مہنگائی کا ہولناک طوفان ہے۔ بجلی کے بلوں نے لوگوں کو سول نافرمانی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ دہشت گردی گردن پر سوار ہے۔ دوسرے ملکوں کو ہجرتیں زوروں پر ہیں۔ بھارت چاند پر اُتر چکا! مگر ان میں سے کوئی مسئلہ بھی اہم نہیں! اہم مسئلہ‘ نازک ترین مسئلہ‘ جو اس وقت درپیش ہے‘ میاں نواز شریف صاحب کی واپسی ہے۔ میاں صاحب ستمبر میں واپس آئیں گے۔ میاں صاحب اکتوبر میں واپس آئیں گے۔ شاہد خاقان عباسی کہتے ہیں میاں صاحب کی واپسی کا جاوید لطیف سے پوچھ لیں۔ عطا تارڑ فرماتے ہیں نواز شریف کی واپسی کی حتمی تاریخ کا اعلان قانونی ٹیم سے مشاورت کے بعد کیا جائے گا! شہباز شریف اسی دن فرماتے ہیں میاں صاحب اکتوبر میں آئیں گے۔ کیا جدید جمہوری تاریخ میں اس نزاکت کی‘ اس نخرے کی‘ اس مذاق کی کوئی مثال ہے؟ چلئے‘ عمران خان کے عہدِ اقتدار میں تو دشمنی کا خطرہ تھا۔ جب آپ کا سگا بھائی حکمرانِ اعلیٰ تھا تو تب کیا مسئلہ تھا؟ اب نگران حکومت کی آپ سے کیا دشمنی ہے؟
کوئی مانے یا نہ مانے‘ بے شک کسی کو بُرا لگے:
بارہا گفتہ ام و بارِ دگر می گویم
پہلے بھی کہا ہے‘ میاں صاحب لندن کی طربناک زندگی نہیں چھوڑ سکتے۔ یہ دعویٰ ہے اور اس دعوے کی دلیل موجود ہے! جب میاں صاحب مقتدر تھے تو کیا ہر عید لندن میں نہیں مناتے تھے؟ آپ کا کیا خیال ہے‘ تازہ ترین یعنی آخری دورِ حکمرانی میں انہوں نے لندن کے کتنے دورے کیے؟ جون 2013ء سے لے کر فروری 2016ء تک‘ یعنی دو سال آٹھ مہینوں میں میاں صاحب نے لندن کے سترہ دورے کیے! یعنی اوسطاً ہر پونے دو ماہ بعد ایک ٹرپ لندن کا!! اس عرصے میں وہ قومی اسمبلی کتنی بار تشریف لائے؟ سینیٹ کو کتنی بار شرف بخشا؟ کابینہ کے کتنے اجلاس منعقد کیے؟ سچ یہ ہے کہ وہ ایک مخصوص طرزِ زندگی‘ ایک خاص معیارِ زندگی سے لطف اندوز ہو رہے ہیں! ایون فیلڈ کے اپارٹمنٹ نما محلات‘ ہائیڈ پارک‘ صاحبزادوں کے شاہانہ دفاتر‘ لندن کے شاپنگ سنٹر‘ لندن کے ریستوران! پاکستان میں جتنی بھی تعیشانہ زندگی ہو‘ لندن کے اس بلند معیار کا مقابلہ تو نہیں کر سکتی! پھر معاملے کو ایک اور زاویے سے دیکھیں۔ یہاں کی مہنگائی‘ یہاں کے بجلی کے بل‘ یہاں کی ٹریفک‘ یہاں کی پانی کی کمی‘ پاکستانی عوام کی مصیبتوں بھری زندگی‘ اس سب کچھ کا احساس لندن میں رہ کر کیسے ہو سکتا ہے؟ یہ لطیفہ شاید عطا الحق قاسمی صاحب نے لکھا تھا کہ ایک ہوائی جہاز‘ دورانِ پرواز ہچکولے کھا رہا تھا۔ آثار خوف زدہ کرنے والے تھے۔ مسافر چیخ رہے تھے۔ ڈر تھا کہ بس اب جہاز گرا۔ اچانک مائیک سے آواز آئی۔ عزیز مسافرو! گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ پرواز کو کوئی خطرہ نہیں۔ اگر آپ نیچے دیکھیں تو آپ کو خوبصورت نیلا سمندر دکھائی دے گا۔ اس میں ایک دیدہ زیب کشتی چل رہی ہے۔ ہم اسی کشتی سے بول رہے ہیں! حافظ شیرازی کا یہ شعر تو ضرب المثل ہے۔
شبِ تاریک و بیمِ موج و گردابی چنین ہائل
کجا دانند حالِ ما سبکسارانِ ساحل ہا
ساحلوں پر مزے لُوٹنے والوں کو کیا خبر کہ کالی رات‘ بھنور اور موجوں کے درمیان انسان کی کیا حالت ہوتی ہے۔
