میں ملازمت کی پہلی سیڑھی پر تھا اور مغل صاحب ملازمت کی آخری سیڑھی پر۔ دفتر میں ہمارے کمرے ساتھ ساتھ تھے۔ مغل صاحب خوش اطوار تھے۔ خوش گفتار تھے اور خوش لباس! انسٹھ ساٹھ کے پیٹے میں تھے مگر لباس اتنا عمدہ اور تازہ ترین فیشن کا زیب تن کرتے تھے کہ چالیس کے لگتے تھے۔ ان کے پاس بیٹھ کر ہمیشہ شگفتگی کا احساس ہوتا۔ باتوں میں ایک لطیف سا مزاح تھا۔ مہمان نوازی میں اپنی مثال آپ۔پھر یوں ہوا کہ مغل صاحب ریٹائر ہو گئے۔ ادارے نے انہیں بھاری دل کے ساتھ رخصت کیا۔ دعوتیں ہوئیں۔ تحائف پیش کئے گئے۔
چند ماہ گزرے تھے کہ میرے کمرے کا دروازہ کھلا اور ایک بابا جی اندر داخل ہوئے۔ سر پر کپڑے کی سوراخوں والی ہوا دار ٹوپی۔ کھلے گلے کا ملگجا کرتا جو گھٹنوں سے کافی نیچے تھا۔ شلوار کے پائنچے ٹخنوں سے اوپر تو تھے ہی‘ گھٹنوں سے اوپر بھی جانا چاہتے تھے مگر کسی نامعلوم وجہ سے پنڈلیوں کے درمیان رک گئے تھے۔ شلوار کا ایک پائنچہ جنوبی ایشیا کا رخ کر رہا تھا تو دوسرا شرقِ اوسط کا۔ اگر بابا جی السلام علیکم نہ کہتے تو میں پہچان نہ پاتا کہ یہ تو اپنے مغل صاحب ہیں۔ خواہش اور کوشش کے باوجود میں ان سے پوچھ نہ سکا کہ یہ کایا کلپ کیسے ہوئی۔ چند ماہ میں وہ اچھی بھلی خوش لباسی سے اتر کر بدلباسی پر کیوں سوار ہو گئے۔
یہ بھولا بسرا واقعہ یوں یاد آیا کہ میرے ایک پرانے دوست آج کل اس بات پر خصوصی طور پر غور کر رہے ہیں کہ ریٹائرمنٹ کے بعد کچھ لوگ زندگی کو تج دیتے ہیں۔ آخر کیوں؟ جبکہ کچھ لوگ زندگی سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اس قدر کہ گویا ریٹائرمنٹ سے پہلے اس لطف سے آشنائی ہی نہ تھی۔ ان کا یہ غور‘ اور اس موضوع کو اہمیت دینا‘ اور اس پر لکھنا اور لکھوانا‘ ایک لحاظ سے خدمتِ خلق ہے۔ اور ریٹائرمنٹ کے بعد جو افراد ذہنی طور پر قبرستان میں جا بیٹھتے ہیں‘ انہیں واپس ان کے گھروں میں لانے کی جدوجہد ہے! گزشتہ ہفتے برادرِ عزیز جناب راؤ منظر حیات کہ امورِ سرکار سے وابستہ رہے اور ریٹائرمنٹ کے بعد زندگی کے اَن دیکھے خوشگوار پہلوؤں سے لطف اندوز ہوئے اور ہو رہے ہیں! ان کا ایک مضمون شائع ہوا۔ جس میں انہوں نے ریٹائرمنٹ کے مثبت پہلوؤں کا احاطہ کیا۔ میرے پرانے دوست نے‘ جس کا ذکر سطور بالا میں کیا ہے‘ راؤ صاحب کے اس مضمون کی طرف میری توجہ مبذول کی۔ اس سے مجھے تحریک ہوئی۔ سوچا کہ ''پوسٹ ریٹائرمنٹ‘‘ ایک دلچسپ اور انتہائی مفید موضوع ہے۔ اس پر انتہائی اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد اور کہنہ مشق مشہور صحافی دانش اور تجربات کے موتی بکھیر رہے ہیں۔ تو میں بھی ''پھتے‘‘ کی طرح دخل در معقولات کا ارتکاب کروں اور اس ضمن میں اپنے ناقص خیالات اور بے بضاعت تجربات کا ذکر کروں!
''پھتے‘‘ کا قصّہ یوں ہے کہ چار بھائی تھے۔ ایک ہیڈ ماسٹر تھا۔ دوسرا فوج میں افسر تھا۔ تیسرا مجسٹریٹ تھا۔ چوتھا کھوتی پر ریت ڈھونے کا کام کرتا تھا۔ جہاں مکان زیر تعمیر ہوتا‘ وہاں پھتا کھوتی پر ریت لاد کر پہنچاتا۔ اس کا نام فتح خان تھا مگر جیسا کہ ہمارے کلچر میں نام بگاڑنے کی روایت عام ہے۔ خاص طور پر جس بدقسمت انسان کا معاشرے میں کوئی قابلِ ذکر مقام نہ ہو تو اس کا نام ضرور بگاڑا جاتا ہے؛ چنانچہ فتح خان کو بھی ''پھتا کھوتی والا‘‘ کے نام سے جانا اور پکارا جاتا تھا۔ دلچسپ صورتحال تب پیدا ہوئی تھی جب ان چاروں بھائیوں کا تذکرہ باتوں باتوں میں کرنا پڑتا۔ ہیڈ ماسٹر صاحب‘ میجر صاحب‘ مجسٹریٹ صاحب اور پھتا کھوتی والا‘‘! یہاں سے یہ محاورہ وجود میں آیا کہ پھتا وِچ بھراواں گتّا‘‘ گتّا گننے سے بنا ہے۔ یہ فعل مجہول ہے یعنی ''گِنا جاتا ہے‘‘۔ پیشے کچھ کے کتنے ہی معزز کیوں نہ ہوں اور بلند سماجی رتبے کے حامل کیوں نہ ہوں‘ جب ایک باپ کی اولاد کا تذکرہ ہوگا تو بلند سماجی مرتبوں والوں کے ساتھ پھتے کھوتی والے کا ذکر لازماً آئے گا۔ یعنی پھتا وِچ بھراواں گتّا‘‘ تو جہاں اتنے بڑے بڑے قلم کار اور اہلِ دانش ریٹائرمنٹ کے بعد کی زندگی پر رشحاتِ قلم بکھیر رہے ہیں‘ وہاں میں نے ارادہ کیا ہے کہ میں ''پھتا‘‘ بھی اپنے خیالات اور مشاہدات سے پڑھنے والوں کے صبر کا امتحان لوں!
ذاتی تجربات بیان کرنے سے احتراز کروں گا۔ ''واحد متکلم‘‘ کے صیغے سے یوں بھی اجتناب کی کوشش ہوتی ہے‘ اپنے تجربات کی تعمیم (Generalisation) کر دی ہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد کی زندگی‘ جتنی بھی ہے‘ سزا کی صورت بھی اختیار کر سکتی ہے اور انعام و اعزاز کی بھی! اس کا انحصار ریٹائر ہونے والے شخص کے حالات‘ مزاج‘ افتادِ طبع‘ نفسیات اور ماحول پر ہے۔ مگر سب سے زیادہ انحصار اس شخص کی سوچ اور رویے پر بھی ہے‘ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ وہ سڑیل ہے اور سنکی یا زندہ دل ہے‘ ساری زندگی اس نے بخل میں گزاری ہے یا فیاضی میں! یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ عادات و خصائص‘ مثبت ہیں یا منفی‘ ساٹھ سال کی عمر کے بعد اچانک تبدیل نہیں ہو سکتے! ان تمام Ifs اور Buts کے باوجود‘ چند عوامل کہہ لیجئے یا اشارے‘ یا Tips‘ کچھ پہلوؤں کی طرف اشارہ کیے دیتے ہیں!
