بھارت چاند پر پہنچ گیا۔ ہم پیچھے رہ گئے۔ ہو سکتا ہے کچھ احباب کو تعجب ہوا ہو۔ یقین کیجیے مجھے کوئی تعجب نہیں ہوا! رمق بھر بھی نہیں ہوا!
اس لیے کہ کرکٹ کے علاوہ ہم نے ‘ کبھی ‘ کسی بھی میدان میں‘ ہارنے پر شرم محسوس نہیں کی۔بھارت کو ہم نے ہمیشہ کرکٹ کی عینک سے دیکھا۔ ہماری عزت ‘ بے عزتی کا مسئلہ ہمیشہ کرکٹ تک محدود رہا۔ کرکٹ میں بھارت سے ہارنے پر ہمیں دل کے دورے پڑتے ہیں۔ ہم اپنے ٹی وی سیٹ توڑ دیتے ہیں۔ صفِ ماتم بچھ جاتی ہے۔ جیت جائیں تو چھلانگیں آسمان تک مارتے ہیں۔ مگر دیگر معاملات میں ہم بے حس ہیں! بھارت نے تقسیم ِ ہند کے چار سال بعد‘ جی ہاں ! صرف چار سال بعد‘ زرعی اصلاحات لا کر ملکیت ِزمین کا ڈھانچہ (Land ownership pattern)ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بدل دیا۔ جاگیرداری اور سرداری نظام کی صف لپیٹ دی۔ راجوں‘ مہاراجوں‘ نوابوں کے القابات ختم کر دیے اور کچھ عرصہ بعد ان کی پنشنز اور مراعات بھی ! یہاں تک کہ کچھ کو تو اپنے محلات ہوٹلوں میں تبدیل کرنے پڑے۔ بھارت نے ملکیتِ زمین کی حد مقرر کر دی۔ یہ بہت بڑی مہم تھی جو بھارت نے سر کی۔ ہماری عزتِ نفس تو خیر کیا جاگتی ‘ ہمارے کان پر جوں تک نہ رینگی! زرعی پیداوار میں بھی بھارت نے ہمیں شکست دی۔ ہمارا پنجاب رقبے میں بھارتی پنجاب سے بڑا ہے۔ مگر بھارتی پنجاب گندم نہ صرف پورے بھارت کے لیے پیدا کر رہا ہے بلکہ گندم برآمد بھی ہو رہی ہے۔ 2016 ء میں بھارت نے پانچ کروڑ ڈالر کی گندم برآمد کی۔ 2020ء میں گندم کی برآمد چوبیس کروڑ تیس لاکھ ڈالر تک پہنچ گئی۔ اس معاملے میں بھی ہماری نالائقی نے ہمیں بالکل نہ جھنجوڑا۔ عرصہ ہوا ایک ذمہ دار شخص نے بتایا تھا کہ بھارتی کہتے تھے ہم صرف لائل پور کے ضلع سے تمہیں اتنی گندم اُگا کر دے سکتے ہیں کہ تمہارے پورے ملک کے لیے کا فی ہو گی۔ نہ جانے یہ روایت صحیح ہے یا نہیں مگر جو ہمارے لچھن ہیں ان کے پیش نظر ناممکن بھی نہیں۔آئی ٹی سیکٹر میں بھارت دنیا پر قبضہ کر چکا ہے۔ حیدرآباد‘ بنگلور اور چنائی اس حوالے سے مغرب کو مٹھی میں لے چکے ہیں۔ لوکل ٹرانسپورٹ میں ہم صفر سے ذرا ہی اوپر ہیں۔ وہ بھی میٹرو اور اورنج ٹرین کی برکت سے! دوسری طرف بھارت تمام بڑے شہروں میں انڈر گراؤنڈ ریلوے سسٹم قائم کر چکا ہے۔ صرف دہلی کی زیر زمین ریلوے ہی حیرت میں گم کر دیتی ہے۔ 391 کلو میٹر لمبی اس کی ریلوے لائن ہے اور دو سو ستاسی سٹیشن ہیں۔ حال ہی میں بھارت نے اپنی ایئر لائن نجی شعبے کے حوالے کر دی ہے۔ ریلوے ہماری نیچے اور اس کی اُوپر گئی ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ جمہوریت کے ضمن میں ہم بھارت سے کئی نوری سال پیچھے ہیں۔ اس حوالے سے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں! بھارت اپنے آپ کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہہ کر مسلسل کریڈٹ لے رہا ہے جبکہ ہماری شہرت دہشت گردی اور آمریت کے گرد گھوم رہی ہے۔ خارجہ پالیسی اس کی ہمیں پچھاڑ چکی ہے۔ ایران‘ یو اے ای اور سعودی عرب کے ساتھ اُس کے تعلقات قریبی ہیں۔ وسط ایشیائی ریاستوں پر بھارت سوویت یونین کے زمانے سے چھایا ہوا ہے۔ یہ ریاستیں آزاد ہوئیں تو اس کے بعد بھی ہم نے ان ریاستوں کو نظر انداز ہی کیا ۔آج بھی بھارتی کاروبار وہاں چھایا ہوا ہے! اس پس منظر میں بھارت کا چاند پر جانا ہمارے لیے پہلا دھچکا نہیں ! ہم نے اتنے دھچکے کھائے ہیں کہ یہ صورتحال ہمارے لیے نارمل ہو چکی ہے۔ خلائی میدان میں بھارت کی پلاننگ لمبی چوڑی ہے۔ ہم اپنے آپ کو صرف یہ تسلی دے سکتے ہیں کہ چلو! بھارت کی کامیابی جنوبی ایشیا ہی کی کامیابی ہے!
