آج گھر کی چھت پڑنی تھی۔
چند اعزّہ اور احباب کو بلایا ہوا تھا۔ کھانے کا بھی بند و بست تھا۔ صبح نو بجے تک مستری اور مزدوروں نے پہنچ جانا تھا مگر کوئی بھی نہ آیا۔ جب سے مکان کی تعمیر شروع ہوئی‘ لیبر کا یہی رویہ رہا۔ عید آئی تو ہر ایک نے عیدی وصول کی اور پھر کئی ہفتے غائب رہے۔ کبھی کسی کا چچا انتقال کر جاتا کبھی پھوپھی کا میاں! کبھی فصل کاٹنے کی وجہ سے غیر حاضری ہوتی کبھی کسی کے والد کی برسی آجاتی۔ جو مکان آٹھ دس مہینوں میں بن سکتا تھا اس کی تکمیل میں ڈیڑھ سال سے زیادہ کا عرصہ لگ گیا۔
یہ تجربہ چند افراد کا نہیں‘ بے شمار لوگوں کا ہے۔ لیبر ڈے ہر سال منایا جاتا ہے مگر جو لوگ اس لیبر کے ہاتھوں یرغمال بنے ہوئے ہیں‘ ان کا کوئی ڈے نہیں منایا جاتا۔ ایک دوست کا مکان زیرِ تعمیر تھا۔ ان کے شٹرنگ والے بندے نے کہا کہ اسے گاؤں جانا ہے کیونکہ اس کی ماں کو کینسر ہے۔ ہمارے دوست نے اسے گاؤں آنے جانے کا کرایہ دیا‘ اب تک جو رقم مزدوری اور معاوضے کی بن رہی تھی‘ وہ بھی ادا کی اور اس کے علاوہ کچھ ایڈوانس بھی دیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ کینسر اور گاؤں جانے کی کہانی جھوٹی تھی۔ وہ ساتھ والے محلے میں کسی اور مکان پر کام کرتا رہا۔ سزا کے طور پر اسے انہوں نے فارغ کر دیا مگر شٹرنگ والوں کا ایکا اتنا تھا کہ کسی نے بھی انہیں شٹرنگ مہیا نہ کی۔
آپ کے موبائل میں ایک ہی سم ہو گی مگر آپ کے ڈرائیور اور ملازم کے پاس دو یا تین سمیں ہوں گی۔ ایک صاحب‘ جو تعمیر کے شعبے میں ہیں‘ رو رہے تھے کہ یہ لوگ سارا سارا دن بیٹھے فون کرتے رہتے ہیں ''اور پھر سناؤ کیا حال ہے‘‘ یہ وہ ضروری بات ہے جو یہ پہروں کرتے رہتے ہیں۔ اگر آپ ڈرائیور کے محتاج ہیں تو پھر یوں سمجھیے جیسے وہ آپ کا مالک ہے اور آپ اس کے ملازم ہیں۔ گھریلو بلی کے بارے میں ماہرینِ نفسیات کی رائے ہے کہ وہ گھر والوں کو اپنا ملازم سمجھتی ہے اور اگر ان سے کوئی کوتاہی ہو جائے تو اسے غصہ آتا ہے۔ غصے کا اظہار کبھی وہ میز سے یا کچن کے کاؤنٹر سے چیزیں نیچے گرا کر کرتی ہے یا ضرورت کے وقت اپنے مخصوص ''بیت الخلا ‘‘ میں نہیں جاتی۔ ڈرائیور کی بھی کم و بیش یہی نفسیات ہے۔ ایک ڈرائیور نے آکر پہلے دن اعلان کیا کہ ٹھیک گیارہ بجے اسے چائے پینی ہوتی ہے۔ اس کے حکم کی تعمیل ہوتی رہی۔ صرف ایک دن گھر میں کوئی ہنگامہ تھا‘ شاید کسی بچے کا عقیقہ‘ کہ چائے اسے دیر سے ملی۔ اس نے گاڑی کی چابی پھینکی اور چلا گیا۔ ان حضرات کی خاص ٹیکنیک یہ ہے کہ جس دن غیر حاضر رہنا ہو‘ اپنا فون بند کر دیتے ہیں۔ آپ نے دوسرے شہر کا سفر کرنا ہے۔ صبح سے تیار بیٹھے ہیں۔ ڈرائیور نہیں پہنچا۔ گھنٹے گزر جاتے ہیں۔ فون بند ملتا ہے۔ دوسرے دن فون بند رہنے کی وضاحت یہ ملتی ہے کہ بیٹری ختم ہو گئی تھی۔ اگر پوچھیں گے کہ بھئی! نہیں آنا تھا تو بتا تو دیتے! اس شکوے کا مستقل جواب یہ ہوگا کہ بیلنس نہیں تھا!
