خدا کے لیے اس ملک پر رحم کیجئے

سامنے اس وقت ایک رسالہ پڑا ہے! ''ماہنامہ اخبارِ اردو‘‘۔ اسے ''ادارۂ فروغِ اردو‘‘ نکالتا ہے۔ یہ وہی ادارہ ہے جسے پہلے ''مقتدرہ قومی زبان‘‘ کہتے تھے!
کیا آپ نے کبھی کسی ریستوران میں ماہیٔ مسلّم یعنی سالم پکی ہوئی مچھلی کا آرڈر دیا ہے؟ یا گھر میں پکائی ہے؟ یاد کیجیے! جب ہم اسے کھا چکتے ہیں تو اس کی کیا شکل نکل آتی ہے؟ کانٹوں پر مشتمل ایک لمبا پنجر! جس کا ماس ہمارے معدوں میں پہنچ چکا ہوتا ہے! یہی حالت آج کے پاکستان کی ہے۔ ہمارے سامنے ایک پنجر پڑا ہے۔ درمیان میں ریڑھ کی ہڈی ہے۔ ارد گرد کانٹے ہیں۔ گوشت معدوں میں پہنچ چکا ہے۔ مگر ہماری بھوک ہے کہ مٹ نہیں رہی۔ بھنبھوڑنے کا عمل مسلسل جاری ہے! سٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر صاحب نے ان 620معززین کے اسمائے گرامی پاکستانی عوام کو بتانے سے معذرت کر لی ہے جنہیں کورونا کی افتاد کے دوران ''قرض‘‘ دیا گیا تھا۔ قرض کا لفظ واوین میں اس لیے لکھا ہے کہ اب تک کی ہسٹری کی رُو سے کسی بڑے نے کبھی قرض واپس نہیں کیا اور کسی چھوٹے کا قرض کبھی معاف نہیں کیا گیا۔ یہ قرض تین ارب ڈالر کا تھا جو بقول سٹیٹ بینک کے‘ انڈسٹری کو بچانے کے لیے دیا گیا تھا! اس وقت تحریک انصاف کی حکومت تھی! اس ''قرض‘‘ کا زیادہ حصہ ٹیکسٹائل سیکٹر کو دیا گیا۔ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے ارکان نے نام پوچھے اور کئی بار پوچھے مگر گورنر صاحب کا موقف تھا‘ اور ہے‘ کہ نام بتانے سے قرض خواہوں کا اعتبار مجروح ہوتا ہے۔ سٹیٹ بینک نے یہ سخاوت ضرور کی کہ تفصیلات ''اِن کیمرہ‘‘ اجلاس میں بتانے کا وعدہ کیا۔ ''اِن کیمرہ‘‘ اجلاس کا مطلب ہے کہ تفصیلات اجلاس سے باہر نہیں جائیں گی! پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے سربراہ جناب نور عالم خان کی شہرت ایک دبنگ اور صاف گو پارلیمنٹیرین کی ہے۔ نہ جانے کیوں وہ اِن کیمرہ اجلاس پر راضی ہو گئے۔
اعتبار کا ایک معاہدہ بینکوں اور قرض خواہوں کے درمیان ہے۔ قرض خواہ طاقتور ہیں‘ اس لیے معاہدے کی پاسداری لازم ہے! اعتبار کا ایک معاہدہ پاکستانی عوام اور پاکستانی ریاست کے درمیان ہے۔ چونکہ عوام بے بس ہیں‘ اس لیے اس معاہدے کو تار تار کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں! یہ اور بات کہ قرض کی رقوم انہی عوام کے خون پسینے کی کمائی پر مشتمل ہیں۔ یہ ایسے ہی ہے کہ آپ ایک فیکٹری کے مالک ہوں‘ آپ نے ایک خزانچی رکھا ہوا ہو جو کارکنوں کو تنخواہیں دے اور خزانچی آپکو کارکنوں کے نام اور تنخواہوں کی تفصیل مہیا کرنے سے انکار کر دے۔ فیکٹری آپکی! خزانچی آپکا ملازم! اور آپ ہی کو بتانے سے منکِر!! روپیہ عوام کا‘ سٹیٹ بینک کے حکام عوام کے ملازم! اور عوام ہی سے اطلاعات خفیہ رکھی جا رہی ہیں! ویسے ایسا پہلی بار نہیں ہو رہا! جب گورنر کی‘ اور بعد میں وائسرائے کی‘ تعیناتی لندن سے ہوتی تھی تب بھی عوام کو ریوڑ سمجھا جاتا تھا اور اطلاعات ان سے خفیہ رکھی جاتی تھیں! اگر آج بھی عوام اپنے تین ارب ڈالر لے جانیوالوں کے نام جاننے کا حق نہیں رکھتے تو پھر کم از کم گورنر صاحب کا نام بدل کر وائسرائے تو کر دیجیے!!
