مردان کے مقام پر تحریک انصاف کے جلسے میں جو واقعہ پیش آیا وہ اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ جو بویا گیا‘ وہ کاٹنے کا وقت آگیا ہے۔ سروں کی فصل پک کر تیار ہو چکی ہے۔ درانتیاں سنبھال لی گئی ہیں! خچر ہانکے جا رہے ہیں۔
بیج بونے اور فصل پکنے کے درمیان چند دنوں اور چند راتوں کا فاصلہ نہیں! بیج بہت عرصہ پہلے بو دیا گیا۔ پھر اس فصل کی خوب آبیاری کی گئی۔ کھاد ڈالی گئی۔ باڑ لگائی گئی۔ نگہداشت کے لیے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا گیا۔ لاہور کی ریلی میں ایک بچے نے جو کچھ کہا‘ یا اس سے جو کچھ کہلوایا گیا‘ اس پر‘ وہاں سٹیج پر کھڑے چار معزز و معتبر‘ ذمہ دار افراد نے تالیاں بجائیں‘ مسکرا کر بچے کو داد دی۔ یہ منظر ساری دنیا نے دیکھا مگر یہ منظر صرف ساری دنیا نے نہیں‘ اُن فرشتوں نے بھی دیکھا جو آسمان اور زمین کے درمیان ہر وقت موجود رہتے ہیں! اور آسمانوں سے اوپر بھی حاضر رہتے ہیں اور جن کے پر ایک اُفق سے دوسرے اُفق تک چھائے ہوئے ہوتے ہیں! ان فرشتوں نے بھی‘ اور ان کے درمیان دمکتے چمکتے ستاروں نے بھی‘ اور گردش کرتے سیاروں نے بھی اور دودھیا رنگ کی کہکشاؤں نے بھی اور ہر لمحہ‘ ہر لحظہ‘ ہر ثانیہ‘ پھیلتی کائنات نے بھی یہ منظر دیکھا! ایسے جملے جو اس بچے نے کہے‘ یا اس سے کہلوائے گئے‘ اور جن جملوں پر‘ سٹیج پر کھڑے چار آدمیوں نے اظہارِ مسرت کیا اور تالیاں بجائیں‘ ایسے جملے اس دنیا میں اور اس کائنات میں اس سے پہلے شاید کسی نے نہیں کہے تھے! جس مقدس جوڑے کیساتھ ایک عام جوڑے کو ملایا گیا اور پھر اظہارِ مسرت کیا گیا‘ اُس مقدس جوڑے کے قدموں سے اُٹھتی گرد کے ساتھ بھی کسی جوڑے کو نہیں ملایا جا سکتا! کیا گلِ لالہ کا موازنہ ناگ پھنی سے کیا جا سکتا ہے؟ کوئی اندھا ہی ایسا کر سکتا ہے اور کوئی تیرہ بخت ہی اس پر خوش ہو کر داد دے سکتا ہے! آمنہ کی گود کا‘ جس میں آمنہ کا لال اترا‘ ابتدائے آفرینش سے لے کر‘ صورِ قیامت تک‘ کسی اور گود سے مقابلہ نہیں کیا جا سکتا! اور عبد اللہ؟ عقل کے اندھو! سیاہ بختو! وہ محمدﷺ کے والدِ گرامی تھے۔ جس شخص کا نام تم نے لیا‘ وہ اربوں سال بھی چلتا رہے‘ اُڑتا رہے‘ محمدﷺ کے والدِ گرامی کے قدموں کی دھول تک بھی نہیں پہنچ سکتا!
پھر اس کے بعد آپؐ کا اور حضرت خدیجہؓ کا جوڑا بے مثال ہے! روشنی کا مرقع! نور کا منبع! اگر یرقان زدہ آنکھوں کو خاتونِ جنت فاطمہ زہرا ؓ کے ماں باپ نہیں دکھائی دیے تو ان آنکھوں پر ماتم کرنا چاہیے! چشم فلک نے محمدﷺ جیسا کوئی اور باپ دیکھا نہ خدیجہؓ جیسی کوئی اور ماں اور نہ فاطمہؓ جیسی کوئی اور بیٹی! زمانوں اور جہانوں نے فاطمہؓ کے بعد حیا اور عفت کو‘ تقدس اور پاکیزگی کو پاک دامنی اور پرہیزگاری کو کسی دہلیز پر ادب سے جھکتے نہیں دیکھا۔ کیا شان تھی سیّدہ کی کہ تشریف لاتیں تو خدا کی طرف سے بھیجے گئے آخری پیغمبر اُٹھ کھڑے ہوتے! بیٹی کے لیے اپنی چادر بچھاتے! سفر پر تشریف لے جا رہے ہوتے تو سب سے آخر میں سیّدہ کو ملنے آتے اور واپسی ہوتی تو سب سے پہلے سیّدہ کو دیکھ کر مبارک آنکھیں ٹھنڈی کرتے۔ کیا دنیا سے رخصت ہوتے وقت پیغمبر نے کسی اور کو بھی یہ خوشخبری دی جو سیّدہ کو دی کہ سب سے پہلے آپ انہیں جا ملیں گی!! مسلمان خواتین کا مقبول ترین نام فاطمہ ہی تو ہے!! سیّدہ فاطمہؓ کے عہدِ مبارک سے لے کر آج تک‘ تصور کیجئے کتنی بچیوں کے نام فاطمہ پر رکھے گئے ہوں گے! کوئی کیلکولیٹر‘ کوئی کمپیوٹر ان بچیوں کی تعداد کا تعین نہیں کر سکتا! اور وہ بھی جو آج سے لے کر قیامت تک پیدا ہوں گی اور ان کے نام سیدہ کے نام پر رکھے جائیں گے!! فجی سے لے کر چلی تک اور آئرلینڈ سے لے کر جنوبی افریقہ تک! کوئی شمار؟ کوئی حد؟
