مشکل سے بارہ تیرہ سال کا ہو گا یہ لڑکا! بوسیدہ سی شلوار قمیض پہنے‘ پیروں میں ہوائی چپل اڑسے‘ بائیسکل پکڑے میرے گھر کے سامنے سے گزر رہا تھا۔ اتفاق تھا یاتقدیر کا اہتمام! عین اُس وقت میں اپنے دروازے کے پاس کھڑا تھا۔ وہ میری طرف آیا اور پوچھا سر ! ردّی ہے آپ کے ہاں بیچنے کے لیے ؟ یا لوہے یا ایلومینیم کے پرانے برتن ؟ میں نے کہا ‘تم انتظار کرو میں گھر والوں سے پوچھتا ہوں! کچھ ردی تھی جو اس نے ہمارے ہاں سے خریدی کچھ لوہے کی پرانی چیزیں! میں نے اسے کھانے کے لیے بٹھایا۔اس دن ماش کی دال پکی تھی۔اس نے رغبت سے کھانا کھایا۔ ٹھنڈا پانی پیا۔ اس دوران میں اس سے باتیں کرتا رہا۔باپ ڈرائیور تھا۔ پچیس ہزار ماہانہ اس کی تنخواہ تھی۔ لڑکے کے دو بھائی اور تھے جو اس سے چھوٹے تھے اور ایک بہن۔ گھر اپنا نہ تھا۔ بری امام کے علاقے میں ایک کمرہ تھا جس میں یہ پورا کنبہ رہائش پذیر تھا۔ ایک بلب اور ایک پنکھا تھا۔ گیس نہیں تھی۔ بچے کی ماں مختلف گھروں میں کام کرتی تھی۔ بچے کے عزم صمیم پر حیرت ہوئی۔ کہنے لگا :میں تو سکول نہیں گیا۔ اپنے چھوٹے بھائیوں کو پڑھاؤں گا۔
یہ وہی دن تھا جس دن آئین کی گولڈن جوبلی کا جشن منایا جا رہا تھا۔ریاست کو چاہیے تھا کہ یہ بچہ ‘ جو‘ گلی گلی پھر کر ‘ ردی خرید رہا تھا اس بچے کو اور اس جیسے ہزاروں لاکھوں بچوں کو بھی بلا کر جشن میں شریک کرتی۔ شاید ریاست کو اور حکومت کو کچھ شرم آتی۔ خود آئین کیا کہتا ہے ؟ پہلا باب بنیادی حقوق کا ہے۔ شق نمبر 25 اے میں لکھا ہے '' ریاست پانچ سال سے لے کر سولہ سال تک کے تمام بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم مہیا کرے گی...‘‘۔
ریاست کے اربابِ بست و کشاد جشن مناتے ہوئے اتنا تو مانتے کہ وہ اس آئین کی شق پر عمل کر سکے نہ آئندہ عمل کرنے کی امید ہے! جشن کی تقریروں میں ان آسودہ حال عمائدین پر لازم تھا کہ قوم کو بتاتے کہ ملک میں پانچ سال سے لے کر سولہ سال تک کے کتنے بچے سکولوں سے باہر ہیں! کتنے برتن مانجھ رہے ہیں۔کتنے ورکشاپوں میں '' چھوٹے ‘‘ بن کر بڑوں کے ناقابلِ بیان ظلم برداشت کر رہے ہیں! کتنے لوگوں کے گھروں میں کام کر رہے ہیں اور سفاک بیگمات سے پِٹ رہے ہیں۔ کتنے خاک آلود گلیوں میں غبارے اور آئس کریم بیچ رہے ہیں ؟کتنوں کے بازو اور ٹانگیں توڑ کر ان سے بھیک منگوائی جا رہی ہے ؟ آئین کا جشن منانے والے پورے ملک کے بھکاریوں کی تعداد بھی تو بتائیں! اور کیا آئین میں اُن بچوں کا بھی ذکر ہے جو مویشیوں کو ہانکتے ہیں۔ اور ان بچوں کا بھی جو جاگیرداروں کی حویلیوں میں حقے سلگاتے ہیں‘ٹانگیں دباتے ہیں اور کتے نہلاتے ہیں۔
آئین کی شق اکتیس کا عنوان ہے '' اسلامی طریق زندگی‘‘۔ اس شق میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ایسے اقدامات کیے جائیں گے جو پاکستانی مسلمانوں کو‘ انفرادی اور اجتماعی طور پر‘ اس قابل بنائیں کہ وہ اپنی زندگیاں اسلام کے بنیادی اصولوں اور تصورات کے مطابق ڈھال سکیں‘‘۔آئین کی گولڈن جوبلی کے جشن میں اس شق کی کامیابی یا ناکامی کا تذکرہ ضرور کرنا چاہیے تھا۔ چند دن پیشتر ایک غیر مسلم سینیٹر‘ ڈینش کمار‘ نے ایوانِ بالا میں کہا ہے کہ رمضان کے مقدس مہینے میں کھانے پینے کی اشیا کی حد سے زیادہ گرانی باعثِ شرم ہے۔ ڈینش کمار نے للکار کر کہا کہ اسے تبلیغ کی جاتی ہے کہ وہ کلمہ پڑھے اور مسلمان ہو جائے لیکن پہلے ان شیطانوں کو تو کلمہ پڑھائیں جو ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں اور ناروا نفع خوری کا ارتکاب کرتے ہیں!