ایک صوفہ کافی عرصے سے گھر والوں کو ناپسند تھا۔ وہ اسے فروخت کرنا چاہتے تھے۔ میں آڑے آرہا تھا۔ مجھے یہ صوفہ اس لیے عزیز تھا کہ یہ مدتوں سے ہمارے گھر کا مکین تھا۔ یہ ایک وسیع و عریض تھری سیٹر (three seater) تھا۔ اسے میرے مرحوم والدین نے استعمال کیا تھا۔ میرے مرحوم ماموں جب بھی تشریف لاتے‘ اسی پر بیٹھتے۔ میری پالتو بلی بھی برسوں سے رات اسی پر گزار رہی تھی۔ میں نے کتنی ہی کتابیں اس صوفے پر بیٹھ کر پڑھیں! کتنے ہی کالم اس پر بیٹھ کر لکھے۔ سونے کے لیے بھی آرام دہ تھا۔ کتنی ہی بار اس کی پوشش بدل کر اس کے بڑھاپے کو شباب میں ڈھالا۔ افسوس! میری اہلیہ اور چھوٹی بیٹی جب بھی اسے دیکھتیں‘ ناپسند کرتیں۔ کئی بار انہیں آپس میں کھسر پھسر کرتے ہوئے پکڑا۔ وہ اسے بیچنا چاہتی تھیں۔ میں نے صاف صاف بتا دیا کہ جب تک میرے دم میں دم ہے‘ یہ صوفہ اس گھر سے کہیں نہیں جا سکتا۔ اس موقع پر میں نے وہ فرنگی محاورہ بھی استعمال کیا جو میں نے ایک ایسے شخص سے سنا تھا جو انگریزی جانتا تھا۔ over my dead body۔ اس دن کے بعد ماں بیٹی نے میرے سامنے صوفے کی فروخت کا تذکرہ تو کبھی نہ کیا مگر مجھے یقین تھا کہ یہ اپنے مذموم ارادے سے باز نہیں آئیں گی۔ عقلمندوں نے کہا ہے کہ اگر کوئی خاتون کچھ کرنے کی ٹھان لے تو اسے دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔ میں جب بھی صوفے پر بیٹھتا مجھے یوں لگتا جیسے صوفہ مجھ سے کچھ کہہ رہا ہے۔ اگر صوفہ بات کرنے کے قابل ہوتا تو ضرور بتاتا کہ اسے ہر وقت دھڑکا لگا رہتا ہے۔
اپنے تجارتی امور سلجھانے کے لیے مجھے کچھ مدت کے لیے ملک سے باہر جانا پڑا۔ اصل پروگرام تو چند ہفتوں پر مشتمل تھا مگر ہفتے مہینوں میں تبدیل ہوتے رہے۔ یوں پورا ایک سال سفر میں گزرگیا۔ واپس آیا تو پہلا دن تو ملنے ملانے اور آرام کرنے میں کٹ گیا۔ دوسرے دن نظروں نے میرے محبوب صوفے کو تلاش کیا مگر جس جگہ صوفہ ہوتا تھا وہاں دو کرسیاں رکھی تھیں! میں ڈرائنگ روم میں گیا‘ پھر اوپر کی منزل میں‘ مگر صوفہ کہیں بھی نہیں تھا۔ اہلیہ سے پوچھا تو وہ بیٹی کی طرف دیکھنے لگی۔ بیٹی پہلے تو خاموش رہی۔ پھر بولی ''ابو! وہ بہت بوسیدہ ہو گیا تھا۔ ہم نے اسے بیچ دیا‘‘۔ اگر اس معاملے میں بیٹی شامل نہ ہوتی تو اہلیہ سے تو میں حساب کتاب پورا لیتا مگر مجبوری یہ آڑے آئی کہ بیٹیاں مجھے عزیز بہت ہیں۔ انہیں ڈانٹ نہیں سکتا بلکہ ان کی ماں انہیں ڈانٹے تب بھی برا لگتا ہے۔ ان کی ہر فرمائش پوری کرتا ہوں۔ وہ بھی مجھ پر جان چھڑکتی ہیں۔ میرے پسندیدہ پکوان پکاتی ہیں۔ میری طبیعت خراب ہو تو ان کی جان پر بن جاتی ہے۔ رات دن خدمت میں لگی رہتی ہیں۔ صوفہ بِکنے کا دکھ تو بہت زیادہ تھا۔ دل میں جیسے شگاف پڑ گیا! مگر صبر کیا اور بیٹی کی خاطر غصہ پی گیا۔ وہ رات اضطراب میں گزری۔ بار بار نیند ٹوٹتی۔ کبھی پیاس لگتی! بظاہر تو معاملہ ختم ہو گیا تھا مگر دل کو جو گزند پہنچا تھا‘ اس نے تو اپنا آپ دکھانا تھا۔ سو دکھایا۔ نہ جانے صوفہ کہاں ہو گا اور کس حال میں ہو گا۔ اپنے استاد ڈاکٹر ظہیر فتحپوری کا شعر بار بار یاد آتا:
سب گہما گہمی ہار گئی یاں دل سے
پردیس میں تیرا حال نہ جانے کیا ہو
کئی دن گزر گئے۔ ایک دن تجسس ہوا کہ ان ماں بیٹی نے صوفہ بیچا کیسے؟ کیا یہ اسے کسی کباڑیے کے پاس لے گئیں یا کسی کو گھر پر بلایا۔ پوچھا تو جواب ملا ''او ایل ایکس پر لگایا تھا‘‘۔ میرے فرشتوں نے بھی یہ نام کبھی نہ سنا تھا۔ پوچھا کہ یہ او ایل ایکس کیا بلا ہے؟ معلوم ہوا کہ یہ ایک ویب سائٹ ہے جو بازار کی طرح ہے۔ آپ نے کوئی شے بیچنی ہو تو اس ویب سائٹ پر اشتہار لگا دیجیے۔ ساتھ شے کی تصویر لگا دیجیے۔ سینکڑوں ہزاروں لوگ اس اشتہار کو پڑھیں گے اور دیکھیں گے۔ جو شائق ہوا یا ضرورت مند‘ تو تصویر دیکھ کر‘ یا آپ کے گھر آکر‘ بھاؤ تاؤ کرکے‘ قیمت ادا کرے گا اور خرید لے گا۔ حیرت ہوئی کہ کیا زمانہ آگیا ہے‘ گھر بیٹھے‘ اشیا کی خریدو فروخت کر سکتے ہیں! کفار کو داد دینا پڑتی ہے کہ کمپیوٹر‘ انٹرنیٹ‘ ویب سائٹ‘ کیا کیا ایجاد کر دیا ہے! دفعتاً ایک خیال بجلی کی طرح ذہن میں کوندا! کیوں نہ مجھے او ایل ایکس پر لگایا جائے! پتا تو چلے میری قیمت کیا ہے اور یہ کہ میں کسی کام کا ہوں بھی یا نہیں! اہلیہ سے بات کی تو ہنسنے لگی۔ میں نے بتایا کہ یہ مذاق کی بات نہیں ہے اور یہ کہ میں سنجیدہ ہوں۔ بیگم کہنے لگی کیا بیوقوفوں جیسی باتیں کر رہے ہیں‘ بھلا یہ کیسے ممکن ہے! میں اڑا رہا۔ مسلسل کہتا رہا۔ کئی دن اسی تکرار میں گزرے۔ ایک دن اہلیہ کو غصہ آگیا۔ کہنے لگی ٹھیک ہے۔ اِنج تے فیر اِنج ہی سہی! اس نے او ایل ایکس پر اشتہار لگا دیا۔ تصویر لگانے سے میں نے منع کر دیا کہ تصویر لگا دی تو بکنے کا امکان صفر رہ جائے گا۔ اہلیہ نے پوچھا قیمت کیا لگائیں؟ میں نے کہا تین لاکھ لگا دو‘ بھاؤ تاؤ کرکے اڑھائی لاکھ مل جائیں گے!