یہ تو وہ لیبر ہے جو گھروں میں کام کرتی ہے۔ رہی وہ لیبر جو پی آئی اے‘ سٹیل مل اور ریلوے جیسے عظیم الجثہ اداروں میں کام کرتی ہے‘ تو وہ اتنی طاقتور ہے کہ ان اداروں کو چلنے دیتی ہے نہ بیچنے دیتی ہے۔ اعظم سہگل پی آئی اے کے واحد چیئرمین تھے جنہوں نے اخلاقی جرأت دکھائی اور بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے تسلیم کیا کہ پی آئی اے کی انتظامیہ‘ عملاً یونینوں کے ہاتھ میں یر غمال بنی ہوئی ہے۔ اس بے بسی کی سب سے بڑی مثال پی آئی اے میں جہازوں کی تعداد اور فی جہاز افرادی قوت کا تناسب ہے۔ جہاں چار ہزار افراد کی ضرورت ہے وہاں اٹھارہ ہزار لوگ تنخواہ لے رہے ہیں۔ چیئرمین نے یہ اعتراف بھی کیا کہ انتظامیہ کارکردگی کی بنیاد پر کسی ملازم کو منتخب کر سکتی ہے نہ ہی نکال سکتی ہے۔ تفتیش کے بعد کسی کے خلاف ایکشن نہیں لیا جا سکتا۔ جو ملازم ہڑتال میں ملوث تھے‘ ان کے خلاف کارروائی کر کے انہیں نکالا گیا مگر کچھ دنوں بعد آہستہ آہستہ سب اپنی اپنی سیٹوں پر واپس بیٹھ گئے۔
سرکاری دفتروں کے کلرک‘ ڈرائیوراور نائب قاصد اپنی حالتِ زار پر بہت کڑھتے ہیں اور واویلا بھی مچاتے ہیں مگر یہ سرکار ہی ہے جو ان کی ''کارکردگی‘‘ کو برداشت کیے جا رہی ہے۔ لاہور اور پنڈی اسلام آباد کے سرکاری محکموں کے ملازمین اپنے دفتری اوقات میں لاء کالجوں اور ہومیو پیتھی کالجوں کی کلاسیں اٹینڈ کرتے ہیں۔ پنڈی کے ایک معروف صراف کی متعدد دکانوں میں کم از کم دس بارہ سرکاری ملازم دن کے وقت ملازمت کرتے تھے۔ جب ان لوگوں پر ہاتھ ڈالا جاتا تھا تو یونین حرکت میں آجاتی تھی اور منت سماجت‘ دھمکی‘ بلیک میلنگ سمیت ہر حربہ آزمایا جاتا تھا۔ یہ گزشتہ ہفتے کی بات ہے۔ ہمارے ایک دوست کا ایک پِک اپ والے سے جھگڑا ہو گیا۔ جب بات بڑھ گئی تو پک اَپ کے ڈرائیور نے دھمکی دی کہ وہ سرکاری ملازم ہے اور اس کا کچھ نہیں بگاڑا جا سکتا۔ یہ دوپہر کا وقت تھا۔ معلوم ہوا کہ وہ وفاقی وزارتِ خزانہ کا ملازم ہے مگر دن بھر‘ دفتر سے غیر حاضر رہ کر‘ پرائیویٹ گاڑی چلاتا ہے۔ ہمارے دوست پروفیسر معظم منہاس مرحوم نے ایک ڈرائیور رکھا۔ نئے مہینے کی یکم اور دو تاریخ کو وہ غائب ہو گیا۔ تیسرے دن آیا تو پوچھنے پر کہنے لگا کہ تنخواہ لینے گیا تھا۔ معلوم ہوا کہ وہ اسلام آباد میں واقع ایک معروف سرکاری محکمے کا باقاعدہ ملازم ہے۔ طویل عرصے سے پرائیویٹ کام کر رہا ہے اور سرکار سے ماہانہ تنخواہ بھی لے رہا ہے۔ ظاہر ہے دفتر میں کوئی اس کی پشت پر ہوگا۔ یہ ہے وہ لیبر جو ہائے وائے کا شور مچاتی ہے اور لیبر ڈے پر ہر یکم مئی کو اس کی تالیفِ قلب کے لیے ملک بھر میں چھٹی بھی کی جاتی ہے۔
لیبر کے نام سے اکثر و بیشتر ہمارے ذہن میں وہ مزدور آتا ہے جو زیرِ تعمیر مکان میں اینٹیں ڈھو رہا ہے یا بجری بھری بالٹیاں اٹھا رہا ہے یا وہ مزدور جو کارخانے یا فیکٹری میں کام کر رہا ہے۔ یہ سب اصلاً طاقتور افراد ہیں۔ یہ سب اپنی مرضی کے مطابق کام کرتے ہیں۔ ایک معروف صنعتی شہر میں ایک فیکٹری منیجر کو جس طرح ہلاک کیا گیا‘ اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ یہ نام نہاد مزدور کتنے طاقتور ہیں۔ وہ منیجر ڈسپلن کے معاملے میں سختی برتتا تھا اور اس کا اصل ''جرم‘‘ یہ تھا کہ وہ کام صحیح کرتا تھا اور کراتا تھا! لیبر اور غیر لیبر کا فرق مصنوعی ہے اور دھاندلی پر مشتمل! لیبر کا مطلب اگر محنت ہے تو یہ محنت تو سرکاری افسر بھی کرتا ہے‘ فیکٹری کا مالک بھی کرتا ہے‘ کارخانے کا منیجر بھی کرتا ہے‘ بینک کا اے وی پی بھی کرتا ہے‘ زیرِ تعمیر مکان کا ٹھیکیدار اور نقشہ بنانے والا آرکیٹیکٹ بھی کرتا ہے اور سکول‘ کالج یونیورسٹی میں پڑھانے والا استاد بھی کرتا ہے۔ تو لیبر ڈے پر ان سب کو کیوں نہیں یاد رکھا جاتا؟ آخر میں لیبر سے متعلق ایک لطیفہ بھی سن لیجیے جو غالباً ایک واقعہ ہے اور ماضی بعید کے ایک وزیر صاحب سے منسوب ہے جن کا ایبٹ آباد اور گلگت کے درمیانی علاقے سے تعلق تھا۔ انہوں نے ہسپتال میں لیبر روم کا افتتاح فرمایا تو تقریر میں فخر کے ساتھ کہا کہ ہم مزدوروں یعنی لیبر کا اتنا خیال رکھتے ہیں کہ ہسپتالوں میں بھی لیبر روم بنوا دیے ہیں!!