کل کی بات ہے۔ میں سبزی والے کی دکان سے باہر نکلا تو ایک بزرگ سامنے کھڑی ایک گاڑی میں بیٹھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ چھوٹا موٹا بزرگ اب میں بھی ہوں لیکن جن صاحب کی بات ہو رہی ہے وہ زیادہ بزرگ تھے اور ضُعف بھی ان پر غالب آرہا تھا۔ یہ جو کہا ہے کہ گاڑی میں بیٹھنے کی کوشش کر رہے تھے تو اس کا مطلب ہے کہ انہوں نے مشکل سے گاڑی کا دروازہ کھولا۔ پھر وہ کافی جدوجہد سے‘ بہت تکلیف سے‘ بہت دیر لگا کر‘ سیٹ پر بیٹھنے میں کامیاب ہوئے! میں یہ منظر دیکھتا آرہا تھا۔ جب وہ بزرگ بیٹھ چکے تو میں گاڑی کے پاس آچکا تھا۔ مجھے اُسی سمت جانا تھا۔ میں گاڑی کے پاس کھڑا ہو گیا۔ جو نوجوان ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا تھا‘ میں نے اس سے پوچھا کہ کیا آپ ان بزرگ کے صاحبزادے ہیں؟ مجھے کسی سے بات کرنے یا کچھ پوچھنے میں کبھی کوئی جھجھک محسوس نہیں ہوئی۔ گھر والے شاکی ہیں کہ میں جاتے جاتے پنگا لے لیتا ہوں۔ حالانکہ میں بات ہی تو کرتا ہوں اور اعوان ہونے کے باوجود کوشش کرتا ہوں کہ از حد نرمی سے بات کروں۔ یوں بھی حکم ہے کہ برائی کو ہاتھ سے نہیں تو زبان ہی سے روکنے کی کوشش کرو۔ جب آنکھوں کے سامنے ایک ناروا عمل صادر ہو رہا ہو تو کم از کم میں چپ نہیں رہ سکتا۔ بابے نے بھی یہی نصیحت کی تھی۔ بابے سے میری مراد شیخ سعدی ہیں۔
گر بینم کہ نابینا و چاہ است
اگر خاموش بنشینم‘ گناہ است
دیکھ رہے ہیں کہ اندھا چلا جا رہا ہے اور آگے کنواں ہے تو ایسے میں چپ رہنا گناہ ہے! ضروری نہیں کہ کنواں نظر آرہا ہو! ہمارے اردگرد بیشمار ایسے گڑھے‘ کھائیاں اور کنویں ہیں جو کچھ لوگوں کو نظر آتے ہیں مگر بہت سے لوگ انہیں دیکھنے سے قاصر ہیں! نہ دیکھ سکنے والوں کی مدد کرنا ان لوگوں پر فرض ہے جو دیکھنے کی اہلیت رکھتے ہیں!
نوجوان نے میرے سوال کا جواب اثبات میں دیا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ جب آپ کے والد بہت مشکل سے دروازہ کھول رہے ہیں اور ان کے لیے نشست پر بیٹھنا بھی سہل نہیں تو آپ اتنے آرام سے اپنی جگہ کیوں بیٹھے ہیں؟ آپ کو چاہیے کہ باہر نکل کر ان کے لیے گاڑی کا دروازہ کھولیں اور بیٹھنے میں ان کی مدد کریں۔ فوری ردِعمل جو نوجوان پر میری بات کا ہوا‘ کچھ کچھ مضحکہ خیز تھا۔ اس نے ہونقوں کی طرح منہ کھول لیا اور حیرت سے مجھے یوں دیکھنے لگا جیسے میں کوئی عجیب الخلقت انسان ہوں۔ ہاں! وہ بزرگ مجھے تحسین آمیز نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ میرا فرض ادا ہو گیا تھا۔ میں آگے بڑھ گیا!
ہماری جو اقدار ماضی میں تھیں‘ ان میں سے کچھ تو بہت انتہا پسندانہ تھیں مثلاً ماں باپ کی موجودگی میں بیوی سے بات کرنا معیوب سمجھا جاتا تھا مگر کچھ اقدار ایسی بھی تھیں جو قیمتی تھیں اور ضروری بھی! انہی میں سے ایک والدین اور اساتذہ کا احترام بھی تھا۔ والد گھر میں داخل ہوتا تھا تو بچے اٹھ کر کھڑے ہو جاتے تھے۔ وہ چارپائی پر بیٹھتا تو فوراً تکیہ پیش کیا جاتا۔ اس کے ساتھ چارپائی پر بیٹھنا ہوتا تو ادوائن والی سائیڈ پر بیٹھتے۔ دسترخوان پر کھانا وہ شروع کرتا‘ باقی اس کی پیروی کرتے۔ وہ کھڑا ہوا ہوتا تو ممکن ہی نہ تھا کہ کوئی بیٹھ جائے! بڑھاپے میں اسے اٹھانا‘ بٹھانا‘ اس کے پیروں میں جوتے پہنانا‘ اسے وضو کرانا‘ اس کے سر پر تیل کی مالش کرنا‘ ہماری ثقافت کا وہ حصہ تھا جو قابلِ فخر تھا۔ باپ یا ماں کو قے آتی یا کوئی اور مسئلہ ہوتا تو اپنے ہاتھوں سے صفائی کرتے۔ بازار ایک بار نہیں‘ کئی بار بھیجا جاتا تو بیٹا اُف تک نہ کرتا۔ باپ تو باپ ہے‘ چچا‘ ماموں اور بڑے بھائی کے ساتھ بھی اسی طرح پیش آیا جاتا۔ آج معاملات اپنی صورت بدل چکے ہیں! میں نے اپنے پندرہ سالہ نواسے سے کہا کہ آپ کے بابا جب بھی گھر میں یا کمرے میں داخل ہوں‘ آپ کھڑے ہو جایا کیجیے۔ اُس نے حیرت سے پوچھا کہ نانا ابو‘ کیا ہر بار ایسا کرنا ہوگا؟ میں نے کہا کہ ہاں! ہر بار! اب معاشرے کی حالت یہ ہو چکی ہے کہ باپ گھر میں داخل ہوتا ہے تو صوفے پر نیم دراز بیٹا اُٹھنا تو دور کی بات ہے‘ اُس کی آمد کا نوٹس تک نہیں لیتا۔ باپ سامان اٹھاتا ہے‘ کپڑے استری کرتا ہے‘ جوتے پالش کرتا ہے‘ سودا سلف لینے بازار کا رخ کرتا ہے‘ گاڑی صاف کرتا ہے تو بہت کم گھروں میں بیٹا‘ یا بیٹے‘ فوراً اُٹھ کر اس کے ہاتھ سے وہ کام لے لیتے ہیں! زیادہ تر نوجوان اولاد اسے کام کرتے دیکھتی ہے مگر بے نیاز رہتی ہے!
