عمران خان کی گرفتاری پر ان کے حامیوں کا اظہارِ افسوس قابلِ فہم ہے۔ لیکن اگر ان کے مخالفین خوش ہو رہے ہیں تو انہیں خوش نہیں ہونا چاہیے!
اس لیے کہ ایک امید پوری طرح موت کے گھاٹ اُتر گئی ہے۔ اگرچہ یہ امید عمران خان کی حکومت شروع ہونے کے بعد جلد ہی دم توڑ گئی تھی ‘ مگر ایک چنگاری موجود تھی۔ ایک موہوم سی آس زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا تھی۔ یہ آس اس بات کی تھی کہ کیا خبر عمران خان کسی وقت اپنا محاسبہ کر لیں‘ اپنی دانستہ غلطیوں کی اصلاح کر لیں اور ملک کے لیے بے غرض ہو کر کام کرنے کا بیڑہ اٹھا لیں! ان میں پوری صلاحیت تھی کہ ملک کی سمت تبدیل کر کے ایک مثبت اور تاریخی کردار ادا کر یں۔ ان کی گرفتاری اور نااہلی سے آس کی یہ بچی کھچی رمق بھی ختم ہو گئی ہے۔
اقتدار میں آنے کے بعد بدل جانا کوئی نئی بات نہیں۔ مگر جس طرح عمران خان ایک سو اسی درجے کے زاویے پر مڑے‘ اس کی مثالیں تاریخ میں کم ہی ملیں گی اور یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی مثال نہ ملے۔ یہ لکھنے والا ان کا پُر زور حمایتی تھا۔ اس لیے کہ کروڑوں دوسرے لوگوں کی طرح میں بھی روایتی سیاسی جماعتوں سے نا امید ہو کر عمران خان کی طرف لپکا تھا۔ان کا پروگرام‘ ان کے دعوے‘ ان کے وعدے‘ ان کے ظاہری عزائم کسی بھی محب ِ وطن کو متاثر کرنے کے لیے کافی تھے۔ افسوس ! حکومت سنبھالنے کے بعد انہوں نے ‘ مسلسل‘ پے در پے‘ سرپرائز دیے۔ سب سے پہلا سرپرائز عثمان بزدار تھے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ کسی مرحلے پر عمران خان اعتراف کریں کہ بزدار کی تعیناتی ان کی غلطی تھی ؟ اور یہ بھی بتادیں کہ کس کے کہنے پر انہوں نے بزدار کا انتخاب کیا تھا۔ آخر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے حوالے سے بھی تو انہوں نے مان لیا ہے کہ میں تو قاضی فائز عیسیٰ کو جانتا بھی نہیں تھا‘ میری تو جسٹس فائز عیسیٰ سے کبھی ملاقات بھی نہیں ہوئی۔ ہمیں تو ریفرنس بھیجا گیا تھا‘ ہم نے آگے پہنچا دیا۔ (گویا وہ یا تو مقتدرہ کے سامنے بے بس تھے یا پھر یہ ''ایک پیج‘‘ کا شاخسانہ تھا )۔ بالکل اسی طرح کیا عجب کسی دن وہ یہ بھی مان لیں کہ میری تو بزدار سے کبھی ملاقات ہی نہیں ہوئی تھی۔ مجھے تو فلاں نے کہا تھا۔
بزدار کے بعد سرپرائزز کے ڈھیر لگ گئے۔ پرویز الٰہی‘ شیخ رشید‘ ڈاکٹر عشرت حسین سب سرپرائزز ہی تو تھے۔ کابینہ میں زیادہ نہیں تو پچاس فیصد چہرے وہی تھے جو ہر کابینہ میں آزمائے جا چکے تھے۔ ایک منفرد سرپرائز یہ تھا کہ عمران خان کسی بھی ایشو پر اپنے گزشتہ مؤقف سے مکمل دستبردار ہو کر یکسر مختلف مؤقف اپنا لیتے تھے۔ انہوں نے‘ اس سلسلے میں ‘ کبھی معذرت یا وضاحت کرنے کی بھی ضرورت محسوس نہ کی! اس کی ایک دلچسپ مثال تارکینِ وطن کے بارے میں ان کا بدلتا مؤقف تھا۔ حکومت میں آنے سے پہلے ان کا نظریہ یہ تھا کہ تارکین ِوطن ‘ ملک میں کسی منصب کے اہل نہیں ہو سکتے۔ بعد میں ان کے خیالات بالکل بدل گئے اور انہوں نے اپنے بہت سے انڈے اسی ایک ٹوکری میں ڈال دیے۔
عمران خان کے ناقدین عام طور پر ان کے مزاج کے دو پہلوؤں کو ان کی ناکامی کا سبب قرار دیتے ہیں۔ ایک منتقم مزاجی اور دوسری خودرائی اور خود پسندی۔ یہ درست ہے کہ منتقم مزاجی ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ انہوں نے اپنے عہدِ اقتدار میں چن چن کر اپنے سیاسی مخالفین کو قید و بند کی سزائیں دیں۔ یہاں تک کہ امریکہ کی سرزمین پر کھڑے ہو کر اعلان کیا کہ جا کر فلاں کا اے سی بھی جیل میں اتروا دوں گا۔ چھوڑوں گا نہیں ‘ ان کا عمومی نعرہ تھا۔ سیاستدان تھے یا صحافی یا میڈیا مالکان‘ جو بھی ان کی کتاب میں ناپسندیدہ تھا‘ اسے سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا۔ خود رائی بھی ان کی انہیں حقیقتِ حال سے بے خبر رکھتی تھی۔ نر گسیت کہہ لیجیے یا خود پسندی‘ وہ ہر علم ‘ ہر فن ‘ہر موضوع‘ ہر میدان میں اپنے آپ کو سب سے زیادہ جاننے والا اور حرفِ آخر گردانتے تھے۔ اس میں شک نہیں کہ یہ دونوں عارضے انہیں لاحق تھے۔مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کے زوال کا سبب یہ دو عامل نہیں۔تاریخ کو چھانا جائے تو بے شمار حکمرا ن منتقم مزاج گزرے ہیں اور اپنے آپ کو عقلِ کل سمجھنے والے بھی ! سلاطین اور مغلوں کا عہد تو چھوڑیے‘ ہمارے اپنے زمانے میں بھی انتقام خوب لیے گئے۔ عمران خان کی یہ بات تو سب کو یاد ہے کہ اے سی اتروا دوں گا مگر یہاں تو یہ دھمکیاں بھی دی جاتی رہیں کہ پیٹ پھاڑ ڈالیں گے اور سڑکوں پر گھسیٹیں گے۔ عقلِ کل ہونے کا دعویٰ بھی بہت سے حکمران‘ کبھی زبانی تو کبھی عملاً کرتے رہے ہیں۔
عمران خان کی ناکامی کی اصل وجہ ان کی توہم پرستی اور ضعیف الاعتقادی تھی۔ یہ توہم پرستی اور ضعیف الاعتقادی معمولی نہیں ‘ بلکہ حد سے بڑھی ہوئی تھی۔ عمران اس کے ہاتھوں میں ایک بے بس انسان تھے۔ جکڑے ہوئے! ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے! حکمران ہمیشہ سے توہم پرست رہے ہیں۔ مغل بادشاہ پنڈتوں اور پروہتوں سے کنڈلیاں نکلواتے تھے اور نجومیوں سے ''مبارک‘‘ ساعتیں پوچھتے تھے۔ ایوب خان نے ایک ہی دن دو خطبوں( عید اور جمعہ) سے بچنے کے لیے علما کو قید کر دیا۔ ضیا الحق‘ زرداری‘ جتوئی‘ نواز شریف ‘ بینظیر سبھی کسی نہ کسی حد تک ‘ کسی نہ کسی شکل میں‘ ضعیف الاعتقاد تھے۔ بابا دھنکا کی چھڑیاں سبھی نے کھائیں۔کبھی سمندر سے دور رہے کبھی پہاڑوں سے۔ بے شمار کالے بکروں کو طبعی موت سے محروم کیا گیا۔ مگر عمران خان کی ضعیف الاعتقادی حد سے بڑھی ہوئی تھی یہاں تک کہ وزیر اعظم بننے کی خواہش میں خاتون کی عدت پوری ہونے سے پہلے نکاح کا ارتکاب کر بیٹھے۔ اور جانتے بوجھتے ہوئے ایسا کیا۔ چلیے یہ بھی ایک ذاتی فعل تھا۔ مگر ناکامی کی بڑی ‘ بلکہ اصل وجہ یہ تھی کہ سنجیدہ امورِ مملکت کو بھی ضعیف الاعتقادی کی آگ میں جھونک ڈالا۔جس دن عمران خان نے خود اپنی زبان سے بزدار کی تعیناتی کی وجہ بتائی تو بہت سوں کی آنکھیں کھل جائیں گی! وزیروں اور سیکرٹریوں کی تعیناتیاں بھی اسی نام نہاد ''روحانیت‘‘ کی چکی میں پیسی گئیں۔ مذاکرات کے نتیجے میں تین بار الیکشن کی تاریخیں عمران خان کو پیش کی گئیں مگر ‘ مبینہ طور پر ‘ کسی کی ہدایت پر نا منظور کر دی گئیں! یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ بچوں کو ملنے سے بھی روک دیا گیا۔
نام نہاد'' روحانیت ‘‘ کا ایک خطرناک جال تھا جو بہت سوچ سمجھ کر‘ انتہائی چالاکی سے بچھایا گیا۔ اور یہ توہم پرست اور ضعیف الاعتقاد شخص اس میں پھنسا اور پھر پھنستا ہی چلا گیا۔ عون چوہدری کے بقول ''بی بی نے ہمیں دیکھتے ہی اعلان کر دیا کہ تم دونوں پر جادو ہے۔ بی بی نے بعد ازاں خان صاحب کے سر اور چہرے پر دونوں ہاتھ پھیرے‘‘! کتنا بڑا المیہ تھا کہ اس قدر جلد باتوں میں آ جانے والا اور دامِ تزویر میں گرفتار ہو جانے والا شخص پورے ملک کا حکمران بن گیا۔ سعدی نے کہا تھا:
عزیزی کہ از درگہش سر بتافت
بہر در کہ شُد ہیچ عزت نیافت
جس نے اُس کے دروازے سے منہ موڑا‘ اس کی کسی اور دروازے پر پذیرائی نہ ہوئی! اور وہ ذات جس کے ہاتھ میں مملکتیں ہیں اور عزتیں اور ذلتیں‘ اس نے خود ہی قاعدہ کلّیہ بتا دیا ہے '' اور جو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرتا ہے تو گویا وہ آسمان سے گر پڑا پھر اسے پرندے اچک لیتے ہیں یا اسے ہوا اڑا کر کسی دور جگہ پھینک دیتی ہے‘‘۔