میں جن کے کام آ نہ سکا ان سے معذرت

شکل سے شریف لگ رہا تھا! ہاتھ میں مہنگے برانڈ کا بریف کیس تھا۔ سوٹ کے فیبرک کی بُنت بتا رہی تھی کہ ٹاپ کلاس ہے۔ قمیض کا کالر ماڈرن تھا۔ ٹائی سلکی تھی۔ جوتے چمکدار! مجھے روکا تو میں ٹھٹھک گیا! یا اللہ! اب اتنے خوش لباس افراد بھی گدا گری پر اتر آئے ہیں! یا گداگروں نے نیا بھیس بدلا ہے۔ مگر جب اس نے وہ بات کی جس کے لیے مجھے روکا تھا تو اپنی بدگمانی پر رنج ہوا۔ یہ تو قصہ ہی اور نکلا!
یہ شریف‘ کھاتا پیتا‘ ادھیڑ عمر شخص گدا گر تھا نہ نوسرباز! یہ ایک تعلیم یافتہ بزنس مین تھا۔ اس کا اچھا خاصا کاروبار تھا۔ کراچی کی مڈل کلاس میں جانا پہچانا نام تھا۔ دو دن کے لیے وفاقی دارالحکومت میں اپنے کسی کام کے لیے آیا تھا۔سفر کی وجہ سے اسے پروردگار نے اجازت دی تھی کہ روزہ نہ رکھے اور بعد میں اپنے گھر جا کر اس کی تلافی کرے۔ ('' پھر جو کوئی تم میں سے بیمار یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں سے گنتی پوری کر لے‘‘)۔ وزارتِ تجارت میں اجلاس اٹینڈ کر کے یہ باہر نکلا تو اس کی طبیعت خراب ہو رہی تھی۔ سر درد سے پھٹا جا رہا تھا۔ اسے اس درد کا مداوا معلوم تھا۔ ایک پیالی‘ صرف ایک پیالی چائے کی! اور یہ ایک پیالی چائے کی پورے شہر میں عنقا تھی! کوئی ریستوران کھلا تھا نہ ڈھابا! ایک بیکری کھلی تھی۔ وہاں سے اس نے ڈبل روٹی خریدی اور چائے کا پوچھا تو جواب ملا کہ چائے کہیں بھی نہیں ملے گی! میں ایک فارمیسی سے باہر نکل رہا تھا۔ اس نے مجھے دیکھا تو ایک شریف آدمی سمجھا۔ یہ بھی المیہ ہے کہ میں شکل سے اور لباس سے اور چال ڈھال سے معقول اور معتبر لگتا ہوں! کہنے لگا کہ اسے چائے کا ایک کپ چاہیے۔ میں نے اسے بتایا کہ چائے اس وقت صرف میرے گھر ہی میں مل سکتی ہے۔ اسے گاڑی میں بٹھایا‘ گھر لایا اور بیٹھک میں بٹھایا۔ دو پیالیاں تیز چائے کی اس نے پیں۔ میں نے اسے کہا کہ صوفے پر لیٹ جائے۔میں باہر نکل گیا۔ ایک گھنٹے بعد وہ تازہ دم اور ہشاش بشاش تھا! کراچی کی مرطوب آب و ہوا میں رہنے والوں کے لیے چائے آبِ حیات سے کم نہیں! یوں بھی ہم میں سے ہر شخص کو تھکاوٹ میں چائے کی ضرورت ہوتی ہے۔ میں نے اسے کھانے کی پیشکش کی تو کہنے لگا کہ وہ گھر سے سینڈوچ بنوا کر لایا ہے۔ مسئلہ صرف چائے کا تھا!
کیا اس ملک میں ہمیشہ سے یہی صورتحال تھی؟ کیا رمضان میں مریض‘ مسافر اور بوڑھے ہمیشہ اسی طرح ذلیل و خوار ہوتے تھے؟ نہیں! ہمیشہ ایسا نہیں تھا! وہ زمانہ بھی تھا جب ریستورانوں کے دروازوں پر پردے لگے ہوتے تھے۔ مسافر‘ مریض‘ بوڑھے اور غیر مسلم ریستورانوں میں کھانا کھاتے تھے۔ چائے پیتے تھے! پھر ایک مردِ مومن آیا جس نے پاکستان کو ایک وسیع قید خانے میں بدل دیا۔ اب یہ پاکستان‘ پاکستان نہیں تھا‘ اذیت اور عقوبت کا گھر تھا! اسلام کے نام پر ایسے ایسے قوانین نافذ کیے جن کا وجود باقی پچپن مسلمان ملکوں میں سے کسی ایک ملک میں بھی نہ تھا! یہ تبدیلی اس کے بعد رونما ہوئی کہ رمضان میں‘ دن کے وقت‘ کوئی ریستوران‘ کوئی ڈھابا‘ کوئی چائے خانہ کھلا نہیں ملتا۔
