بادشاہ بیمار ہوا اور ایسا بیمار کہ جان کے لالے پڑ گئے۔کوئی علاج کار گر نہیں ہو رہا تھا۔ساری مملکت سے حکما منگوائے گئے۔آخر کار بیماری کی تشخیص ہوئی۔ جتنی عجیب اور پُراسرار بیماری تھی اتنا ہی مختلف اور مشکل نسخہ تجویز ہوا۔ نسخہ یہ تھا کہ ایک نوجوان کے پِتّے سے دوا بنے گی اور نوجوان بھی وہ جس میں فلاں فلاں خصوصیات ہوں! ان خصوصیات کو سامنے رکھ کر پورے ملک میں تلاش شروع ہوئی۔ بالآخر ایک غریب کسان کا بیٹا ملا جس میں وہ خصوصیات موجود تھیں جن کا مطالبہ حکما نے کیا تھا۔ اْس زمانے میں میڈیکل سائنس نے اتنی ترقی تو کی نہیں تھی کہ سرجری کر کے پتّہ نکال لیں اور جان بھی ضائع نہ ہو۔ پتّہ نکالنے کا ایک ہی طریقہ تھا کہ سر قلم کر دیا جائے اور لاش سے پتّہ نکال کر حکما کے حوالے کر دیا جائے۔ نوجوان کے ماں باپ کو بادشاہ کی زندگی کی اہمیت بتائی گئی۔ مملکت کے سربراہ کی زندگی کے مقابلے میں رعایا کے ایک معمولی فرد کی اہمیت ہی کیا تھی۔اوپر سے نوجوان کے ماں باپ کو '' معاوضہ‘‘ کی شکل میں اتنا مال منال دیا گیا کہ ان کی کئی نسلوں کیلئے کافی تھا۔ وہ راضی ہو گئے! اس کے بعد قاضی سے فتویٰ لیا گیا کہ ملک کے سربراہ کی جان بچانے کے لیے ایک شخص کا خون بہانا جائز ہے۔ ان ساری رکاوٹوں کے ہٹ جانے کے بعد جلاد کو حکم دیا گیا کہ نوجوان کی گردن اُڑا دے۔ نوجوان نے آسمان کی طرف دیکھا اور مسکرایا! بادشاہ نے پوچھا کہ مسکرانے کا یہ کون سا موقع ہے؟ نوجوان نے کہا کہ انسان کا سب سے بڑا سہارا اس کے ماں باپ ہوتے ہیں۔ میرے ماں باپ نے مال و دولت کے بدلے میری زندگی کا سودا کر ڈالا۔اس کے بعد قاضی ہوتا ہے جو انصاف کرتا ہے۔ یہاں قاضی نے میری ہلاکت کو جائز قرار دیا ہے۔ اس سے بھی بڑی اتھارٹی بادشاہ کی ہوتی ہے جو رعایا کا مائی باپ ہوتا ہے۔ میرے معاملے میں بادشاہ کا اپنا فائدہ میری موت میں ہے۔ اس کے بعد خدا ہی کی ذات ہے جو مجھے بچا سکتی ہے۔ اس لیے آسمان کی طرف دیکھا اور مسکرایا۔ کہانی کے اس موڑ پر پہنچ کر ہمارا مقصد پورا ہو جاتا ہے مگر قارئین کا تجسس دور کرنے کے لیے کہانی کا بقیہ حصہ بھی سنا دیتے ہیں۔ بادشاہ کا دل پسیج گیا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ اس ناجائز قتل کی نسبت اس کی ا پنی موت ہی بہتر ہے! نوجوان کی جان بخشی ہو گئی۔ خدا نے کرم کیا اور اس نیک عمل کے بدلے میں بیماری سے شفایابی بھی ہو گئی۔
شیخ سعدی کی بیان کردہ یہ حکایت یوں یاد آئی کہ سٹیٹ بینک آف پاکستان نے کورونا کے دنوں میں چھ سو بیس بڑے لوگوں کو‘ یا بڑے لوگوں کی کمپنیوں کو‘ تین ارب ڈالر قرض دیا جو تقریباً مفت ہی تھا۔ مقصد یہ بتایا گیا کہ ڈوبتی ہوئی انڈسٹری کو بچانا تھا۔ خوب! اچھا کیا! تو یہ بتا ئیے کہ کون کون سی انڈسٹری کو‘ یا کون کون سی کمپنیوں کو یہ قرضہ دیا گیا؟ اس کے نتائج کیا نکلے؟ یہ معلومات سٹیٹ بینک نے قوم کو بتانے سے انکار کر دیا! ملک کی سب سے بڑی اتھارٹی قومی اسمبلی ہے۔ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی قومی اسمبلی کا حصہ ہے! پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے سٹیٹ بینک کو حکم دیا کہ نام بتا ئے جائیں! سٹیٹ بینک نے کہا ''اِن کیمرہ‘‘ اجلاس رکھیے۔ یعنی ایسا اجلاس جس کی کاروائی خفیہ ہو اور باہر نہ آسکے۔ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے یہ بات بھی مان لی۔ مگر میڈیا کہتا ہے کہ چھ سو بیس افراد یا کمپنیوں کے نام اس خفیہ اجلاس میں بھی نہ بتائے گئے۔ قوم کی ساری امیدیں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی سے وابستہ تھیں۔اب اگر وہ بھی یہ نام نہ اگلوا سکی تو پھر اس کے بعد خدا ہی کی ذات ہے جس کے آگے فریاد کی جا سکتی ہے! اس لیے آئیے ہم بھی اُس مظلوم نوجوان کی طرح آسمان کی طرف دیکھیں اور مسکرائیں!
