وہ تین تھے۔ ناصر اور اس کے دو دوست! یہ بذریعہ ریل کراچی سے راولپنڈی جا رہے تھے۔ ٹرین کا نام عوامی تھا۔ جو کراچی سے پشاور تک اور پشاور سے کراچی تک چلتی ہے۔ ناصر کا مزاج ذرا فیاضانہ تھا۔راستے میں اس کی کوشش رہی کہ چائے پانی کے اخراجات وہی برداشت کرے۔ ٹرین سندھ سے جنوبی پنجاب میں داخل ہوئی اور پھر مستقل مزاجی سے شمال کی طرف بڑھنے لگی۔ ایک سٹیشن پر گاڑی رکی تو اس کے دونوں ساتھی اسے کہنے لگے: تم سامان کا خیال رکھو۔ہم ذرا پلیٹ فارم کا چکر لگا کر آتے ہیں۔وہ اتر گئے۔ کافی دیر تک واپس نہ آئے تو ناصر کو فکر لاحق ہوئی کہ ٹرین چل پڑی تو کیا ہو گا۔گو مگو کی کیفیت میں وہ پلیٹ فارم پر اتر گیا۔ذرا آگے گیا تو ایک منظر دیکھ کر ٹھٹھک گیا۔دونوں صاحبان ایک کھوکھے پر کھڑے کھانا کھا رہے تھے اور اس رفتار اور اس سراسیمگی سے کھا رہے تھے جیسے کھانا نہ ہو‘ کوئی سزا ہو! ناصر چپ چاپ واپس ٹرین میں آگیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ دونوں بھی آگئے۔ اس نے تذکرہ کیا نہ انہوں نے کوئی بات کی۔ تاہم رہ رہ کر اسے وہ بات یاد آرہی تھی جو بچپن میں بزرگوں سے سنی تھی کہ انسان کے خاندانی ہونے‘ یا نہ ہونے کی‘ پرکھ جن کسوٹیوں پر ہوتی ہے ان میں سے پہلی کسوٹی سفر ہے!
سفر جہاز کا ہو یا ٹرین کا‘ بس کا ہو یا پیدل‘ ایک آئینہ ہوتا ہے جس میں ہمسفر کا‘ یا ہمسفروں کا اصل چہرا دکھائی دیتا ہے۔ جب سفر قافلوں کی صورت میں ہوتا تھا اور ڈاکوؤں کے حملے ہوتے تھے‘ تب امتحان بھی کڑا ہوتا تھا۔ مگر وسیع الظرفی کی‘ اور تنگ دلی‘ فرو مائیگی اور پستی کی پہچان آج کل کے سفر میں بھی بخوبی ہو جاتی ہے۔ ہمسفر کی مدد کرنا اور اس کے لیے ایثار کا مظاہرہ کرنا صرف ان لوگوں کا وتیرہ ہوتا ہے جن کی تربیت کشادہ دل بزرگوں نے کی ہو! یہ جو آتش نے کہا ہے کہ
سفر ہے شرط‘ مسافر نواز بہتیرے
ہزار ہا شجر سایہ دار راہ میں ہے
تو یہ مسافر نواز اور سایہ دار شجر‘ ہم سفر ہی تو ہوتے ہیں! سفر اُس مختصر قیام کو بھی کہتے ہیں جو گھر سے دور‘ پردیس میں کچھ ہفتوں‘ کچھ مہینوں یا کچھ برسوں کے لیے کرنا پڑتا ہے! اس میں بھی دوسروں کی شناخت ہو جا تی ہے۔ بیماری میں کس نے کتنا خیال رکھا؟ کھانے پینے کی مشکلات کس نے شیئر کیں؟ تہی دستی میں کس نے‘ احسان جتائے بغیر‘ دستگیری کی ؟ ایثار اور قربانی کا مظاہرہ کس نے کیا؟ یہ سب کچھ‘ اور بہت کچھ اور بھی‘ آشکارا ہو جاتا ہے!
