ارے پاکستان کے حکمرانو! تم سے تو وہ موروثی بادشاہ‘ وہ آمر‘ سلطان محمود غزنوی ہی بہتر تھا جس نے فردوسی کو اس کا طے شدہ معاوضہ دیر سے بھیجا مگر اتنی دیر سے بھی نہیں! ادھر اونٹوں پر لدا معاوضہ شہر میں داخل ہوا‘ اُدھر فردوسی کا جنازہ اٹھا۔ مگر تم نے تو حد کر دی۔ قاضی عبد الرحمان امرتسری کو اُن کی زندگی میں اُن کا طے شدہ انعام کیا دیتے‘ تم نے اُن کا جنازہ اٹھنے کے بعد بھی تیس سال سے زیادہ کا عرصہ گزار دیا اور حقدار کو اس کا حق نہ دیا۔غلام محمد قاصر کا مشہور شعر ہے ؎
کروں گا کیا جو محبت میں ہو گیا ناکام
مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا
قاصر مرحوم کو کم از کم محبت کرنا تو آتی تھی۔ ہمیں‘ یعنی ہمارے حکمرانوں کو تو کوئی ایک کام بھی نہیں آتا۔ سٹیل مل ہمارے حکمرانوں سے نہ چلی۔ گردن کا جؤا بنی ہوئی ہے۔ قومی ایئر لائن کی نعش نہیں سنبھالی جا رہی۔ سفید ہاتھی‘ مست سفید ہاتھی‘ پالے جا رہے ہیں۔ انہیں کھلا کھلا کر بیچارے عوام کی حالت قحط زدہ افریقیوں کی طرح ہو گئی ہے۔ پسلیاں دور سے گنی جا سکتی ہیں۔ بازو اور ٹانگیں سوکھ کر ماچس کی تیلیوں کی طرح ہو گئی ہیں۔ آنکھیں باہر نکل آئی ہیں۔ رخسار اندر کی طرف دھنس گئے ہیں۔ مگر مست سفید ہاتھیوں کا پیٹ ہے کہ بھر نہیں رہا۔ پوری دنیا کہہ رہی ہے اور پاگل کو بھی معلوم ہے اور بچہ بھی جانتا ہے کہ ان سفید ہاتھیوں کا ایک ہی علاج ہے‘ صرف ایک‘ کہ انہیں نجی شعبے کو بیچ دیا جائے مگر ہمارے حکمران ایسا کرنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتے! انہیں یہ آسان لگتا ہے کہ عوام کے منہ سے نوالے چھین کر سٹیل مل اور خستہ شکستہ ایئر لائن کے دہانے میں ڈالتے جائیں! ایئر انڈیا نقصان میں جا رہی تھی۔ بھارتی حکومت نے اُٹھا کر نجی شعبے کو دے دی۔ وہ بھی نوالے منہ ہی میں ڈالتے ہیں۔ ان کے بھی دو ہی کان ہیں۔ دونوں کانوں کے درمیان پھنسا ہوا اُن کا بھی ایک ہی سرہے! بھیجا اُن کے بھی سر ہی میں ہے۔ وہ یہ کام کر سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں کر سکتے! کب تک اس عفریت کو پالتے رہیں گے؟
اور کون سا کام ہوا ہے؟ ڈالر اس وقت ہماری لائف لائن ہیں۔ ہر روز کروڑوں ڈالر سرحد پار جا رہے ہیں۔ ہماری لائق حکومت سے اس ڈکیتی کا استیصال نہیں ہو رہا! تو کیا اب عوام خود بارڈر پر جا کر پہرہ دیں؟ سرکاری ہسپتال مقتل ہیں اور سرکاری سکول کالج تعلیم کے منہ پر طمانچہ! ارے بھئی! اور تو اور ہماری حکومتوں سے آج تک ٹریفک کا نظام درست نہ ہو سکا۔ ڈمپر اور ٹریکٹر ٹرالیاں آئے دن لوگوں کو قتل کر رہی ہیں۔ کوئی پوچھنے والا نہیں! ناروا تجاوزات نے ملک کو بدصورت کر رکھا ہے۔ آدھی آدھی شاہراہوں پر تاجروں نے قبضے کر رکھے ہیں۔ سرکاری محکمے مُک مکا کر کے آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔ اسلام آباد میں جو جگہیں پارکنگ کے لیے بنائی گئی تھیں‘ وہاں بھی ٹھیلے اور سٹال لگے ہیں۔یہ سب کچھ لکھ لکھ کر تھک گئے ہیں ! کوئی شنوائی نہیں! یہ سارے کام ہماری سرکار کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں!
تریسٹھ‘ چونسٹھ سال پہلے جب جنرل ایوب خان کی حکومت نے ملک کے صدر مقام کو کراچی سے کہیں اور منتقل کرنے کا ارادہ کیا تو اُس مقام کا انتخاب کیا گیا جہاں آج کل وفاقی دار الحکومت واقع ہے! تب عوام سے کہا گیا کہ نئے شہر کا نام تجویز کریں۔ اس ذہنی ایکسرسائز میں بیشمار افراد نے حصہ لیا‘ تاہم وفاقی کابینہ نے جس نام کا انتخاب کیا‘ وہ نام ''اسلام آباد‘‘ تھا۔ یہ نام قاضی عبد الرحمان امرتسری کی خوبصورت تخلیق تھا! قاضی صاحب تقسیم کے بعد ہجرت کر کے آئے تھے اور عارف والا میں آباد تھے۔ وہ سکالر تھے اور استاد!! اپریل1960ء میں حکومت نے انہیں آگاہ کیا کہ ان کا نام نئے دار الحکومت میں پلاٹ کے لیے رجسٹر ہو چکا ہے! قاضی عبد الرحمان صاحب کی عمر اُس وقت باون سال تھی۔ انہوں نے بہت خوشی کے ساتھ اپنی بیگم اور بچوں کو بتایا ہوگا کہ ان کی کاوش کو سراہا گیا ہے اور یہ کہ نئے شہر میں انہیں پلاٹ دیا جا رہا ہے۔ ان کے اور ان کے متعلقین اور احباب کے لیے یہ امتیاز یقینا قابلِ فخر تھا۔ہمارے کلچر کے عین مطابق لوگ دور و نزدیک سے مبارک دینے بھی آئے ہوں گے!
قاضی صاحب نے اور ان کے خاندان نے اُس طلسمی مکتوب کا انتظار کرنا شروع کر دیا جو ڈاک کے گھوڑے پر سوار ہو کر آنا تھا۔قاضی صاحب باون سے ساٹھ کے ہو گئے۔ بچے بڑے ہو گئے۔ خط نہ آیا۔ پھر وہ ستر سال کے ہو گئے۔ پیری نے انہیں اپنی آغوش میں لے لیا! دس سال مزید گزر گئے! اب وہ اسّی سال کے تھے۔ ان کے قو یٰ مضمحل ہو گئے۔ ضعف نے ان پر غلبہ پا لیا۔وہ دن بدن نحیف ہوتے گئے۔1990ء کا ایک اداس اور خاموش دن تھا۔ قاضی صاحب نے آخری بار گھر کے صدر دروازے کو ضرور دیکھا ہو گا کہ پوسٹ مین آ رہا ہے کہ نہیں! پھر فرشتے نے ان کے جسم سے جان نکالی اور آسمانوں کی طرف پرواز کرنے لگا۔ اُس وقت قاضی صاحب کی عمر بیاسی سال تھی!
اب ان کے پسماندگان نے اُس خط کا انتظار کرنا شروع کر دیا۔ چلیے‘ اپنے انعام کو وصول کرنا اور دیکھنا قاضی صاحب کی قسمت میں تو نہ تھا۔ خاندان تو ضرور اس نعمت کو دیکھے گا اور اس سے متمتع ہو گا! ہفتے مہینوں میں بدلتے رہے۔مہینے سال بنتے رہے۔ یہاں تک کہ قاضی صاحب کی رحلت کو بھی بتیس برس ہو گئے۔انتظار کا یہ سارا عرصہ تریسٹھ سال پر مشتمل ہے۔ تیس سال ان کی زندگی میں اور بتیس تینتیس سال ان کی وفات کے بعد! اب تاریخ نے ورق الٹا ہے۔ وفاقی ترقیاتی ادارے کے موجودہ سربراہ کی توجہ کسی نے اس ظلم کی طرف دلائی ہے۔ انہوں نے ارادہ ظاہر کیا ہے کہ اب یہ پلاٹ قاضی صاحب کے خاندان کو دیا جائے گا اور نقصان کی تلافی کی جائے گی ! خاندان‘ ایک انگریزی معاصر کی رُو سے‘ عارف والا ہی میں رہتا ہے!
اب کون ہو گا ان کے خاندان میں؟ کیا ان کی بیگم حیات ہیں؟ یا بیٹے وارث ہیں یا بیٹیاں؟ کچھ معلوم نہیں ! مگر ٹھہریے! خوش نہ ہوں ! سرکار نے ایک بار پھر وعدہ کیا ہے۔ وعدہ ہی کیا ہے! دیا نہیں! یہ وعدہ تو تریسٹھ سال پہلے بھی ہوا تھا۔ اُس زمانے میں سرکارے ادارے آج کی نسبت زیادہ چست اور زیادہ مستعد تھے۔ اگر اُس بھلے زمانے میں کیا گیا وعدہ پورا نہیں ہوا تو کاتبِ تقدیر ہی جانتا ہے کہ آج کے کیے گئے وعدے کا کیا حال ہو گا۔ اگر‘ خدا نخواستہ‘ ترقیاتی ادارے کے موجودہ سربرا ہ کی ٹرانسفر ہو جاتی ہے تو یہ مسئلہ پھر نوکر شاہی کے اندھیرے غار میں گُم ہو جائے گا۔ بیورو کریسی کے کَٹ تھروٹ کلچر میں پیشرو کے شروع کئے گئے اچھے کاموں کی تکمیل کا کوئی رواج نہیں! اس لیے ہم التماس کریں گے کہ یہ کارِ خیر جتنا جلد ہو سکے‘ کر ڈالیے! کسی لٹریری فیسٹیول کا انتظار مت کیجیے۔ یہاں تو ایک پل کا کچھ پتا نہیں! احمد ندیم قاسمی نے کہا تھا ؎
پل پل میں تاریخ چھپی ہے‘ گھڑی گھڑی گرداں ہے ندیمؔ
ایک صدی کی ہار بنے گی ایک نظر کی بھول یہاں