دوسرے دن فون آنے شروع ہو گئے۔ نہیں معلوم کون کیا پوچھ رہا تھا اور جواب کیا دیا جا رہا تھا۔ شام کو ایک عمر رسیدہ خاتون آئی۔ میں لائبریری میں بیٹھا اپنی آنے والی تصنیف پر کام کر رہا تھا۔ خاتون نے کتابوں کے انبار کے درمیان‘ مجھے بیٹھا دیکھا۔ پوچھا ''اس منشی گیری کے علاوہ گھر کا کچھ کام بھی کر لیتے ہیں؟‘‘ اہلیہ نے زہر خند کے ساتھ جواب دیا کہ گھر کا کام تو دور کی بات ہے‘ چائے کی پیالی کے ساتھ چمچ نہ ہو تو وہ بھی مانگتے ہیں‘ خود اُٹھ کر نہیں لیتے۔ خاتون منہ ہی منہ میں کچھ بڑ بڑاتی چلی گئی۔ پھر ایک جوان میاں بیوی آئے۔ کہنے لگے: ہم خرید لیں گے بشرطیکہ ہمارے بچوں کو پڑھائیں۔ اہلیہ نے بتایا کہ چھوٹے بچوں کو پڑھانے کا کوئی تجربہ نہیں۔ سچ یہی تھا۔ ہمارے بچوں کو ابتدائی کلاسوں میں اہلیہ ہی نے پڑھایا تھا۔ مجھے یہ کام ہمیشہ از حد مشکل لگا۔ دوسرے دن ایک بڑے میاں آئے۔ مجھے ٹٹولا۔ پسلیوں کو دبا دبا کر دیکھا۔ پوچھا: گن چلا لیتے ہو؟ میں نے کہا: سکھائیں گے تو سیکھ لوں گا۔ کہنے لگے: گارڈ چاہیے جو جیولری کی دکان کے باہر الرٹ ہو کر کھڑا رہے۔ میں نے کہا کہ میری ایک شرط ہے۔ کھڑا نہیں رہوں گا۔ بیٹھ کر پہرہ دوں گا اور ساتھ کتاب کا مطالعہ کروں گا۔ بڑے میاں ہنسے۔ میری اہلیہ سے انتہائی زہریلے لہجے میں کہا کہ یہ بندہ کسی کام کا نہیں! پھر ایک سیٹھ نما صاحب آئے۔ بڑی بڑی مونچھیں تھیں۔ کاٹن کا کھڑ کھڑاتا لباس زیب تن کیے تھے۔ کہنے لگے: اینٹوں کے بھٹے ہیں۔ حساب کتاب کے لیے اور مزدوروں کو ادائیگی کرنے کے لیے منشی کی ضرورت ہے۔ میں نے اس موضوع پر بہت کچھ پڑھ رکھا تھا۔ انہیں کہا کہ آپ بھٹوں پر کام کرنے والے کنبوں کو عملاً غلام بنا کر رکھتے ہیں اور انہیں قرض کے ایسے جال میں پھنساتے ہیں کہ وہ نسل در نسل یرغمال بن کر رہ جاتے ہیں۔ سیٹھ کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا۔ جاتے ہوئے میری اہلیہ سے کہہ گیا کہ آپ کے میاں کا دماغ خراب ہے۔
بہت گاہک آئے۔ کسی نے نہ خریدا۔ اس کے بعد گھر والوں کے رویّے میں بھی سرد مہری آگئی۔ اب میرا سٹیٹس گھر میں وہی ہے جو میرے محبوب صوفے کا تھا!!