سوال یہ ہے کہ جب شریعت نے مریض کو اور مسافر کو اور بوڑھے کو روزہ چھوڑنے کی اجازت دی ہے تو کو ئی حکمران‘ کوئی کوتوال‘ کوئی تھانیدار‘ کوئی ڈپٹی کمشنر‘ کوئی عالمِ دین اسے روزہ رکھنے پر کیسے مجبور کر سکتا ہے؟ کیا ایک مسلمان حکومت کا فرض نہیں کہ مریضوں‘ بوڑھوں اور مسافروں کے کھانے پینے کا انتظام کرے؟ ایک مریض‘ ایک بوڑھا جو گھر میں اکیلا رہتا ہے‘ اور تین وقت کا کھانا محلے کے ریستوران سے یا ڈھابے سے کھاتا ہے‘ رمضان کے دوران کیا کرے ؟ کوئٹے سے یا کراچی سے یا دبئی سے آیا ہوا مسافر کھانا کہاں سے کھائے؟ شوگر کا مریض کیا کرے؟ مر جائے؟ خود کُشی کر لے؟ کتنے ہی لوگ معذور ہیں جنہیں دیندار ڈاکٹروں نے روزہ نہ رکھنے کی اجازت دی ہوئی ہے۔ گردے کے مریض کے لیے پانی پینا اشد ضروری ہے۔ جس مرد یا عورت کے گردے صرف چالیس یا پچاس فیصد کام کر رہے ہیں‘ وہ کیسے روزہ رکھے ؟ یہ کون سی شریعت ہے جس میں لوگوں کو مرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے؟ کتنے ہی بوڑھے ہیں جنہیں ان کے نافرمان بیٹوں اور بد بخت بہوؤں نے گھر سے نکالا ہوا ہے۔ کچھ کے پاس تو کچن تک نہیں۔ بس ایک کمرے میں گزارہ کر رہے ہیں۔ محلے کے ڈھابے سے کھانا کھا کر زندگی کا قرض چُکا رہے ہیں۔ ان کی حالت ایسی ہے کہ روزہ رکھنے کا سوچ بھی نہیں سکتے! ان کا کیا بنے گا؟ اس ملک میں مسیحی بھی بستے ہیں‘ ہندو بھی اور سکھ بھی! یہ درست ہے کہ انہیں سب کے سامنے‘ سرِ بازار‘ کچھ نہیں کھانا پینا چاہیے اور رمضان کا احترام کرنا چاہیے مگر ریستوران کے اندر‘ پردے کے پیچھے‘ انہیں خورو نوش سے روکنے کا حق ریاست کو کس قانون نے دیا ہے ؟ دبئی‘ مصر اور ترکی بھی مسلمان ممالک ہیں! یہ سطور لکھتے وقت ان ممالک میں رہنے والے دوستوں سے رابطہ کر کے پوچھا گیا ہے۔ریاست کی طرف سے ریستوران کھولنے پر کوئی پابندی نہیں۔ علاقے پر منحصر ہے۔ گاہک کم ہیں یا نہیں ہیں تو مالک بند رکھے گا وگرنہ نہیں!اکثر ریستوران کھلے ملتے ہیں۔ کسی مریض‘ بوڑھے‘ مسافر یا غیر مسلم کو دقت پیش نہیں آتی!
گھروں کے اندر بھی بیمار قسم کی نفسیات در آگئی ہے۔ جائز وجوہ کی بنا پر روزہ نہ رکھنے والا بھی اپنے آپ کو مجرم سمجھتا ہے۔ بہت سے بیمار اور بوڑھے قران پاک کی عطا کردہ اس اجازت کو‘ جو خدا کی نعمت ہے‘ قبول کرنے میں متامّل ہیں۔ ڈاکٹروں اور بچوں کے منع کرنے کے باوجود روزہ رکھتے ہیں اور اس طرح خود ہی اپنی بیماری اور ضعف میں اضافے کا سبب بنتے ہیں۔ ایّام کے دوران خواتین گھر کے کونوں کھدروں میں چھپ کرکھانا کھاتی ہیں جیسے چور ہیں یا مجرم!! کیا سفر کے دوران قصر نماز پڑھنے سے بھی ایسا ہی احساسِ جرم لاحق ہوتا ہے ؟ کیا ہم سفر کے دوران قصر کی نماز دوسروں سے چھپا کر پڑھتے ہیں؟ آخر دونوں رعایتیں ایک ہی کتابِ ہدایت میں دی گئی ہیں!!
ویسے منافقت کی انتہا ہے۔ رمضان آتے ہی ناجائز منافع خوری آخری حدوں کو چھونے لگتی ہے۔ بازار میں ہر شے کو آگ لگ جاتی ہے۔ جھوٹ‘ عہد شکنی‘ غیبت‘ قطع رحمی‘ تکبّر‘ حسد‘ بُخل‘ سازش‘ حُبِّ جاہ‘ حُبِّ مال روزہ رکھ کر بھی نہیں چھوٹتے۔ مگر اس بات کا اہتمام شد ومد سے کیا جاتا ہے کہ مسافر‘ بیمار‘ بوڑھے اور غیر مسلم کا پانی بھی بند کر دیا جائے اور روٹی بھی! ستم یہ ہے کہ اس دوغلے پن کا احساس تک نہیں۔ہم کب اپنے رویوں پر نادم ہوں گے؟ کب معافی مانگیں گے؟ کچھ دن ہوئے اعتبار ساجد کی غزل پڑھی اور دل دُکھ سے بھر گیا۔ چار اشعار آپ بھی سنیے :
میں جن کے دُکھ بٹا نہ سکا‘ اُن سے معذرت
میں جن کے کام آ نہ سکا‘ اُن سے معذرت
بیمار جن کو تھی مری آمد کی آرزو
میں اُن کے پاس جا نہ سکا‘ اُن سے معذرت
نادم ہوں جن کے کام‘ یہ کاندھے نہ آ سکے
جو میّتیں اُٹھا نہ سکا‘ اُن سے معذرت
مجھ سے ملے بغیر‘ جہاں سے چلے گئے
جن کو گلے لگا نہ سکا‘ اُن سے معذرت

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں