یہ اُن دنوں کی بات ہے جب مزدوری کے سلسلے میں اسلام آباد سے لاہور آنا جانا لگا رہتا تھا۔ ایک بار لاہور گیا تو یارِ دیرینہ ملک فرخ یار سے بھی‘ جو وہیں تعینات تھے‘ ملاقات طے ہوئی۔ ملک فرخ یار بلند منصب بینکار ہیں۔ جدید نظم میں منفرد مقام رکھتے ہیں اور پنجاب کی ثقافتی تاریخ‘ خاص طور پر‘ ذاتوں اور برادریوں پر اتھارٹی ہیں۔ طے یہ ہوا کہ میں ایک دوست کے دفتر میں‘ جو بڑے افسر تھے‘ ملک صاحب کا انتظار کروں گا۔ملک صاحب آئے تو میرے دوست نے‘ آؤ دیکھا نہ تاؤ‘ ان کے سامنے ہاتھ رکھ دیا۔ معلوم نہیں اسے یہ تاثر کیسے ملا کہ ملک صاحب پامسٹ ہیں۔ملک صاحب بھی فوراً پامسٹ بن گئے اور ایسی ایسی باتیں نکالیں اور پیشگوئیاں کیں کہ بڑے صاحب مرعوب بھی ہوئے اور خوش بھی!
جس طرح میرے دوست کو غلط فہمی ہوئی کہ ملک فرخ یار پامسٹ ہیں‘ ٹھیک اسی طرح بزدار صاحب کو بھی میرے بارے میں غلط فہمی ہوئی کہ میں عقل مند آدمی ہوں اور لوگوں کو ان کے کیریئر اور مستقبل کے بارے میں مشورے دیتا ہوں؛چنانچہ جب ایک مشرکہ دوست کی وساطت سے نعمان بزدار صاحب نے رابطہ کیا تو ملک فرخ یار صاحب ہی کی طرح میں بھی فوراً عقلمند آدمی بن گیا۔میں نے اپنے بارے میں کوئی وضاحت کی نہ یہ بتایا کہ وہ غلط جگہ تشریف لائے ہیں۔ اس سے پہلے کہ وہ اپنے مسائل بیان کرتے‘ میں نے ان سے اجازت چاہی کہ کچھ سوالات‘ اپنی ایجوکیشن اور جنرل نالج کے لیے‘ پو چھ لوں! ماشا اللہ بہت ہنس مکھ طبیعت کے مالک ہیں۔ مزاج میں سادگی اور درویشی ہے۔ فرمایا: ضرور پوچھیں! میں نے استفسار کیا کہ آپ خان کے کرکٹ کے ساتھی تھے نہ پی ٹی آئی کی تاریخ میں آپ کا نام آتا ہے۔ پھر یہ اتنا لمبا ہاتھ کیسے مارا؟ آدھے سے زیادہ ملک آپ کی جھولی میں ڈال دیا گیا۔ بزدار صاحب مسکرائے۔ کہنے لگے: یہ تو سچ ہے کہ جھولی میں ڈال دیا گیا مگر یہ بھی سچ ہے کہ جھولی کسی اور کی تھی! میری تو خان سے ملاقات تک نہ تھی۔ یہ سارا کمال تو جمال گجر صاحب کا تھا۔ وہی مجھے اس طلسمی حویلی میں لے کر گئے جہاں مناصب بانٹے جا رہے تھے۔ میری کیا اہمیت تھی! میں تو کسی اور کو اصل بادشاہ بنانے کے لیے جعلی بادشاہ بنایا گیا تھا۔ بقول غالب:
ہم کہاں کے دانا تھے‘ کس ہنر میں یکتا تھے
بے سبب ہوا غالبؔ دشمن آسماں اپنا
بزدار صاحب رُکے‘ مسکرائے‘پھر کہا کہ پیٹ میں درد انہی کو ہوتا ہے جو گاجریں کھاتے ہیں۔ جنہوں نے گاجریں کھائیں وہ پیٹ کے درد سے بچنے کے لیے سپیشل جہاز میں سوار ہو کر بیرونِ ملک سدھار گئے۔میں تو صرف گاجریں دھو نے کے بعد پلیٹ میں رکھتا تھا۔
پھر کہنے لگے کہ خان کی حکومت آیا چاہتی ہے۔ الیکشن ہونے ہی ہونے ہیں۔ اور الیکشن میں دو تہائی اکثریت خان ہی کو ملے گی۔ پنجاب میں اب میری سربراہی کا کوئی امکان نہیں۔ میں نے پوچھا یہ آپ اتنے یقین سے کیسے کہہ سکتے ہیں ؟ بزدار صاحب نے جواب دیا کہ یہ تو ظاہر ہے! جن صاحب کو پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو کا خطاب دیا گیا تھا‘ وہ اب پارٹی کے بھی انچارج ہیں۔میں تو ان کے مقابلے میں چھوٹا ڈاکو بھی نہیں! ویسے منطقی طور پر بھی حق انہی کا ہے۔ وہ شریفوں کا مقابلہ کرنے کی زبردست صلاحیت رکھتے ہیں! میں نے پوچھا تو پھر آپ اپنے آپ کو مستقبل میں کہاں دیکھتے ہیں؟ انہوں نے بر جستہ جواب دیا کہ مرکز میں۔اور یہی مشورہ کرنے آپ کے پاس آیا ہوں کہ وفاق میں کون سی وزارت لوں؟ میں نے پوچھا آپ کا اپنا رجحان کس طرف ہے! اب بزدار صاحب شرمائے اور کہا :میری دلچسپی تو وزارتِ خزانہ میں ہے۔ میں سمجھ گیا کہ بزدار صاحب کو وزارتِ خزانہ میں نہیں‘ خزانے میں دلچسپی ہے۔ وزارتِ خزانہ کے بارے میں ان کا تصور شاید یہ ہے کہ وہاں ڈالروں روپوں اور سونے چاندی کی شکل میں خزانہ مقفل پڑا ہے اور چابی اس کی وزیر خزانہ کی جیب میں ہوتی ہے۔میں نے اصل حقیقت تو نہ بتائی کہ ان کا یہ تصور مجروح نہ ہو۔ہاں یہ کہا کہ یہ گھاٹے کی وزارت ہو گی۔ مہنگائی کا گراف ہمیشہ اوپر جاتا ہے۔ عوام وزیر خزانہ کو مطعون کرتے ہیں۔ڈالر مہنگا ہو تو وزیر خزانہ کی طرف انگلیاں اٹھتی ہیں۔آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات بھی کرنے ہوتے ہیں! بزدار صاحب قائل ہو گئے۔ دوسرا چوئس ان کا وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی تھی۔ میں نے سبب پوچھا تو کہا کہ پورے جنوبی پنجاب میں سائنس اور ٹیکناجی کو پھیلا دوں گا۔ بڑی مشکل سے انہیں قائل کیا کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے بیج نہیں ہوتے جو آپ پھیلا دیں۔ اس میں بہت تکنیکی مسائل ہوتے ہیں۔ اچانک مجھے یاد آیا کہ2018ء میں حکومت سنبھالنے سے پہلے خان صاحب نے جنوبی پنجاب کو الگ صوبے کا درجہ دینے کا پکا وعدہ کیا تھا۔ یہ وعدہ ہوا میں تحلیل ہو گیا۔ بزدار صاحب سے اس کا سبب پوچھا تو ہنس کر کہنے لگے کہ الگ صوبہ بنتا تو میری چیف منسٹری کی حدود سکڑ جاتیں۔یعنی جنوبی پنجاب کا صوبہ بننے میں رکاوٹ بزدار صاحب تھے۔ مجھے یقین نہ آیا۔میں نے کہا کہ آپ تو برائے نام چیف منسٹر تھے۔ اصل طاقت تو کہیں اور تھی۔ پھر آپ اتنے طاقتور کیسے ہو گئے کہ صوبہ نہ بننے دیا؟ کہنے لگے: انہی اصل طاقتوں کے ذریعے نہ بننے دیا!‘ اصل طاقت جو خفیہ‘ نہفتہ‘ ہے۔ اس کے اشارۂ ابرو کے بغیر صوبہ تو کیا بنتا‘ پتّا بھی نہیں ہل سکتا تھا۔ بس اس تک میری رسائی تھی۔
بہت سوچ بچار کے بعد میں نے بزدار صاحب کو مشورہ دیا کہ ان کے لیے وزاتِ خارجہ سب سے زیادہ مناسب وزارت ہو گی۔ یہی ان کا اصل میدان ہے۔ یہیں ان کی تقریر و تحریر کی صلاحیتیں بدرجہ اتم بروئے کار آئیں گی۔ بلاول‘ حنا ربانی کھر‘ شاہ محمود قریشی اور دیگر سابق وزرائے خارجہ کو لوگ بھول جائیں گے۔یہ درست ہے کہ انہوں نے‘ ایک روایت کے مطابق‘ ایک بار پوچھا تھا کہ یورپی یونین کون سا ملک ہے مگر وزیر خارجہ کے لیے ایسی چیزوں کا جاننا اتنا ضروری بھی نہیں! بزدار صاحب کے چہرے پر اطمینان کی لہر دوڑتی ہوئی صاف نظر آرہی تھی۔ صاف ظاہر تھا کہ انہیں میرا مشورہ صائب لگا تھا۔ کہنے لگے‘ سائیں! میں اسی کے لیے کوشش کروں گا۔ کوشش کیا‘ اصل طاقت جس تک پہنچنے کے لیے میرے پاس طلسمی زینہ موجود ہے‘ ان شاء اللہ میرے بارے میں ہی فیصلہ کر ے گی۔ بس ایک دو مسائل ہیں‘ وزارت خارجہ سے متعلق‘ وہ مجھے سمجھا دیجیے! میں نے کہا کہ بصد شوق پوچھئے۔ پوچھا کہ ایک لفظ میں اکثر سنتا ہوں Continent یہ کون سا ملک ہے؟ میں نے بتایا کہ ایک کنٹی نینٹ میں بہت سے ملک ہوتے ہیں! پھر بزدار صاحب نے پوچھا تو پھر یہ ''تمام کانٹی نینٹ‘‘ کیا ہوتے ہیں؟ میں سوچ میں پڑ گیا۔ اچانک روشنی میرے دماغ پر اتری۔ میں سمجھ گیا وہ subcontinent کی بات کر رہے ہیں! چنانچہ میں نے انہیں برصغیر کے بارے میں سمجھایا! ان کا آخری استفسار سن کر میں بے اختیار ہنس پڑا مگر فوراً سنبھل گیا۔ انہوں نے پوچھا سائیں! یہ سارک کون سا ملک ہے۔ میں نے نقشے پر بہت ڈھونڈا مگر نظر نہیں آیا!
اگر خان کو حکومت ملی تو بزدار صاحب ہی ہمارے وزیر خارجہ ہوں گے! اگر وہ آدھے سے زیادہ پاکستان چلا سکتے ہیں تو گجر صاحب انہیں وزیر خارجہ بھی بنوا سکتے ہیں! گجر صاحب اصل طاقت تک رسائی رکھتے ہیں!