تارکینِ وطن اس حوالے سے زیادہ نقصان میں ہیں! ایک پاکستانی بچے کو‘ جو دس برس کا ہے‘ اس کی ماں نے موبائل پر ایک خاص ایپ استعمال کرنے سے منع کیا تو اس کے انگریز ہم جماعت نے اسے کہا کہ موبائل فون تمہارا ہے۔ تمہاری ماں کس طرح منع کر سکتی ہے۔ باپ کو ''اولڈ مین‘‘ کہنا وہاں عام رواج ہے۔ ماں باپ اور اولاد کا باہمی رشتہ ان ملکوں میں ہمارے ہاں سے مکمل طور پر مختلف ہے۔ سرد مہری کی ابتدا وہاں ماں باپ کرتے ہیں۔ بچوں کی اعلیٰ تعلیم میں ماں باپ کا مالی حصہ اکثر و بیشتر صفر ہوتا ہے۔ بچے حکومت سے قرض لیتے ہیں یا خود بندوبست کرتے ہیں۔ لڑکی یا لڑکا سولہ سال کا ہو جائے تو ماں باپ کو گھر میں کھَلنے لگتا ہے۔ وہ اپنے دوستوں اور رفقائے کار کے سامنے اپنے بچوں کی غیبتیں کرتے ہیں کہ جان نہیں چھوڑ رہے۔ ماں باپ کی بچوں کے ساتھ جذباتی وابستگی ہوتی ہے نہ بچوں کی ماں باپ کے ساتھ۔ یہ درست ہے کہ ایسا سو فیصد خاندانوں میں نہیں ہوتا مگر اکثر خانوادوں میں یہی صورتِ حال ہے۔ مقامی اولاد جو رویہ اپنے ماں باپ کے ساتھ روا رکھتی ہے‘ تارکینِ وطن کے بچے اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ جن دوستوں کے ساتھ وہ کلاس روم میں بیٹھتے ہیں یا کھیل کے میدان میں ہوتے ہیں‘ ان سے متاثر ہونا فطری امر ہے۔ ماں باپ گھر میں جو کچھ سکھاتے ہیں‘ اس کا اثر اکثر و بیشتر بیرونی عوامل کے سبب زائل ہو جاتا ہے۔
انٹرنیٹ اور اس کے بعد بے مہار سوشل میڈیا نے معاشرتی پیش منظر کو مکمل طور پر تبدیل کر دیا ہے۔ سوشل میڈیا ایک سمندر ہے! بحر الکاہل اور بحر اوقیانوس سے بڑا سمندر! بچے اس کھلے سمندر میں ایک تختے پر بیٹھے ہیں۔ تختہ لہروں کے رحم و کرم پر ہے۔ بچے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ زندگی زبردست ہے۔ اس میں آزادی ہے اور ایڈونچر! ماں باپ انہیں تختے سے ہٹا کر محفوظ کشتی میں بٹھانا چاہتے ہیں مگر وہ ماں باپ کی مداخلت کو ناپسند کرتے ہیں۔ اس کے باوجود ماں باپ کا فرض ہے‘ پاکستان میں بھی اور پاکستان سے باہر بھی کہ اپنی اقدار‘ اپنے کلچر اور اپنی صحت مند روایات سے بچوں کو آشنا کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں! اور بچوں کو اُس راستے پر چلنے سے نرم گفتاری اور پیار کے ساتھ روکیں جس کے آخر میں باغ نہیں‘ بے آب و گیاہ دشت ہے!
اور آخری بات۔ صدیوں کا تجربہ اور مشاہدہ بتاتا ہے کہ ماں باپ کے ساتھ جو رویہ رکھا جائے‘ وہ پلٹ کر واپس آتا ہے! بابا پھر یاد آرہا ہے:
ہر آنکہ تخمِ بدی کشت و چشمِ نیکی داشت
دماغِ بیہدہ پْخت و خیالِ باطل بست
بیج برائی کا بونا اور امید اچھائی کی رکھنا! مجذوب کی بڑ کے سوا کچھ نہیں!!