خربوزے اور لسی

بابائے اردو ڈاکٹر مولوی عبد الحق نے اپنی مشہور کتاب ''چند ہم عصر‘‘ میں اپنے مالی‘ نام دیو کا خاکہ لکھ کر ایک نئی طرح ڈالی۔ مگر ساتھ ہی مولوی صاحب ڈنڈی بھی مار گئے بلکہ دودھ میں مینگنیاں ڈال دیں‘ انہوں نے کتاب کی ترتیب میں نام دیو کا خاکہ سب سے آخر میں رکھا اور مولانا‘ خواجہ‘ شمس العلما‘ سید اور مولوی کو فہرست میں اوپر رکھا۔ نام دیو ذات کا ڈھیڑ تھا۔ مولانا اشرف علی تھانوی سے لے کر بابائے اردو تک ہمارے سب بزرگ ''اشراف‘‘ اور ''اجلاف‘‘ میں فرق برتنا کبھی نہیں بھولتے تھے۔ مگر یہ ایک الگ معاملہ ہے اور طولانی! اصل بات یہ ہے کہ بابائے اُردو کی یہ تحریر ہیئت اور مضمون دونوں اعتبار سے خوبصورت‘ مؤثر اور یادگار ہے۔ بڑے لوگوں پر بہت اہتمام سے لکھا جاتا ہے اور بہت اشتیاق سے پڑھا جاتا ہے۔ مگر ہماری زندگی میں جو عام کردار ہوتے ہیں‘ ہمیں نظر ہی نہیں آتے! وہ نائب قاصد جو دفتر میں آپ کی میز اور دکان میں آپ کی نشست صاف کرتا ہے‘ وہ بہت چھوٹے قد کا یا بہت لمبے قد کا آدمی جو ہوٹل کے صدر دروازے پر کھڑا آپ کے لیے دروازہ کھولتا ہے‘ وہ خاتون جو سالہا سال سے آپ کے گھر میں برتن دھوتی ہے اور فرش صاف کرتی ہے۔ وہ سابق فوجی جو آپ کی گلی یا آپ کے محلے میں گارڈ کا فرض سرانجام دیتا ہے۔ یہ سب کردار اپنے اندر بہت کچھ چھپائے پھر رہے ہیں۔ کیا ہم نے کبھی ان کی زندگیوں کے اندر جھانکنے کی کوشش کی؟
سیموئل ہمارا پرانا خدمت گار ہے۔ اس کا مرحوم والد بھی ہمارے ہاں کام کرتا تھا۔ سیموئل کوئی عام آدمی نہیں‘ یوں سمجھیے گویا ایک جادو گر ہے۔ کوئی ایسا کام نہیں جو وہ نہ کر سکتا ہو۔ دیوار ٹوٹ گئی ہے تو اس کی مرمت کر دے گا۔ ٹائلیں اُکھڑ گئی ہیں تو انہیں فِکس کر دے گا۔ دروازوں کو یا گملوں کو پینٹ کر دے گا۔ بجلی کا مسئلہ ہے تو اسے حل کر دے گا۔ سامان شفٹ کرنا ہے تو انتظامات کرے گا اور یوں کہ کوئی کمی نہیں رہے گی۔ میری بیگم کو جو پودا کسی نرسری میں نہیں ملے گا‘ سیموئل ڈھونڈ کر لے آئے گا۔ سب سے بڑی خوبی اس کی یہ ہے کہ ہر وقت مسکراتا رہتا ہے۔ پنجابی اس کی دلکش ہے۔ فون کرے گا‘ میں پوچھوں گا کہ خیریت سے فون کیا ہے؟ تو جواب میں کہے گا ''او جی میں سوچیا تہاڈا حال ای پُچھ لَواں!‘‘ وہ جی میں نے سوچا کہ آپ کا حال ہی پوچھ لوں! کمال اس نے یہ کیا کہ اپنا مکان بھی خود ہی بنا لیا۔ راج مزدور تو یقینا ساتھ تھے مگر سیموئل نے کسی ٹھیکیدار کا احسان نہ لیا اور خود ہی سارا کام کیا اور کرایا۔ اس کے دو بھائی ہیں۔ ان کے اصل نام نہیں معلوم! ایک کو تربوز کہتا ہے دوسرے کو گونگلو یعنی شلغم! دونوں کی شادیاں‘ بڑا بھائی ہونے کے ناتے اسی نے کرائیں! ہم حیران تھے کہ خود شادی کیوں نہیں کرتا۔ کسی نہ کسی طرح ہمیں معلوم ہو گیا کہ اس نے شادی کر رکھی ہے مگر یہ خبر اس نے خفیہ رکھی ہوئی ہے۔ وجہ نہ جانے کیا تھی۔ ہم نے کرید کر کبھی نہ پوچھا مگر گمان غالب یہ ہے کہ ماں نے مخالفت کی ہو گی۔ ہمارے ہاں مائیں‘ جس مذہب یا مسلک کی ہوں اور جو زبان بھی بولتی ہوں‘ کم ہی ایسی ہیں جو بیٹے کو شادی اس کی مرضی سے کرنے دیں۔ ادھر بیٹے نے کسی لڑکی کو پسند کیا اُدھر ماں کو یاد آگیا کہ پیٹ میں تو اس نے رکھا تھا‘ پالا تو اس نے ہے‘ اب چلا اپنی پسند کی شادی کرنے!
ایک دفعہ ہمارا ڈرائیور ہم پر تین حرف بھیج کر چلا گیا۔ اس نے سختی سے ہدایت دی ہوئی تھی کہ چائے عین گیارہ بجے پیش کی جائے۔ ہمارے ہاں اس نے کام شروع کیا تو پہلے دن اس کی خدمت میں ٹی بیگ والی چائے پیش کی گئی۔ اس نے حقارت سے لوٹا دی کہ یہ پانی قسم کی نام نہاد چائے پینے کے لائق نہیں۔ اسے مِکس چائے دی جائے جو کافی دیر آگ پر پکائی گئی ہو‘ دودھ اور چینی اس میں زیادہ ہو اور عین گیارہ بجے پیش کی جائے۔ اس کی ہدایات پر سختی سے عمل کیا جاتا رہا۔ ایک دن‘ جب میری پوتی کا عقیقہ تھا اور مہمانوں کا ہنگامہ تھا‘ اس کی چائے کو ایک گھنٹہ تاخیر ہو گئی۔ گیارہ بجے کے بجائے چائے بارہ بجے دی گئی۔ اس نے چائے رکھ دی‘ گاڑی کی چابیاں حوالے کیں اور یہ کہہ کر چلا گیا کہ آپ لوگ اس قابل نہیں کہ آپ کے ہاں کام جاری رکھا جائے۔ اسے بہت کہا کہ جتنے دن کام کیا ہے‘ اس کی تنخواہ تو لیتے جاؤ مگر معلوم نہیں اس کی رگوں میں چنگیزی خون تھا یا ہٹلر اس کا آئیڈیل تھا‘ ایک منٹ بھی نہ رُکا۔ اس دن کام بہت تھے اور ڈرائیور کی سخت ضرورت تھی۔ گویا ڈرائیور عین منجدھار میں چھوڑ گیا تھا۔ میں نے سیموئل کو فون کیا کہ ڈرائیور کی سخت ضرورت ہے اور جلد ضرورت ہے۔ مجھے یقین تھا کہ نیا ڈرائیور کئی دن کی تلاش کے بعد ہی ملے گا۔ مگر میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب دو گھنٹے بعد ایک سمارٹ نوجوان آیا اور بتایا کہ وہ ڈرائیور ہے اور اسے سیموئل نے بھیجا ہے۔ آج تک وہی نوجوان ہمارا ڈرائیور ہے۔
جن دنوں نگران وزیراعظم کی ڈھنڈیا پڑی ہوئی تھی‘ میں بھی کوئی مناسب سا نگران وزیراعظم تلاش کر رہا تھا۔ ایک دن اچانک میرے ذہن میں روشنی سی آئی۔ آخر مجھ میں کیا کمی ہے؟ میرے بھی دو ہاتھ اور دو پاؤں ہیں۔ مجھے بھی قدرت نے معدہ اور دماغ عطا کیے ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ میرے پاس سیموئل ہے جو دنیا کا ہر کام کر سکتا ہے۔ اُس دن اتوار تھا۔ مجھے معلوم تھا کہ سیموئل چرچ میں ہوگا۔ میں نے شام تک انتظار کیا اور شام کے بعد فون کر کے اسے اگلی صبح آنے کو کہا۔ دوسرے دن میں ابھی ناشتہ کر رہا تھا کہ وہ موٹر سائیکل پر سوار آگیا۔ میں نے اسے چائے کا گرم گرم کپ دیا اور بتایا کہ کام بہت بڑا ہے اور حساس نوعیت کا ہے۔ میں نگران وزیر اعظم لگنا چاہتا ہوں۔ سیموئل نے چائے کا لمبا سا گھونٹ بھرا جس کی آواز دور تک گئی۔ کہنے لگا: سر جی گل ای کوئی نئیں! صدر صاحب سے بھی بات کر لیتے ہیں اور دیگر قوتوں کو بھی اعتماد میں لے لیتے ہیں! آپ بس شیروانی سلوائیے بلکہ تھری پیس سوٹ آپ پر بہت سجے گا۔ ایوانِ صدر میں دو خاکروب اور دو ویٹر اس کے دوستوں میں سے تھے۔ وہ ان سے ملا اور کہا کہ کسی طرح صدر صاحب سے اس کی ملاقات کرائی جائے۔ خاکروب حضرات نے تو معذرت کر لی مگر ایک ویٹر نے جو بہت نڈر تھا اور باتیں کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا تھا‘ وعدہ کیا کہ صدر صاحب سے ملوا دے گا۔ اسی شام سیموئل میرے پاس آیا‘ وہ حسبِ معمول مسکرا رہا تھا۔ کہنے لگا: سر جی صدر صاحب سے ملاقات جلد ہو جائے گی اور امیدِ واثق ہے کہ وہ ہماری تجویز کو پسند بھی فرمائیں گے۔ ایک بار جب صدر صاحب ہمارے ہم خیال ہو جائیں گے تو دیگر فیصلہ ساز قوتوں سے بات منوانا آسان ہو جائے گا۔ مگر قدرت کو اس بار میرا نگران وزیراعظم بننا منظور نہ تھا۔ یقینا اس میں کوئی آسمانی مصلحت ہو گی۔ ہوا یہ کہ جو ویٹر سیموئل کا دوست تھا‘ اس بے وقوف نے ایک شام خربوزے کھائے اور اوپر سے لسی پی لی۔ پیٹ میں شدید درد اٹھا‘ یہ ہیضے کی کوئی قسم تھی جو اسے لاحق ہوئی۔ وہ کئی دن ہسپتال میں رہا۔ یوں وہ سیموئل کی ملاقات صدر صاحب سے نہ کرا سکا۔ پرسوں جب نگران وزیراعظم کا اعلان ہوا تو سیموئل میرے پاس ہی بیٹھا تھا۔ مسکرا کر کہنے لگا: سر جی گل ای کوئی نئیں‘ ان شا اللہ اگلی بار یہ کام ضرور ہو گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں