وزارتِ خارجہ کو لَکھ لَکھ مبارکاں اور کروڑوں بار تہنیت! خارجہ امور کے میدان میں پاکستان نے ایک اور معرکہ سر کر لیا ہے!بھارت‘ افغانستان‘ ایران کے ساتھ ہمارے گہرے اور گُوڑھے تعلقات تو ہیں ہی! ایک گلدستہ‘ اور ساتھ مٹھائی کا ڈبہ‘ مصر سے بھی موصول ہوا ہے!
مصر کے مفتیِ اعظم نے بھارتی وزیر اعظم مودی سے ملاقات کی ہے۔ یہ ملاقات مصر میں ہوئی ہے! اس ملاقات کے بعد مصر کے مفتیِ اعظم نے اس امر پر ‘ ماشاء اللہ‘ اطمینان کا اظہار کیا ہے کہ'' مودی بھارت میں مختلف مذہبی طبقات میں بقائے باہمی اور ہم آہنگی بڑھانے کے لیے قابلِ قدر کام کر رہے ہیں۔ '' مفتی صاحب نے کہا ہے کہ اس سے پہلے نئی دہلی میں بھی صوفی کانفرنس کے موقع پر مودی سے ان کی ملاقات ہو ئی تھی۔ مفتیِ اعظم نے مودی کی دانشمندانہ قیادت کو خراج تحسین پیش کیا ہے اور اس توقع کا اظہار کیا ہے کہ بھارتی وزیر اعظم ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے جو کوششیں کر رہے ہیں اس میں تعاون کو مزید فروغ دیا جائے گا۔ میڈیا کی اطلاع کے مطابق مفتیِ اعظم مصر نے بھارتی جھنڈے کے سامنے کھڑے ہو کر بھارتی وزیر اعظم کے تدبر کو خراجِ تحسین پیش کیا‘‘۔
مجبوری یہ ہے کہ اس عظیم الشان بین الاقوامی کامیابی کا سہرا پاکستان کی وزارتِ خارجہ کے سر ہی باندھا جا سکتا ہے! قاہرہ میں ایک پاکستانی سفارت خانہ بھی یقینا ہو گا۔ ایک عام آدمی کے ذہن میں کچھ سوال اُٹھتے ہیں۔ زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ وزارتِ خارجہ کے بزرجمہر کسی بھی عام آدمی کے ذہن میں پیدا ہونے والے سوالات کو خاطر میں نہیں لائیں گے۔ عام آدمی کا مسئلہ یہ ہے کہ اس نے ٹائی لگائی ہوئی ہے نہ تازہ ترین ڈیزائن کا سوٹ زیب تن کیا ہوا ہے۔اس کے منہ میں لمبا سا قیمتی پائپ ہے نہ امپورٹڈ سگار! نہ اس کی زندگی کا واحد مقصد یورپ اور امریکہ میں تعینات ہونا ہے!
جو کچھ بھارت مقبوضہ کشمیر میں کر رہا ہے اور آسام سے لے کر گوا تک جو کچھ مذہبی اقلیتوں‘ خاص طور پر‘ مسلمانوں کے ساتھ کر رہا ہے ‘ اس کا اگر چوتھا حصہ بھی پاکستان میں ہو رہا ہوتا تو بھارت نے دنیا میں قیامت برپا کردینا تھی۔ اس کا فارن آفس‘ اس کے سفارت خانے ‘اس کی میڈیا کی وزارت اور متعلقہ ادارے‘ پاکستان کے خلاف پروپیگنڈے سے کرۂ ارض کو بھر دیتے۔مگر پاکستان ہے کہ بھارت کے کھلے ظلم سے ‘ جو اندھے کو بھی نظر آرہا ہے‘ دنیا کو آگاہ نہیں کر سکا! کچھ سوالات ہیں جو ہر معقول ذہن میں اُٹھ سکتے ہیں۔ کیا وزارتِ خارجہ نے بھارتی مسلمانوں کیساتھ ہونے والی بدسلوکی کی تشہیر کرنے کے لیے اپنے سفارت خانوں کو کبھی ہدایت کی ہے؟ اگر کی ہے تو اس کا نتیجہ کیا نکلا؟ کیا فیڈ بیک کا کوئی نظام وضع کیا گیا؟ کیا اس حوالے سے سفارت خانوں کی کارکردگی کا جائزہ لیا گیا؟ کتنے ملکوں کے بڑے اخبارات میں ہمارے سفارتخانوں نے اس حوالے سے مضامین لکھے؟ ان سوالوں کے جواب جاننا عوام کا حق ہے! کیونکہ قیمتی ڈیزائن سوٹ‘ ریشمی نکٹائیاں اور سگار اور پائپ عوام ہی کے خون پسینے کا نتیجہ ہیں! دہلی میں واقع ہمارے سفارتخانے کے پاس تو یقینا مکمل اعدادو شمار ہوں گے کہ مودی کے وزیر اعظم بننے کے بعد مسلمانوں کے خلاف کتنے اور کہاں کہاں فسادات ہوئے؟کتنے مسلمان گوشت رکھنے کے جرم میں گھروں سے ہاتھ دھو بیٹھے ؟ کتنے مارے گئے؟ گائے لانے یا لے جانے والے کتنے مسلمانوں کو جان سے مار دیا گیا! یوپی کا وزیر اعلیٰ ادتیا ناتھ مسلمانوں کو اذیت دینے کے لیے کیا کچھ کر رہا ہے۔ آسام میں کتنے مسلمانوں سے شہریت چھینی گئی؟کیا وزارتِ خارجہ نے یہ تمام اعدادو شمار دہلی میں واقع پاکستانی سفارت خانے سے لے کر تمام پاکستانی سفارت خانوں کو بھیجے ہیں؟ قصہ مختصر ‘ پاکستانی سفارت خانوں نے اس حوالے سے کیا کچھ کیا ہے؟