گزشتہ ہفتے ہمارے ایک دوست‘ معروف کالم نگار نے یہ دلچسپ نکتہ اٹھایا ہے کہ ایک طرف کہا جاتا ہے کہ وزیر خارجہ اپنے خرچ پر بیرونی ملکوں کے دورے کر رہے ہیں اور دوسری طرف سپیشل جہاز میں جاتے ہیں تو اپنا ٹکٹ کیسے خریدتے ہیں؟ آخر وہ عام کمرشل پروازوں میں سفر کیوں نہیں کرتے؟ اس وقت جو ہمارے مالی حالات ہیں‘ ان میں تو یہ بات انتہائی افسوسناک ہے کہ کبھی بڑے لوگوں کے حج کے لیے خصوصی پروازیں جارہی ہیں اور کبھی وزیر خارجہ سپیشل جہاز پر جاتے ہیں! اگر گھر کا سارا خرچ مانگے کے پیسوں سے چل رہا ہو تو دال سبزی کھائی جاتی ہے یا قورمے اور زردے اڑائے جاتے ہیں؟ ہم کتنے عجیب لوگ ہیں! اسّی سے زیادہ وزرا تو صرف وفاق میں ہیں! صوبوں کے وزرا ان کے علاوہ ہیں! ان کی تنخواہیں‘ ان کی مراعات‘ ان کی گاڑیاں‘ گاڑیوں کا پٹرول‘ مینٹی نینس! ان کا سٹاف اور سٹاف کی تنخواہیں اور مراعات! کیا کسی کے دل میں خدا کا خوف ہے؟ ملک کا وزیراعظم آئی ایم ایف کی سربراہ کے آگے ہاتھ پھیلا رہا ہے اورکفایت شعاری کا کہیں نام بھی نہیں! کالم کی ابتدا میں ہم نے ادارۂ فروغِ اردو کے ماہانہ میگزین کا ذکر کیا ہے! پینتالیس‘ پچاس صفحات کے اس نام نہاد جریدے کے اکثر صفحات آرٹ پیپر پر مشتمل ہیں اور یہ تقریباً سارا ہی پکٹوریل یعنی رنگین تصویروں سے اَٹا ہے۔ بانٹا بھی مفت ہی جاتا ہے! سوال یہ ہے کہ قومی خزانے کے ساتھ یہ بے رحمی کیوں؟ ''مقتدرہ قومی زبان‘‘ جنرل ضیا الحق کے زمانے میں وجود میں آیا۔ اس کے پہلے سربراہ معروف مورخ ڈاکٹر اشتیاق احمد قریشی تھے جو جنرل ضیا الحق کے استاد تھے۔ ڈاکٹر اشتیاق قریشی نے تاریخ پر بہت کام کیا مگر اردو میں ان کی کوئی کتاب کم از کم ہمارے علم میں نہیں! اسے ''استاد پروری‘‘ ہی کہا جا سکتا ہے! ادارے کا مقصد اردو کا نفاذ تھا جو آج تک نہیں ہو سکا۔ ڈاکٹر وحید قریشی‘ افتخار عارف اور پروفیسر ڈاکٹر انوار احمد جیسے مشاہیر اس کے سر براہ رہے۔ یہ بڑے لوگ تھے اور زندگی بھر کا تجربہ رکھتے تھے۔ ان کے عہد میں کام بھی ہوا مگر اس وقت پاکستان اس شدید مالی بحران میں مبتلا نہ تھا جو آج درپے ہے۔ اس وقت یہ ادارے افورڈ ہو سکتے تھے۔ جو معاشی صورت حال اور اقتصادی برہنگی آج ملک کو صلیب پر لٹکائے ہے‘ اس میں ان اداروں پر پیسہ لگانا ظلم کے سوا کچھ نہیں! نوجوان محقق ڈاکٹر راشد حمید اس ادارے کے سربراہ ہیں اور ضائع ہو رہے ہیں! وہ لائق ہیں اور اہلِ علم! انہیں کسی یونیورسٹی میں استاد ہونا چاہیے! یوں بھی اکادمی ادبیات اور ادارۂ فروغِ اردو میں جوہری فرق کیا ہے؟ یہ تکرارکے سوا کچھ نہیں! اگر ایسے ادارے صوبوں میں موجود ہیں تو وفاق میں ان کی کیا ضرورت ہے اور اگر وفاق ان کے بغیر نہیں چل سکتا تو صوبوں میں کیوں؟
ملکی خزانہ خالی ہے۔ اگر کچھ خزانے میں موجود ہے تو وہ قرض سے حاصل شدہ رقم ہے۔ خدا کیلئے اس ملک پر رحم کیجئے۔ جو ادارے ضروری نہیں‘ انہیں ختم کیجئے۔ غیرضروری اور کئی کئی دنوں پر مشتمل فضول کانفرنسوں کے نخرے مزید نہ اٹھائے جائیں! کابینہ‘ وفاقی ہے یا صوبائی‘ مختصر کیجئے۔ وزیر‘ سفیر اور عمائدین سرکاری گاڑیوں میں کم از کم پٹرول تو اپنی جیب سے ڈلوائیں۔ ان میں کون اتنا مفلس ہے جو پٹرول ڈلوانے کی استطاعت سے محروم ہے؟ ایوانِ صدر کا بجٹ کم کیا جائے۔ وزیراعظم‘ صوبوں کے گورنر اور وزرائے اعلیٰ اپنے اپنے دفتروں کے اخراجات پر نظر ثانی کریں۔ ویٹروں‘ باورچیوں‘ نائب قاصدوں‘ ڈرائیوروں اور Valetsکے جتھے کم کیے جائیں! سرکاری اجلاسوں میں چائے اور دیگر چونچلے ختم کیے جائیں۔ قائداعظم سرکاری اجلاسوں میں چائے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ ان کا فرمان تھا کہ جسے چائے پینی ہو‘ گھر سے پی کر آئے! بیورو کریسی‘ نوری ہے یا ناری‘ سول ہے یا خاکی‘ خدا کیلئے اپنے اپنے بجٹ پر نظر ثانی کرے۔ قطرہ قطرہ مل کر دریا ہوتا ہے اور پیسہ پیسہ جڑ کر خزینہ بنتا ہے! ہم ایک ایک دروازہ کھٹکھٹا رہے ہیں! کشکول اٹھائے پوری دنیا میں آوازے لگا رہے ہیں مگر غیر ترقیاتی اخراجات ہیں کہ جوں کے توں ہیں! کہیں کٹ لگتا نہیں نظر آرہا! پاؤں بدستور چادر سے باہر ہیں! ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ پاؤں چادر سے باہر ہوں تو ہاتھ پھیلانا پڑتے ہیں۔ ترقی یافتہ قوموں میں دوسرے ملکوں کے حکمران آئیں تو انہیں برگر کھلایا جاتا ہے یا کسی عام ریستوران میں سادہ کھانا! ہم پکوانوں کے ڈھیر لگا دیتے ہیں‘ بے تحاشا اسراف کرتے ہیں۔ ہم تو اتنے ''غیرتمند‘‘ ہیں کہ آج بھی ایوانِ صدر کے خدام پگڑیوں اور اچکنوں میں ملبوس ہیں! انہیں انگریزوں نے یہ لباس ہماری اشرافیہ کی تذلیل کیلئے پہنایا تھا!!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں