یہ چودہویں صدی عیسوی کے اواخر کا کوئی سال تھا جب امیر تیمور لنگ لاشیں گراتا‘ بستیوں کو ویران کرتا‘ شہروں کو جلاتا‘ دریاؤں کا پانی سرخ کرتا‘ کھوپڑیوں کے مینار بناتا‘ شیراز پہنچا۔ اس وقت تک خواجہ حافظ شیرازی کا یہ شعر ولایتوں اور اقلیموں کی سرحدیں پار کر چکا تھا۔
اگر آن ترک شیرازی بدست آرد دلِ ما را
بخال ہندویش بخشم سمرقند و بخارا را
کہ اگر وہ شیرازی محبوب ہمارا دل تھام لے تو اس کے دلکش تِل کے عوض سمرقند اور بخارا کو دان کر دوں۔ تیمور نے اس شعر کو دل پر لے لیا تھا۔ مصر سے لے کر خوارزم اور دہلی تک جتنے شہر لُوٹے تھے‘ سب کی دولت سمرقند میں لا کر ڈھیر کر دی تھی۔ تمام مفتوحہ ملکوں کے معمار‘ نقاش‘ سنگ تراش‘ مصور‘ نقشہ ساز‘ آہن گر‘ زین ساز‘ کفش دوز‘ زر دوز‘ کوزہ گر‘ خیاط‘ صنّاع‘ صراف‘ کامدار‘ پچی کار‘ چوب کار‘ سوزن کار‘ میناکار‘ رنگ ریز ہانک کر سمرقند میں اکٹھے کیے کہ اس شہر کو شہرِ بے مثال کی صورت دے سکیں! اور ایک تہی دست شاعر کی یہ جرأت! کہ سمرقند کو خیرات کرتا پھر ے! اس نے حافظ کو بلایا اور اس گستاخی پر جواب طلبی کی۔ وہ تو خواجہ صاحب کی قسمت اچھی تھی کہ تیمور کا موڈ اس وقت وحشیانہ اور قاتلانہ نہیں تھا۔ ورنہ مینار میں ایک شاعر کی کھوپڑی کا اضافہ ہو جاتا۔ حافظ نے جواب انتہائی ذہانت سے دیا۔ اس حقیقت کو کو ن جھٹلا سکتا ہے کہ شاعر ذہین ہوتے ہیں اور حاضر جواب! غالب سے جب انگریز حاکم نے پوچھا تھا تو اس نے بھی ذہانت کو بروئے کار لا کر ہی جواب دیا تھا اور کمال کا جواب دیا تھا کہ آدھا مسلمان ہوں! شراب پیتا ہوں‘ سؤر نہیں کھاتا! سفید فام حاکم یقینا اس سنہری جواب سے متاثر ہوا ہوگا‘ حافظ شیرازی نے بھی ذہانت کو ڈھال بنایا اور کہا: جہاں پناہ! بندہ پرور! انہی غلط بخشیوں ہی کی وجہ سے اس حال کو پہنچا ہوں!
کیا دبدبہ اور طمطراق ہو گا اُس لمحے تیمور کا! اور ایک بے گناہ‘ معصوم شاعر کا دل کس طرح خوف سے کانپا ہوگا! مگر یہ لمحہ گزر گیا اور پھر آج تک حکومت حافظ کی ہے‘ تیمور کی چند برسوں بعد ختم ہو گئی! اندازہ لگائیے ان چھ سو‘ ساڑھے چھ سو برسوں میں دیوانِ حافظ کتنی بار شائع ہوا ہوگا؟ لاکھوں کروڑوں نسخے اس وقت ساری دنیا میں موجود ہوں گے اور پڑھے پڑھائے جا رہے ہوں گے! نصف درجن نسخے تو اس قلّاش قلمکار کے پاس ہی ہیں! کروڑوں اربوں بار تو دیوانِ حافظ سے فال ہی نکالی گئی ہو گی! کتنی ہی زبانوں میں ترجمے کیے گئے ہوں گے۔ منثور بھی! منظوم بھی! کتنی شرحیں لکھی گئی ہوں گی!
اور تیمور کو کتنے لوگ جانتے ہوں گے؟ تاریخ کے استاد اور تاریخ کے طالب علم! بس! وہ سمرقند کے ریگستان چوک میں ایک قبر میں لیٹا ہے! اس کی قبر کو سمر قند کے لوگ ''گورِ تیمور‘‘ کہتے ہیں! یعنی تیمور کی قبر! گور فارسی میں قبر کو کہتے ہیں! اور مغربی ملکوں کے سیاح جب آکر گورِ تیمور کو Grave of Gor-e-Taimoorکہتے ہیں تو میرے جیسے سیاح کی ہنسی چھوٹ جاتی ہے۔ وہ جلدی سے قبر کو دیکھتے ہیں پھر اتنی ہی جلدی سے اپنی فہرست میں ٹک مارک لگا کر اگلی منزل کو روانہ ہو جاتے ہیں! مگر دیوانِ حافظ کے جو فدائی شیراز میں حافظ کی قبر پر جاتے ہیں‘ وہ جلدی میں نہیں ہوتے۔ وہ وہاں بیٹھ کر اس کے اشعار پڑھتے ہیں جو اُن کے سینوں میں محفوظ ہیں! وہ اس کے مزار کی اینٹوں‘ پتھروں اور ٹائلوں کو چومتے ہیں۔ تیمور کے ہاتھ میں تلوار تھی! حافظ کے ہاتھ میں قلم تھا! تیمور کی تلوار زنگ آلود ہو گئی! گم ہو گئی! ممکن ہے کسی میوزیم کے کسی گوشے میں پڑی ہو! حافظ کا قلم جیت گیا! یہ قلم آج بھی زندہ ہے! تلوار ہمیشہ ہارتی ہے! قلم ہمیشہ فتح مند ہوتا ہے!