آخر عمران خان کی بے شمار غلطیوں کے باوجود آج بھی پاکستانیوں کی ایک کثیر تعداد عمران خان کا ساتھ کیوں دے رہی ہے؟ اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے اور اشد ضرورت ہے۔ عمران خان نے پنجاب کو تین خاندانوں کے سپرد کر دیا۔ گجر فیملی‘ مانیکا فیملی اور یادش بخیر بزدار صاحب! پہلی بار سول سروس کے باوقار اور باعزت مناصب فروخت ہوئے۔ یہ سب کچھ عمران خان کے علم میں تھا۔ اس نے کاروبارِ مملکت توہم پرستی اور ضعیف الاعتقادی کو سونپ دیا۔ منتقم پرستی کی انتہا نے اسے نارمل رہنے ہی نہ دیا! اس کے باوجود لوگ اس کے ساتھ ہیں۔ کیوں؟ اس لیے کہ لوگ ان دو خاندانوں سے عاجز آ چکے ہیں۔ آخر زرداریوں اور شریفوں کا لائف سٹائل قلاش اور مقروض پاکستان سے کیا مناسبت رکھتا ہے؟ زرداری صاحب دبئی جاتے ہیں تو سپیشل جہاز پر جاتے ہیں۔ کتنے ہی لوگ ملے جو عمران خان کو ناپسند کرتے ہیں مگر وہ ان دو خاندانوں کو قبول نہیں کر سکتے۔ جب بھی غلامانہ ذہنیت اعلان کرتی ہے کہ میاں صاحب چوتھی بار وزیراعظم بنیں گے تو بخدا مسلم لیگ نون کے ووٹ پہلے سے کم ہو جاتے ہیں! جب بھی زرداری صاحب کہتے ہیں کہ وہ بلاول کو وزیراعظم دیکھنا چاہتے ہیں‘ لوگ دانتوں میں انگلیاں داب لیتے ہیں! کوئی ان دو خاندانوں کو باور کرائے کہ خدا اور رسول کے لیے اپنے خونی رشتہ داروں کے دائرے سے باہر نکلیں۔ رضا ربانی یا قمر زمان کائرہ کیوں نہیں وزیراعظم ہو سکتے؟ شیری رحمان میں کیا کمی ہے؟ پنجاب کی چیف منسٹری خاندان سے باہر کیوں نہیں نکل سکتی؟ سعد رفیق‘ احسن اقبال اور خواجہ آصف وزارتِ عظمیٰ کے اہل کیوں نہیں؟ ان حضرات کے بال دھوپ میں تو سفید نہیں ہوئے۔ انہوں نے بھی جیلیں کاٹی ہیں۔ ان کا بھی سیاست میں تین تین چار چار عشروں کا تجربہ ہے! یہ بات پتھر پر لکیر ہے کہ جب تک یہ دو خاندان اقتدار کے طلبگار رہیں گے یا اقتدار پر متمکن رہیں گے‘ عمران خان کی مقبولیت میں اضافہ تو ہو سکتا ہے‘ کمی نہیں ہو گی! میرے مستقل قارئین کو معلوم ہے کہ میں 2018ء سے پہلے کی حکومتوں کا ناقد تھا۔ ان حکومتوں سے مایوس ہو کر‘ کروڑوں دوسرے لوگوں کی طرح‘ عمران خان کی طرف لپکا۔ پہلی بار ووٹ دیا اور عمران خان کے امیدوار کو دیا۔ مگر عمران خان نے جب پنجاب تین خاندانوں کے سپرد کر دیا‘ سالہا سال کے آزمائے ہوئے خود غرض سیاستدانوں کو اپنے ساتھ ملا لیا‘ جنہیں عمران خود اپنی زبان سے پنجاب کے سب سے بڑے ڈاکو کا لقب دیتا تھا‘ انہی کو ساتھ کھڑا کر لیا تو تحریک انصاف کی مخالفت ناگزیر ہو گئی؟ ہم جیسے لوگ اب کیا کریں! پہلے دو جماعتوں کو ووٹ نہیں دیتے تھے! اب تین کو نہیں دیں گے!!!
یہ سطور لکھ رہا تھا کہ ابھی ابھی ایک عزیز دوست کا‘ جو بہت بڑے منصب سے ریٹائر ہوئے‘ فون آیا۔ انہوں نے ایک عجیب و غریب مطالبہ کر دیا۔ ایسا مطالبہ زندگی میں کم از کم میں نے پہلے نہیں سنا۔ کہنے لگے ''یار! اے جی پی آر سے معلوم کر دو کہ میرے بعد میری اہلیہ کو فیملی پنشن کتنی ملے گی؟‘‘ میں دم بخود رہ گیا۔ پھر کہا کہ اللہ آپ کو صحت کے ساتھ لمبی عمر دے‘ ایسی باتیں کیوں کر رہے ہیں! کہنے لگے: یار! جانا تو ہے ہی! تو معلوم کرنے میں کیا مضائقہ ہے؟ میں اس وقت سے سوچ رہا ہوں ہم میں سے کتنے ہیں جو سوچتے ہیں کہ جانا تو ہے! زرق برق زندگی کہاں سوچنے دیتی ہے! کون سبق سیکھتا ہے کہ طلسماتی محلات میں زندگی گزارنے والوں کو کفن ایدھی کا نصیب ہوتا ہے! وہ بھی خوش قسمتی ہے کہ نصیب تو ہو جاتا ہے! یہاں تو کتنے ہی بادشاہ‘ کتنے ہی کج کلاہ بے گورو کفن گئے! کون سمجھائے اور کون سمجھے! اچانک صادقین یاد آتا ہے۔ آدھی رات ایک طرف ہے اور آدھی دوسری طرف! بالائی منزل پر جاتا ہوں۔ لائبریری سے صادقین کی رباعیات نکالتا ہوں! دوسرے صفحے پر خریداری کی تاریخ درج ہے‘ ستمبر 1973ء۔ یہ طباعت دوم ہے‘ ستمبر 1971ء۔ کتابت اور مصوری صادقین کی اپنی ہے۔ لرزتے ہونٹوں سے اس کی رباعی پڑھتا ہوں
شہزادی جو کل کرتی چھنا چھن نکلی
شاہوں میں رقابت ہوئی‘ اَن بن نکلی
آج اس کی ہی کھوپڑی میں انڈے دے کر
اک آنکھ کے دائرے سے ناگن نکلی