مفتیِ اعظم مصر نے کسی صوفی کانفرنس کا ذکر بھی کیا ہے جو بھارت میں منعقد ہوئی تھی۔ یہ ایک بھارتی چال تھی! عالم اسلام کو دھوکا دینے کے لیے! دہلی میں واقع پاکستانی سفارت خانے نے یقینااس نام نہاد صوفی کانفرنس کی تفصیلات وزارتِ خارجہ کو بھیجی ہوں گی! کیا وزارتِ خارجہ نے متعلقہ وزارتوں کو اور وقت کے وزیر اعظم کو یہ باور کرایا کہ پاکستان میں بھی بین الاقوامی سطح کی صوفی کانفرنس کا اہتمام ضروری ہے؟ تاکہ بھارت کو بتایا جا سکے کہ عالم اسلام کو دھوکا دینے کی اجازت پاکستان اسے کبھی نہیں دے گا! پاکستانی سفارت خانے نے یقینا اُن معتبر شخصیات کی فہرست اسلام آباد کو بھیجی ہو گی جو اس صوفی کانفرنس میں شامل ہو ئی تھیں؟ کیا ان شخصیات کو ہمارے سفیروں نے مل کر اصل صورت حال سے آشنا کرنے کی کوشش کی ؟ مصر ہی کو لے لیجیے۔ مفتیِ اعظم مصر یقینا مصر کی اہم ترین شخصیات میں شامل ہیں۔ پروٹوکول کی فہرست میں ان کا نمبر اور مقام خاصا بلند ہو گا۔ سوال یہ ہے کہ قاہرہ میں متعین پاکستانی سفیر کبھی مفتیِ اعظم کو ملنے گئے؟ کیا کبھی انہیں پاکستانی سفارت خانے کی تقاریب میں مدعو کیا گیا؟ کیا انہیں کسی نے کبھی پاکستان کا دورہ کرنے کی دعوت دی ؟ اگر ایسا کچھ نہیں کیا گیا تو پاکستانی وزارتِ خارجہ کو اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے اور اپنی کارکردگی کا محاسبہ کرنا چاہیے! مفتیِ اعظم مصر کا مودی کے حوالے سے یہ بیان سفارتی اور تشہیری میدان میں پاکستان کی شکستِ فاش ہے!
اس بات کو بھی چھوڑ دیجیے کہ بیرونی ممالک میں رہنے والے پاکستانی اپنے سفارت خانوں کے بارے میں کیسا تجربہ رکھتے ہیں اور ان کے کیا خیالات ہیں!
سب کو معلوم ہے کہ کون سے سرخاب کے پر لگے ہیں! وزارت خارجہ کے اربابِ قضا و قدر ہی کا مائنڈ سیٹ دیکھ لیجیے۔ ہم ہر گز یہ نہیں کہہ رہے کہ پانچوں انگلیاں ایک جیسی ہیں! فارن آفس کے افسروں اور اہلکاروں میں فرض شناس اور خوش اخلاق افراد بھی پائے جاتے ہیں! جلیل عباس جیلانی سیکرٹری خارجہ تھے تو عام شہری کی ای میل کا جواب بھی دیتے تھے اور ٹیلیفون کال بھی سنتے تھے۔ مسٹر سہیل محمود کا رویہ اس کے مقابلے میں افسوسناک تھا۔ ایک ریٹائرڈ سرکاری افسر کا بیٹا شام کے جنگ زدہ علاقے میں پھنسا ہوا ہے جہاں سے اس کا گھر والوں سے رابطہ مکمل طور پر معدوم ہے۔ اس افسر نے بہت کوشش کی کہ سہیل محمود صاحب سے ملے مگر بات کرنا جہاں نا ممکن ہو وہاں ملاقات کیسے ہو گی؟ اس کالم نگار نے بھی انہیں کئی بار فون کیا مگر انہوں نے بات نہ کی۔ آسٹریلیا میں کچھ عرصہ پہلے ایک خاتون سفارت کار متعین تھیں۔ وہ بھی بات نہیں کرتی تھیں۔ ایک پاکستانی کا مسئلہ اٹکا ہوا تھا اور خاتون بہادر نارسائی کے حصار میں تھیں۔ نفیس زکریا صاحب نے‘ جو فارن آفس کے ترجمان تھے‘ مدد کی اور خاتون سفیر سے بات کی! مددگار اور مثبت افسروں کے ساتھ ساتھ وہ افسر اور اہلکار بھی موجود ہیں جو احساسِ کمتری کے مارے ہوئے ہیں۔ایسے افراد کو اپنے ہی ملک کے شہریوں سے بات کرنا یا ان کے مسائل حل کرنا بھاتا نہیں !!
ایک بات طے ہے کہ مفتیِ اعظم مصر نے مودی اور بھارتی جھنڈے کے سامنے کھڑے ہو کر پاکستان کے سر پر جو چپت رسید کی ہے اُس چپت کو وزارتِ خارجہ میں محسوس کیا جائے گا نہ وزارتِ اطلاعات میں اور نہ ہی وزارتِ مذہبی امور میں !! یہاں تو ترجیحات ہی اور ہیں! ان ترجیحات میں ملک‘ قوم ‘ عوام یا عزتِ نفس بہت نیچے ہیں! ترجیحات میں سر فہرست کیا کیا ہے ؟
آپ بھی جانتے ہیں اور لکھنے والے کو بھی معلوم ہے !!