‘ بنّھی چوک‘ کی بغل میں واقع ہے۔
ایک اطمینان بخش امر یہ ہے کہ لسّی ان ملکوں میں اب عام میسر ہے۔ مینگو لسّی سفید فام بھی شوق سے پیتے ہیں۔ لسّی ترکی کا قومی مشروب ہے۔ اسے ترکی میں ایرین( Ayran)کہتے ہیں۔ کسی بھی ترکی یا لبنانی ریستوران میں ‘ صاف ستھری لسّی‘ بوتل میں بند ‘ دیگر مشروبات کے ساتھ رکھی‘ مل جاتی ہے۔ ترکی میں تو خیر چھوٹے سے چھوٹے ڈھابے میں بھی تازہ لسّی موجود ہوتی ہے۔ استنبول ‘ حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے مزار کے احاطے میں ایک طرف مسجد ہے۔ مسجد ہی کی طرف سے باہر نکلیں تو سامنے کھانے کی بہت سی دکانیں ہیں۔ ان میں کھانا تو زبر دست ہوتا ہی ہے‘ لسّی بھی بہت عمدہ ملتی ہے۔
ویسے کھانے کی توہین ہم میں‘ اور ہمارے ہم مذہبوں میں‘ عام ہے۔ ہمارا سارا زور مقدار پر ہے۔مشرق وسطیٰ کے حوالے سے کھانا کھانے کی جو تصویریں اور وڈیو گردش میں رہتی ہیں‘ ان میں گوشت کے پہاڑ دیکھ کر وحشت ہوتی ہے۔ ہم پاکستانی بھی شادی بیاہ کے مواقع پر متانت اور شرافت کا لبادہ اتار کر پوری حیوانیت کے ساتھ سامنے آ جاتے ہیں۔ وہ جو نصیحت تھی کہ نماز اتنی توجہ اور خشوع سے پڑھو جیسے یہ آخری نماز ہو‘ تو اس کا اطلاق ہم سے نماز پر تو ہو نہیں سکا‘ کھانے پر کر دیا ہے۔ گویا؛ ہر شخص ایک عمر سے اگلی صفوں میں ہے۔
اگر چھ قسم کے سالن رکھے ہیں تو چھ کے چھ میں سے اپنی پلیٹ میں ڈالنا فرض سمجھتے ہیں۔ روٹی ایک سالن سے بھی تو کھائی جا سکتی ہے۔اور ایک سے کھانے ہی میں مزہ ہے۔ میں بہت عرصہ سے ‘ بوفے ہو یا شادی کی دعوت‘ یا کوئی پارٹی یا اپنا گھر‘ ایک ہی سالن لیتا ہوں‘ اسی سے لطف اندوز بھی ہوتا ہوں‘ پیٹ بھی بھرتا ہوں اور شُکر بھی ادا کرتا ہوں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں