کیا آپ نے اس بے وقوف شخص کے بارے میں سُن رکھا ہے جس کے پاس سونے کے ذخائر تھے اور وہ زندگی اس طرح گزار رہا تھا جیسے ایک قلاش کی ہوتی ہے۔کھانا مانگ کر کھاتا تھا‘ سوتا فٹ پاتھوں پر تھا۔ لوگ اس پر رحم کھاتے تھے اور اس سے عبرت بھی پکڑتے تھے۔ اس سے پوچھتے تھے کہ یہ سونے کے ذخائر استعمال میں کیوں نہیں لاتے؟ مگر وہ بے حس شخص طعنے سنتا تھا اور گندے‘ میلے دانت نکال کر ہنس دیتا تھا۔
جب بھی ایبٹ آباد جانا ہوتا ہے‘ مجھے یہ بے حس شخص یاد آتا ہے اور بے تحاشا یاد آتا ہے! ہم ‘ بطور قوم ‘ بطور ملک‘ اسی بے حس شخص کی طرح ہیں۔ ہمارے پاس خزانے ہیں جن سے ہم غافل ہیں۔ ایبٹ آباد ایک دروازہ ہے جو اِن خزینوں کی طرف کھلتا ہے۔ یہا ں سے وہ خطہ شروع ہوتا ہے جو دنیا کے خوبصورت ترین خطوں میں شمار ہوتا ہے۔ ایبٹ آباد سے مانسہرہ کی طرف جائیں تودرخت اور پہاڑیاں اور سبزہ زار ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ ایک ایسا حسن آپ کا ہمراہی ہوتا ہے جسے کوئی نام دینا مشکل ہے۔ مانسہرہ سے ایک شاہراہ مشرق کی سمت‘ مظفر آباد کی طرف‘ نکل جاتی ہے جو آگے چل کر کاغان کی طرف بھی مڑتی ہے۔ مانسہرہ سے قراقرم ہائی وے پر آگے جائیں تو ڈاڈر ہے جہاں دل موہ لینے والی ندیاں ہیں۔ ہنزہ ‘ نگر اور بلتستان کے بہشت زار ہیں۔ یہاں دنیا کے بلند ترین پہاڑوں کی چوٹیاں ہیں۔ ایک امریکی سیاح نے ‘ جو برسوں پہلے گلگت میں ملا تھا‘ بتایا تھا کہ وہ سوئٹزر لینڈ بھی گھوما ہے مگر ہنزہ اور بلتستان اس سے کہیں زیادہ حسین ہیں۔یہ سونے کے وہ ذخائر ہیں جو ہماری ملکیت میں ہیں اور جن کی موجودگی میں ہم عسرت کی زندگی گزار رہے ہیں۔یہ ذخائر اور عسرت کی یہ زندگی ہماری نا اہلی‘ نالائقی ‘ کند ذہنی‘ بے حسی اور ذہنی جمود کا ایسا ثبوت ہے جو دنیا بھر کی یونیورسٹیوں میں عبرت کے طور پر پڑھایا جانا چاہیے۔ ہم ان بہشت زاروں کی مارکیٹنگ بالکل نہیں کر سکے۔ دنیا کو یہ بتانے سے قاصر رہے کہ ہمارے پاس بہترین سیر گاہیں ہیں! ہمارے سفارت خانے اس اعتبار سے ناکام رہے۔ ہماری وزارت ِاطلاعات ‘ ہر حکومت کی زرخرید کنیز تو بنی رہی ‘ مگر قومی خدمت کی انجام دہی اس کی ترجیحات سے باہر ہی رہی۔سیاحت کا محکمہ‘ ا قربا پروری اور دوست نوازی کے نرغے میں رہا۔جب باقی دنیا اپنی بین الاقوامی سیرگاہوں کو تازہ ترین سہولیات سے آراستہ کر رہی تھی اور ماڈرن بنا رہی تھی ہم اس فرض سے مکمل طور پر غافل تھے۔ آپ ایبٹ آباد سے گلگت یا بلتستان ‘ جس راستے سے بھی جائیں گے‘ راستے میں شاید ہی کوئی باعزت ریستوران ملے جس میں سیاح اطمینان سے قیام کر سکیں خاص طور پر خواتین کے لیے واش رومز کا شدید فقدان ہے۔ انٹرنیٹ کی سہولت نہ ہونے کے برابر ہے! قدرت نے اس ملک کو بے حساب دیا۔سارے موسم دیے۔ ساری فصلیں دیں۔کون سالینڈ سکیپ ہے جو یہاں موجود نہیں! پہاڑ‘ ریگستان‘میدان‘ سطح مرتفع‘ دریا‘ ساحل! وہ جو علامہ اقبال نے ہماری طرف سے ‘ یعنی انسان کی طرف سے دعویٰ کیا تھا کہ
بیابان و کہسار و راغ آفریدی
خیابان و گلزار و باغ آفریدم
کہ تم نے ( یعنی قدرت نے ) جنگل ‘ پہاڑ اور ریگستان پیدا کیے۔ اور میں نے ان میں شاہراہیں بنائیں ‘ باغات بنائے اور سیر گاہیں اور پارک وجود میں لایا تو یہ دعویٰ کم ازکم ہم اہلِ پاکستان تو ہر گز نہیں کر سکتے۔شمالی علاقہ جات میں شاہرا ہوں کی اکثریت بُرے حال میں ہے۔ بمبریٹ اور کیلاش کی دوسری وادیوں میں جا کر دیکھئے۔ سڑکوں کی حالت یہ ہے کہ ان پر سفر کر کے ایمان تازہ ہو جاتا ہے کیونکہ سارا سفر کلمہ پڑھتے اور گناہوں کو یاد کرتے گزرتا ہے! دیو سائی کے حوالے سے دعویٰ ہمارا یہ ہے کہ دنیا کا بلند ترین میدان ہے مگر سکردو سے جو شاہراہ وہاں جاتی ہے ‘ اسے شاہراہ کہنا جھوٹ ہے اور ظلم بھی ! ایک پانچ ستارہ ہو ٹل کی جو شاخیں خپلو اور دوسرے مقامات پر دستیاب ہیں ان میں قیام اور اکل و شرب عام سیاحوں کے لیے حد درجہ گراں ہے۔ ایک لحاظ سے اس ہوٹل کی ان علاقوں میں اجارہ داری ہے۔ گرانی کا ایک سبب یہ بھی ہے!
اور ایبٹ آباد ! ایبٹ آباد کا کیا ہی کہنا! کیا شہر ہے اور کیا اس کی آب و ہوا ہے! پہاڑوں میں گھری ہوئی یہ جنت نظیر وادی پاکستان کے لیے ایک نعمت سے کم نہیں۔ کیا دور اندیشی تھی میجر جیمز ایبٹ کی جس نے1853ء میں اس وادی کو چُنا‘ یہاں شہر بسایا اور پھر اس شہر سے محبت کی۔ اس نے اس شہر سے وداع ہوتے وقت جو نظم کہی‘ وہ تاریخ اور ادب دونوں میں یاد گار ہے! ایبٹ آباد واقعی ایک ایسا شہر ہے جس سے عشق کیا جا سکتا ہے۔ یہ شہرِ دلبر نہیں‘ بلکہ خود ہی دلبر ہے۔ اس کے مکین نرم خو‘ مہمان نواز اور کشادہ دل ہیں!
سربن کا پہاڑ اس پر سایہ فگن ہے۔ 1905ء میں علامہ اقبال یہاں تشریف لائے۔ ان کی ایک نظم میں سربن کا ذکر ہے۔ ایک صاحب نے بتایا کہ علامہ ان کے دادا کے مہمان تھے۔ مگر وہ تو اپنے بھائی کے پاس تشریف لائے تھے جو اس وقت یہاں ایم ای ایس ( ملٹری انجینئرنگ سروس) میں ملازمت کر رہے تھے!
ایبٹ آباد اور اس کے نواح میں اہلِ ادب کی ایک کہکشاں ہے جس کی ضو فشانی قابلِ رشک ہے۔ آصف ثاقب اور سلطان سکون جیسے سینئر اور محترم شعرا اس شہر کے ماتھے کا جھومر ہیں۔ احمد حسین مجاہد شاعری اور نثر دونوں مملکتوں پر اپنا سکہ چلاتاہے۔اس کا آبائی شہر بالا کوٹ ہے جس پراس نے نظم اور نثر دونوں میں نوحہ خوانی کی ہے۔ نوحہ خوانی بھی دو ماتموں پر! پہلا ماتم2005ء کے زلزلے کی تباہی کا جس میں بالا کوٹ برباد ہوا! اور دوسرا ماتم اس سنگ دلی کا جس نے عالمی امداد کے باوجود آج تک شہر کی نئی آباد کاری کے خواب کو شرمندۂ تعمیر نہیں ہونے دیا۔ ایبٹ آباد میں امان اللہ خان‘ محمد حنیف‘ رستم نامی‘ امتیاز الحق امتیاز‘ تاج الدین تاج اور اخلاق احمد جیسے غزل گو شعرا بساط جمائے ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر واحد سراج ہے جو ادیب اور شاعر تو ہے ہی‘ ادب کی مالی اور سماجی سرپرستی میں ایک ریکارڈ رکھتا ہے۔ '' بزم علم و فن ہزارہ‘‘ کو جو ایک قدیم تنظیم ہے‘ اس نے بدرجہ اتم زندہ رکھا ہوا ہے۔ وہ ایک ماہرِ تعلیم ہے اور کئی تعلیمی اداروں کا مدیرِ مسؤل مگر بے پناہ مصروفیت کے باوجود ادب دوستی میں تندہی سے لگا ہوا ہے۔ ماضی میں اس نے مشتاق احمد یوسفی‘ عطا الحق قاسمی ‘ مستنصر حسین تارڑ‘ امجد اسلام امجد‘ افتخار عارف اور کئی دوسرے مشاہیر کو اپنی کوشش سے ایبٹ آباد میں بلایا اور ساکنانِ شہر کو موقع فراہم کیا کہ انہیں دیکھیں اور سنیں!
ایبٹ آباد جس نے ایک بار دیکھا‘ اسے بار بار دیکھنے کی ہوس ہوئی۔ یہ شہر دل میں جا بیٹھتا ہے۔ یوں کہ پھر نکلتا نہیں۔ اسے ملنے اس کے پاس جانا پڑتا ہے۔ ورنہ وہ خوابوں میں پوچھتا ہے کہ کب آؤ گے ؟ شملہ پہاڑی‘ ٹھنڈیانی ‘ ہمیشہ زندہ رہنے والے چشمے کی مالک الیاسی مسجد ! دکانوں اور گاہکوں سے چھلکتی مانسہرہ روڈ‘ پرانا ایبٹ آباد جس میں خشک میوے اور تازہ پھلوں کی بڑی بڑی دکانیں ہیں ! پارچہ فروش ہیں! ظروف فروش ہیں۔انواع و اقسام کی اشیا ہیں! مگر ٹھہریے ! ایبٹ آباد سے ابھی
واپس آیا ہوں اور پچھتا رہا ہوں کہ کیوں آ گیا۔ احباب نے بہت کہا تھا کہ کچھ دن اور رک جاؤ ! رُک ہی جاتا !!