اور پھر‘ نفاق کے پتلو! تمہیں فاطمہؓ اور علیؓ بھی نہیں نظر آئے؟ کیا اس میں کسی کو رمق بھر بھی شک ہو سکتا ہے کہ جناب عبداللہ اور حضرت آمنہ کے بعد‘ اور محمدﷺ اور حضرت خدیجہؓ کے بعد‘ اس کائنات کا خوش قسمت ترین اور افضل ترین اور برگزیدہ ترین اور فوق النظیر جوڑا شیر خدا اور سیّدہ کا ہے۔ کیا جلال اور مرتبہ ہو گا اس جوڑے کا جس کی شادی آقائے دو جہاںؐ نے خود کرائی ہو گی! کیا ہی کہنے! اور کیا ہی کہنے اس والد اور اس والدہ کے جن کے بچے حسنؓ اور حسینؓ اور زینبؓ اور ام کلثومؓ ہوں!! شاید ہی اس کرۂ ارض پر کوئی ایسا سنی گھرانہ ہو اور شاید ہی کوئی ایسا شیعہ گھرانہ ہو جس میں زینب نام کی بچی نہ ہو! یہ سیّدہ اور شیرِ خدا کی تربیت تھی کہ حسینؓ نے سر نہیں جھکایا اور زینبؓ نے یزید کے دربار میں کلمۂ حق کہا!
تم ہو کون جو فلاں اور فلاں کو کائنات کے مقدس ترین اور مکرّم ترین شخصیات سے جا ملاتے ہو! تمہاری حیثیت کیا ہے؟ تمہاری اوقات کیا ہے؟ تم کس کھیت کی مولی ہو؟ تم رسالت مآبﷺ کے والدین کو سمجھتے کیا ہو؟ اور پھر تمہاری یہ جرأت‘ یہ مجال کہ اس یاوہ گوئی کو روکنے کے بجائے بتیسیاں نکال نکال کر تالیاں بجاتے ہو! کیا تمہیں اندازہ بھی ہے کہ یہ تم نے کیا کیا؟ تم نے اپنے مقدر پر مہر لگا دی! تم نے اپنے پَیروں پر کلہاڑی مار لی! کاش! تم آگے بڑھ کر اُس بچے کو روک لیتے! کاش تم نعوذ باللہ کے الفاظ کہتے! کاش تم اسی سٹیج سے معذرت کر لیتے! مگر یہ سب تو توفیق سے ہوتا ہے! مہر جوں جوں لگتی جاتی ہے‘ توفیق دور ہوتی جاتی ہے! ستم بالائے ستم یہ کہ ایک صاحب نے وضاحت کی اور یہ وضاحت عذر گناہ بدتر از گناہ سے بھی زیریں سطح کی تھی۔ کہا کہ وہ تو بچہ تھا اور بچہ مکلَّف نہیں ہوتا! (مکلَّف کو وہ بار بار مکلِّف کہہ رہے تھے)۔ ارے بھئی! وہ جو چار ذمہ دار‘ بالغ افراد سٹیج پر کھڑے تھے اور مسکراہٹیں بکھیر رہے تھے‘ کیا وہ بھی بچے تھے؟ کیا وہ بھی مکلَّف نہیں تھے؟ اور بچے سے ذرا پوچھا جائے کہ یہ مہلک الفاظ کس نے اس کے منہ میں ڈالے؟ یہ آتشیں جملے کس نے اسے رٹوائے؟ کون ذاتِ شریف ہے اس بچے کی پشت پر؟ اسے سامنے لایا جائے!
مردان میں جو کچھ ہوا‘ وہ قدرت کی بے آواز لاٹھی کی گونجتی‘ کڑکتی آواز ہے۔ یوں بھی ہوتا ہے کہ جنگی ہاتھی پلٹ کر اپنی سپاہ ہی کو روند دیتے ہیں! ہر معاملے کی ایک حد ہوتی ہے اور حد کراس ہو چکی‘ کبھی کہا گیا کہ قبر میں پوچھ ہوگی کہ فلاں کا ساتھ کیوں نہ دیا؟ کبھی کہا گیا کہ عمرے پر جانے کا نہیں‘ میرے پاس آنے کا وقت ہے۔ کبھی صادق اور امین کی مقدس اصطلاح کی توہین کی گئی اور اب نبی آخر الزمانؐ کے محترم والدین کے ساتھ جا ملانا! نعوذ بااللہ! صد ہزار بار نعوذ بااللہ! کہاں ہمعصر سیاست کی کثافت‘ آلائش اور آلودگی اور کہاں یہ مقدس اور متبرک نام! یہ استغاثہ ہے جو بہت اوپر‘ آسمانوں میں درج ہوا ہے! اور یہ اپنے منطقی انجام کو پہنچے گا!
بفضلِ ایزدی مضبوط ہے یہ استغاثہ
بحقِّ مصطفی و فاطمہ دعویٰ کیا ہے