لطیفہ ہے یا مذاق کہ جس قرض کے لیے آئی ایم ایف کے سامنے ہفتوں اور مہینوں ہم گڑ گڑاتے رہے‘ گھٹنے پکڑتے رہے‘ پاؤں پڑتے رہے‘ سفارشیں کراتے رہے۔ شرائط تسلیم کرتے رہے‘ وعدے کرتے رہے‘ قسمیں اٹھاتے رہے‘ اس قرض کی مالیت تین ارب ڈالر ہی تو ہے! وہ بھی قسطوں میں! دل پر ہاتھ رکھیے! خدا کو حاضر ناظر جان کر اپنے آپ سے پوچھیے کہ اس سے بڑی حماقت کیا ہو سکتی ہے! تین ارب ڈالر آپ کے خزانے میں موجود تھے! آپ نے انہیں خزانے سے نکالا اور بانٹ دیا! اور پھر آپ اتنی ہی رقم کے لیے کشکول اُٹھا کر آئی ایم ایف کے دروازے پر سجدہ ریز ہو گئے!
کورونا نے جو معاشی تباہی مچائی اس کی تلافی کے لیے قرض دینا کوئی اچنبھے کی بات نہیں نہ کوئی جرم ہے! سٹیٹ بینک کا موقف ہے کہ حکومت سے پوچھے بغیر یہ قرض دینا اس کے اختیارات میں تھا! یہ بھی مان لیا! مگر سوال یہ ہے کہ کیا قرض دینے کا مقصد پورا ہوا؟ کیا مطلوبہ نتائج حاصل ہوئے ؟ کیا ملک کی معیشت کا فائدہ پہنچا؟ یہ سب سوالات حق بجانب ہیں! ان جائز‘ بلکہ ضروری‘ سوالات کا جواب اسی صورت میں حاصل ہو سکتا ہے جب متعلقہ افراد یا کمپنیوں کے نام معلوم ہوں! پھر ان سے پوچھا جائے کہ قرض کو کس طرح استعمال کیا گیا؟ فوائد کی کون سی فصل کاٹی گئی؟ ملک کا اقتصادی گراف اس سے کتنا بلند ہوا؟ پلک اکاؤنٹس کمیٹی ملک کی بلند ترین اتھارٹی ہے! اس کے بنیادی فرائض میں شامل ہے کہ ان لوگوں کے نام معلوم کرے اور سوالات پوچھے! مگر افسوس! صد افسوس! کمیٹی بھی بے بس ثابت ہوئی! چھ سو بیس طاقتور افراد‘ یا کمپنیوں کے طاقتور افراد جیت گئے! منتخب نمائندے بے بس ثابت ہوئے!
روایت اس ملک کی یہ رہی ہے کہ قرضے لینے والے بڑے لوگ قرضے واپس نہیں کرتے! ان قرضوں کی میعاد لمبی کرا لیتے ہیں اور آخر کار معاف کرا لیتے ہیں! پچھلے پچاس ساٹھ برسوں میں جتنے قرضے دیے گئے اور معاف کر دیے گئے‘ وہ اس قرض سے شاید ہی کم ہوں جو اس عرصے میں آئی ایم ایف اور دوسرے ملکوں سے لیے گئے! یہ ایک دلچسپ مطالعہ ( سٹڈی) ہو گا! کسی محقق کو‘ یا کسی معیشت دان کو اس موضوع پر کام کرنا چا ہیے۔ یہ ایم فل کے لیے ایک انتہائی زبردست ٹاپک ہو گا! اس سے معلوم ہو گا کہ ہم کتنا آگے بھا گے ہیں اور پھر کتنا پیچھے کی طرف لڑھکے ہیں؟ پہلے ہم خزانہ لٹاتے ہیں‘ پھر بھیک مانگ کر بھرتے ہیں۔ جب بھر جاتا ہے تو پھر لٹانا شروع کر دیتے ہیں! ہم وہ لوگ ہیں جو دن بھر دیوار چاٹتے ہیں۔ رات کو اسے ٹھیک کرتے ہیں اور صبح پھر چاٹنا شروع کر دیتے ہیں!
اب ایک ہی طریقہ رہ گیا ہے! قرض دینے سے پہلے آئی ایم ایف‘ دیگر شرائط کے ساتھ ساتھ‘ یہ شرط بھی رکھے کہ دیے گئے قرضوں کا حساب دو اور جو آج تک معاف کیے گئے‘ ان کی بھی تفصیل دو! ایسا ہو تو کس مائی کے لال میں جرأت ہے کہ نام نہاد رازداری کا ڈھونگ رچائے!بے حمیّتی کی بہت سی اقسام ہیں! بدترین بے حمیتی وہ ہے جس میں اپنی حکومت‘ اپنے اداروں اور اپنے عوام سے حقائق پوشیدہ رکھے جائیں مگر اقتصادی استعمار کے سامنے جھک جائیں! کون سی آزادی ہے یہ ؟ بقول فراق گورکھپوری ؎
دلِ آزاد کا خیال آیا
اپنے ہر اختیار کو دیکھا!
سچ بتائیے! کیا آپ کو اپنے منتخب اداروں پر پیار نہیں آرہا؟