حافظ کا قلم اور تیمور کی تلوار آج بے سبب نہیں یاد آئے! دو دن پہلے (گیارہ مئی کو) ایک ویب سائٹ پر ننھی منی سی خبر دیکھی کہ جنرل ضیا الحق کی قبر پر کچھ لوگ جئے بھٹو کے نعرے لگا رہے تھے! کیا انتقام ہے تاریخ کا! اور کیا انجام ہے بندوق اور تلوار کا! کیا بھٹو کی قبر پر بھی کبھی کسی نے ضیا الحق زندہ باد کا نعرہ لگایا ہو گا؟ ضیا الحق کے ہاتھ میں بندوق تھی۔ بھٹو کے ہاتھ میں قلم تھا! ایک مصنف کا قلم! ایک سیاست دان کا قلم! ایک وزیراعظم کا قلم! ہمیشہ کی طرح جنرل صاحب کی بندوق ہار گئی! اس لکھنے والے کا تعلق‘ خاندانی لحاظ سے‘ اور ذاتی افتادِ طبع کے حوالے سے‘ پیپلز پارٹی سے کبھی نہیں رہا! دور دور تک نہیں رہا! مگر تاریخ کے ایک ادنیٰ طالب علم کی حیثیت سے جب ضیا الحق کی بندوق اور بھٹو کے قلم کا موازنہ کرتا ہوں تو عبرت کا ایک دروازہ کھل جاتا ہے۔ بھٹو کے جنازے پر بھی کسی کو نہ آنے دیا! پھانسی گھر کا بھی نام و نشان مٹا کر وہاں سیر گاہ بنوا دی۔ بھٹو کو پھانسی دلوانے میں ایک سیاسی مذہبی جماعت کے اُس وقت کے سر براہ نے بھی اپنا کردار خوب خوب ادا کیا! ان صاحب نے گواہوں کو یقین دلایا کہ انہیں معاف کر دیا جائے گا۔ مگر ان گواہوں کو بھی پھانسی دے دی گئی!
تاریخ کی ایک اور ستم ظریفی دیکھیے‘ بھٹو کا نواسا آج وزیر خارجہ ہے! جنرل ضیا الحق کے صاحبزادے عمران خان کے چرنوں میں جا بیٹھے ہیں! کیوں؟ ایک سیٹ کے لیے! ایک ٹکٹ کے لیے!
نہ پوچھ حال مرا چوبِ خشکِ صحرا ہوں
لگا کے آگ جسے کارواں روانہ ہوا
کیا اس سے بہتر یہ نہیں تھا کہ ایک نشست کی خاطر پارٹیاں بدلنے کے بجائے نام نہاد کوچۂ سیاست کو خیر باد کہہ دیتے! پہلے اسلامی جمہوری اتحاد! پھر مسلم لیگ (ن)‘ پھر مسلم لیگ (ق) یعنی جنرل پرویز مشرف اور اب تحریک انصاف!
چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک تیز رو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں
نہیں معلوم جنرل صاحب کی قبر پر‘ فیصل مسجد کے نمازی‘ آتے جاتے ہوئے‘ دعا پڑھتے ہوں گے یا نہیں! کاش پڑھا کریں! ممکن ہے آج بھی ان کے ساتھ دل بستگی رکھنے والے موجود ہوں! علامہ اقبال کے مزار کے دوسری طرف‘ سر سکندر حیات کا مزار ہے! اقبال نے تو پیش گوئی کر دی تھی۔
حلقہ بستند سرِ تربتِ من نوحہ گران
دلبران‘ زہرہ وشان‘ گُل بدنان‘ سیم بران
کیا کوئی سر سکندر حیات کے مزار پر بھی جاتا ہے؟ سوال یہ ہے کہ کوئی کیوں جائے گا؟ انہوں نے اپنے عہدِ اقتدار میں بہت سوں کو فوائد پہنچائے ہوں گے! مگر ان میں سے اب کوئی بھی زندہ نہیں ہوگا! اقبال کا چشمۂ فیض تو جاری ہے اور جاری رہے گا! جاوید منزل میں جو اقبال میوزیم قائم ہے‘ وہاںعلامہ صاحب کے جوتے بھی‘ الماری میں بند‘ پڑے ہیں۔ میں نے پہریدار سے التماس کی کہ ایک ثانیے کے لیے نکال کر دے کہ میں انہیں چوم سکوں! اس نے معذرت کی۔ میں نے الماری کے شیشے پر ہونٹ رکھ دیے کہ یہی ممکن تھا! جنرل ضیا الحق صاحب نے بھی اپنے طویل دورِ حکومت میں بہت سوں کو فائدے پہنچائے۔ جن پر مہربان تھے‘ انہیں دس دس سال کے لیے بیرونِ ملک تعیناتیاں عطا کیں! نرسریوں اور فارمز کے نام پر بہت سوں کو ارب پتی بنا گئے۔ وفاقی دارالحکومت میں پلاٹ تو یوں بانٹے جیسے ریوڑیاں! تو یہ سب مستفید‘ احسان مند‘ از راہِ کرم آکر دعا پڑھا کریں! لیکن آہ! ان کی قسمت میں جئے بھٹو کے نعرے ہیں! مجید امجد کی نظم ''مقبرۂ جہانگیر‘‘ یاد آرہی ہے مگر کالم کا دامان تمام شُد!