اوّل: یہ بات اچھی طرح ذہن میں رکھیے کہ آپ ملازمت سے ریٹائر ہو رہے ہیں‘ زندگی سے نہیں! آپ سے وہ ساتھی چھوٹے ہیں جو آپ کے ساتھ صبح نو بجے سے شا م چار پانچ بجے تک ہوتے تھے۔ آپ کی صبحیں بھی وہی ہیں‘ شامیں بھی وہی اور راتیں بھی وہی ہیں۔ آپ کی فیملی بھی وہی ہے‘ اعزہ‘ و اقارب بھی وہی‘ محلہ بھی وہی ہے اور مسجد بھی وہی! یعنی آپ کی روزمرہ زندگی کا صرف ایک پہلو بدلا ہے جبکہ زیادہ پہلو وہی ہیں اور ویسے ہی ہیں جیسے پہلے تھے۔ کوئی پہاڑ جتنی تبدیلی آپ کے معمولات ہیں‘ آپ کے قرب و جوار میں اور آپ کے احباب واعزہ میں نہیں آئی۔ اس لیے آپ اپنی خوش لباسی ہرگز ترک نہ کیجئے۔ یہ درست ہے کہ آپ ہر روز صبح دفتر نہیں جا رہے مگر جہاں بھی جانا ہو‘ کسی عزیز کے ہاں‘ کسی دوست کے ہاں‘ کسی لائبریری میں‘ کسی کلب میں‘ آپ بہترین پوشاک‘ جو آپ کے پاس ہے‘ زیب تن کر کے جائیے۔ آپ کوشش کیجئے کہ مسجد میں بھی اچھے سے اچھا لباس پہن کر جائیں۔ یہ جو شلوار قمیض ہے یہ ہمارا علاقائی لباس ضرور ہے اور قومی! مگر یہ عرب ہے نہ اسلامی! شلوار قمیض پہن کر ہی مسجد میں جانا ہے تو آپ کی شلوار قمیض مائع لگی ہو اور استری شدہ ہو! آپ کائنات کے مالک کے دربار میں حاضر ہونے جا رہے ہیں! شلوار قمیض نہیں‘ تو بہترین شرٹ‘ بہترین ٹی شرٹ اور بہترین پتلون پہن کر مسجد جائیے! آپ کو اتنا ہی خوش لباس ہونا چاہیے جتنا آپ ملازمت کے زمانے میں تھے! ذہنی طور پر ریٹائرمنٹ کو ذہنی پریشانی اور دباؤ کا سبب ہرگز نہ بننے دیجئے! کوئی قیامت نہیں ٹوٹی۔ آسمان کا کوئی ٹکڑا آپ کے سر پر نہیں آ گرا۔ وہی سہانی صبحیں ہیں وہی تاروں بھری شامیں! وہی دل آویز ہوائیں ہیں‘ وہی چاندنی‘ وہی دھوپ وہی جھومتے درخت‘ وہی بُور سے لدی ٹہنیاں‘ وہی پھول‘ وہی تتلیاں! ایسی کون سی مصیبت آن پڑی ہے کہ آپ نے ریٹائرمنٹ کو اپنے دل پر لے لیا ہے!
دوم: آپ کے پاس یقینا کچھ رقم بھی ہوگی۔ کچھ پس انداز کی ہوئی‘ کچھ زمین یا کسی کاروبار سے‘ کچھ مرکز قومی بچت سے‘ کچھ پنشن سے! آپ اس رقم پر خدارا مارِ سرِ گنج بن کر نہ بیٹھ جائیے! (اس پہلو پر ہم اپنے 29مئی 2023ء کو چھپنے والے کالم میں بھی تفصیلی روشنی ڈال چکے ہیں!) اسے اپنی ذات‘ اپنے آرام اور اپنی ضروریات پر خرچ کیجئے اور فراخ دلی سے خرچ کیجئے۔ یہ جو کچھ لوگ روپیہ اور جائیداد سینت سینت کر رکھتے ہیں کہ کل‘ ان کے دنیا سے چلے جانے کے بعد اولاد کے کام آئے گی‘ وہ نہ صرف گاؤدی بلکہ بودے بھی ہیں!(جاری)