کون سے اقدامات اور کون سا اسلامی طریقِ زندگی؟ ایک غیر مسلم کو ایک بڑے پاکستانی شہر میں مسلمان دکانداروں نے اس لیے موت کے گھاٹ اتار دیا کہ اس نے رمضان میں چیزیں سستی کر دی تھیں! آئین کی شق اکتیس نے یہ کیسا اسلام نافذ کیا ہے کہ ادھر رمضان اور عید کی آمد آمد ہوتی ہے ‘ اُدھر خوراک ‘ کپڑے اور جوتے فروخت کرنے والوں کے چہرے بگڑ کر مسخ ہو جاتے ہیں۔ وہ چیرنے پھاڑنے والے وحشی جانور بن جاتے ہیں۔ان کے ہاتھ پنجے بن جاتے ہیں۔ ناخن کئی کئی انچ بڑھ جاتے ہیں تا کہ شکار کو دبوچنے میں آسانی ہو۔
آئین کی شق 35کا تو آئین کی گولڈن جوبلی سے خاص تعلق ہے۔ اس شق کی رُو سے ریاست نے شادی‘ خاندان ‘ عورت اور بچے کی حفاظت کرنی تھی۔ لمبی چوڑی شق 37 کا عنوان ملاحظہ فرمائیے ''سماجی انصاف کی ترقی اور معاشرتی برائیوں کا استیصال !‘‘ ایسے لگتا ہے کہ کارو کاری‘ ونی‘ اسوارہ‘ زبردستی کی شادیاں اور عورتوں کی مار پیٹ کا شمار معاشرتی برائیوں میں ہوتا ہی نہیں! بیٹی پیدا کرنے پر عورت کو زدو کوب کیا جاتا ہے‘ گھر سے نکال دیا جاتا ہے‘ طلاق دے دی جاتی ہے۔لڑکیوں کو تعلیم کے حصول سے زبردستی روکا جاتا ہے۔ گولڈن جوبلی کے جشن میں بلوچستان کے اس حالیہ واقعے کا ذکر کیوں نہیں کیا گیا جس میں ایک سردار صاحب کے نجی عقوبت خانے میں قید خاندان پر ستم کے پہاڑ توڑے گئے۔ایک بچی کی لاش کنوئیں سے نکلی۔ مگر یہی سردار تو منتخب ایوانوں میں بیٹھ کر آئین کی ''حفاظت‘‘ کرتے ہیں!!
آئین کی چھتیسویں شق '' اقلیتوں ‘‘ کا ذکر کرتی ہے۔ ان کے حقوق اور مفادات کی حفاظت کا ذکر ہے! سوال یہ ہے کہ اگر‘ شق 25 کی رُو سے ‘ مملکت کے سب شہری برابر ہیں تو کچھ شہریوں کے گلے میں اقلیت کا بورڈ کیوں لٹکا یا گیا ہے؟ اگر سب کی قومیت پاکستانی ہے تو اقلیت اور اکثریت کا جھگڑا کیوں ہے؟ کچھ عرصہ پہلے وفاقی دارالحکومت میں ایک عبادت گاہ کی تعمیر پر جو ہنگامہ ہوا اور جو کھیل کھیلا گیا ‘ اس کا ذکر آئین کے اس شان و شوکت والے جشن میں کیوں نہیں کیا گیا! اور یہ کیوں نہیں بتایا گیا کہ ہر بار ایک غیر مسلم لڑکی ہی کیوں اسلام '' قبول‘‘کرتی ہے؟ مرد کیوں نہیں کرتے؟
بڑے طمطراق سے میڈیا نے بتایا کہ جن زعما نے یہ آئین بنایا تھا آج ان کی دوسری اور تیسری نسل اس آئین کی گولڈن جوبلی منا رہی ہے۔ کسی کا پوتا‘ کسی کا نواسا‘ کسی کا داماد! گویا تیسری نسل اس وقت اقتدار میں ہے اور آئین جو کچھ ان بھوکے ننگے قلاش بد حال عوام کو مہیا کرنے کی بات کرتا ہے‘ وہ ابھی تک بات سے آگے نہیں بڑھ سکا! ایک طرف آٹا لینے کی جد و جہد کے دوران مرجانے والوں کی لاشیں پڑی ہیں دوسری طرف گولڈن جوبلی کے جشن منائے جا رہے ہیں! یہ آئین نافذ کب ہو گا! آئین کو کاغذ کا ایک ٹکڑا کہہ کر اس کی توہین کرنے والا اپنے انجام کو پہنچ چکا۔ یاد رکھیے کہ آئین کی تمام شقوں کو عملی جامہ نہ پہنانا بھی آئین کی توہین ہے! یہ توہین بھی اپنا انتقام لے سکتی ہے! دنیا کو تو چھوڑیے‘ جنوبی ایشیا میں بھی ہم کہاں کھڑے ہیں! میرؔ نے یہ نوحہ گری شاید ہمارے لیے ہی کی تھی:
زار رونا چشم کا کب دیکھتے
دیکھیں ہیں لیکن خدا جو کچھ دکھائے
جو لکھی قسمت میں ذلت ہو سو ہو
خطِ پیشانی کوئی کیونکر مٹائے
وضاحت:گزشتہ کالم میں یہ شعر صائب تبریزی سے منسوب کیا گیا تھا
سبحہ بر کف‘ توبہ بر لب‘ دل پُر از شوقِ گنہ
معصیت را خندہ می آید بر استغفارِ ما
کراچی یونیورسٹی کے شعبہ فارسی کی پروفیسر ڈاکٹر فائزہ زہرا مرزا نے ہماری رہنمائی کرتے ہوئے بتایا کہ یہ شعر اصل میں قُدسی مشہدی کا ہے۔