خاندانی پس منظر کی دوسری کسوٹی غربت ہے۔آپ نے کئی شرفا کا حال پڑھا یا سنا ہو گا کہ مفلسی میں بھی دستِ سوال دراز نہیں کرتے تھے۔ قمیض پھٹی ہوتی تھی مگر باہر نکلتے وقت شیروانی ضرور پہنتے تھے جو اس زمانے میں شرفا کا شیوہ تھا۔غربت میں بھی خاندانی لوگ سائل کو خالی ہاتھ نہیں موڑتے۔ہمایوں کا جب شیر شاہ تعاقب کر رہا تھا اُس وقت ہمایوں سندھ کے ریگزار میں ناقابلِ بیان صعوبتیں اٹھا رہا تھا۔حالات اتنے خراب تھے کہ اس کے لیے اس کے ساتھی‘ گوشت خود ( ہیلمٹ) میں ابالتے تھے۔ بادشاہ ملبوس دھونے کے لیے دیتا تھا تو غسل کا گاؤن پہننا پڑتا تھا۔ اس حال میں اسے عمر کوٹ میں اکبر کی پیدائش کی اطلاع ملی۔ ایسی خبر سننے کے بعدبادشاہ‘ اظہارِ مسرت کے طور پر‘ حاضرینِ مجلس کو ہیرے جواہرات دیا کرتے تھے۔ ہمایوں اس وقت خالی ہاتھ تھا۔ اس کے پاس صرف ایک نافۂ مُشک تھا۔ اس نے اسے توڑا۔ خیمہ خوشبو سے بھر گیا۔ اس نے ساتھیوں سے کہا کہ اس وقت میں یہ خوشبو ہی تحفے میں دے سکتا ہوں!حافظ محمود شیرانی کے پوتے اور اختر شیرانی کے فرزند‘ پروفیسر ڈاکٹر مظہر محمود شیرانی بہت بڑے محقق تھے۔ کئی تصانیف ان کی یادگار ہیں۔ ایک کتاب ان کی( بے نشانوں کا نشاں) خاکوں پر مشتمل ہے۔ مختصر مگر شہکار! اس میں وہ ایک فقیر کا حال لکھتے ہیں جو گلی میں گاتا پھرتا تھا۔ شیرانی صاحب اس کی آواز‘ اس کے الفاظ‘ اس کے بوسیدہ لباس اور اس کے اطوار سے پہچان گئے کہ یہ کسی بڑے خاندان کا بازماندہ ہے۔
خاندانی پس منظر کی تیسری کسوٹی ملازموں اور خدام سے حسنِ سلوک یا بد سلوکی ہے۔ عالی نسب خاندانوں میں بچوں کو اجازت نہیں ہوتی کہ ملازموں‘ خادموں یا خادماؤں کو نام سے بلائیں! پنجاب میں شرفا کے بچے خادمہ کو ماسی ( یعنی خالہ) کہہ کر بلاتے تھے۔ آج لوگ اس غلط فہمی میں ہیں کہ ماسی کا مطلب خادمہ ہے۔ کئی عشر ے پہلے لاہور میں ایک گھریلو ملاز م نے تنگ آکر ایک کمشنر انکم ٹیکس کو اور اس کے بیوی بچوں کو قتل کر دیا تھا۔ وہ زچ ہو گیا تھا۔ کمشنر کے بیوی بچے اسے گالیاں دیتے تھے یہاں تک کہ گلاس اس کے چہرے پر مارتے تھے۔یہ رویے پست خاندانوں کے ہوتے ہیں! حضرت امام حسنؓ کا مشہور واقعہ ہے۔ غلام سے سالن کی ڈ ش گر گئی جس سے آپ کا لباس خراب ہو گیا۔ اس نے کلام مجید کی آیت پڑھی '' اور غصہ ضبط کرنے والے ہیں اور لوگوں کو معاف کرنے والے ہیں‘ اور اللہ نیکی کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔‘‘ آپ نے نہ صرف معاف کیا بلکہ آزاد بھی کر دیا۔ آپ کے خاندان سے برتر خاندان کس کا ہو سکتا ہے! جو اصحاب سالہا سال تک آقائے دو جہاں کے ساتھ رہے اور خدمت کرتے رہے وہ کہتے ہیں کہ کبھی ڈانٹا نہ پیشانی مبارک پر کبھی شکن پڑی! نجیب خاندان اپنے ملازموں کو گھر کے فرد کی طرح رکھتے ہیں‘ انہیں وہی کھلاتے ہیں جو خود کھاتے ہیں اور ان کی ضروریات کا خیال رکھتے ہیں! ان کے ساتھ نرمی سے پیش آتے ہیں۔
چوتھی کسوٹی خاندانی پس منظر پرکھنے کی یہ ہے کہ جو کرسی پر متمکن تھا جب وہ اقتدار سے محروم ہوا تو اس کے ساتھ وہی رویّہ رکھا یا آنکھیں ماتھے پر رکھ لیں اور طوطا چشمی کا ثبوت دیا۔ دانا افراد وہ ہوتے ہیں جو کرسی سے اترنے سے پہلے ہی اندازہ لگا لیتے ہیں کہ کون وفا دار رہے گا اور کون نہیں کہ بقول فردوسی : ز بد اصل چشم بہی داشتن/بود خاک در دیدہ انباشتن۔ بد اصل سے خیر کی توقع کرنا ایسے ہی ہے جیسے آنکھوں میں مٹی بھر لینا!! کسی محسن کے اقتدار سے محروم ہونے کے بعد رویہ تبدیل کر لینا پست ترین لوگوں کا وتیرہ ہے۔یہ لوگ ارذل الخلائق(scum of the earth)ہوتے ہیں۔ احسان فراموشی کم ظرفوں کی نشانی ہے۔ ایسے افراد کی شناخت یہ ہے کہ جب کوئی کرسی پر ہوتا ہے یہ اس کی حد سے زیادہ خوشامد اور چاپلوسی کرتے ہیں! اس کے گرد منڈلاتے ہیں!رکوع میں رہتے ہیں۔ اس لکھنے والے نے ایک صاحب کو دیکھا کہ ان کے افسر کی ایک عزیزہ کی تدفین تھی۔ وہ بہت پریشان اور غمزدہ تھے۔ یہاں تک کہ لگتا تھا وہ کھد ی ہوئی قبر میں لیٹ جائیں گے! کئی دن افسوس کے لیے جاتے رہے۔ مہمانوں کو چائے پلانے کی ڈیوٹی بھی سنبھال لی۔ قبر پر پھول بھی چڑھائے! جس دن ان کے افسر ریٹائر ہوئے‘ یہ دفتر کے برآمدے میں کھڑے ہو گئے اور بہ آوازِ بلند‘ انہیں بے نقط سنائیں! ایسے لوگ بظاہر کامیاب دکھائی دیتے ہیں مگر آخر کار خراب شہرت ان کا مقدر بنتی ہے۔
سفلہ پن کی نشانیاں کچھ اور بھی ہیں مگر بقول ظفر علی خان:
حذر ہیں اور بھی واجب مگر کہاں تک میں
بتائے جاؤں گا تم کو فلاں فلاں سے بچو