پڑھنے والے ایک سوال اٹھا سکتے ہیں کہ آخر پاکستان نے بھارت کے مقابلے میں ایٹم بم بھی تو بنا لیا ہے! مگر یہ زندگی اور موت کا سوال تھا۔ جب زندگی اور موت کا سوال اٹھے تو ہم پاکستانی کچھ نہ کچھ کر ہی لیتے ہیں لیکن اس کے بعد لمبی تان کر سو جانے کے عادی ہیں۔ ہم تو وہ زندہ دل قوم ہیں کہ‘ بقول ظفر اقبال‘ سسکی کو خراٹے کی شکل دے دیتے ہیں۔ ایٹم بم ہم نے بنا لیا۔ مگر بجلی پیدا کر سکے نہ ڈیم بنا سکے۔ ہر سال سیلاب آتے ہیں اور تباہی پھیلا کر چلے جاتے ہیں۔ ہم اس حوالے سے بھی کوئی قدم نہ اٹھا سکے۔ ہماری مثال اُس سست مزدور کی ہے جو کچھ مہینے کام کر کے کچھ کماتا ہے اور پھر یہ کمائی لے کر گھر میں بیٹھ جاتا ہے۔ جب پیسے ختم ہوتے ہیں تو پھر کام پر آجاتا ہے۔ یوں وہ ساری زندگی اسی دائرے میں گھومتا چلا جاتا ہے۔ ہم نے ایٹمی دھماکا تو کر دیا مگر اس کے بعد سے مسلسل افیون کی پینک میں ہیں ! وہی ہمارا پہلا اور آخری کارنامہ تھا!
جب بھی ہم کوئی ڈھنگ کا کام کرتے ہیں تو اس کے بعد افیون کھا لیتے ہیں۔ ہم نے پانچ سالہ اقتصادی منصوبے کامیابی سے چلائے۔ جنوبی کوریا نے انہی منصوبوں کی رہنمائی میں بے مثال ترقی کی۔ ہم نے ریورس گیئر لگا لیا۔ ہم نے جرمنی کو قرضہ دیا۔ پھر ہمیں ہاسا آگیا۔ ہم نے سنگاپور ایئرلائن اور ایمیریٹس کو جنم دیا۔ آج ہماری اپنی ایئر لائن سامانِ عبرت کے سوا کچھ نہیں۔ ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے وہ ملک جو ہم سے کوسوں پیچھے تھے‘ آج اتنا آگے جا چکے ہیں کہ ہم ان کی برابری کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ سنگاپور‘ ملائیشیا‘ جنوبی کوریا‘ تائیوان‘ چین ‘ دبئی‘ عمان‘ یہ سب ہم سے کم ترقی یافتہ تھے۔ آج ہم ان کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتے۔ہم خوش و خرم رہنے والے Happy Go Lucky قسم کی مخلوق ہیں۔ محنت سے ہم بھاگتے ہیں۔ دفتروں میں دس بجے پہنچتے ہیں۔ بازار ہمارے ظہر کے بعد کھلتے ہیں۔ ہماری ٹرینیں‘ ہمارے جہاز‘ ہماری بسیں پابندیٔ وقت سے ناآشنا ہیں۔ہماری شادی بیاہ کی تقاریب ہماری اصلیت کی آئینہ دار ہیں۔ ہم لباس ہائے فاخرہ زیبِ تن کر کے ایک پلیٹ بریانی کی خاطر شادی ہالوں میں گھنٹوں ہونّقوں کی طرح بیٹھے رہتے ہیں۔ اور تو اور ہمارے سرکاری اجلاس وقت پر نہیں شروع ہوتے۔ ہماری ٹریفک دنیا کی بدترین ٹریفکوں میں شمار ہوتی ہے۔ پچھتر برسوں میں ہم یہی نہیں طے کر سکے کہ چھٹی اتوار کو ہو گی یا جمعہ کے دن۔ پنڈی کا راجہ بازار جمعہ کے دن بند ہوتا ہے اور پنڈی صدر کے بازار اتوار کے دن چھٹی کرتے ہیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ ڈالر افغانستان جا رہے ہیں۔ اس مہلک سرگرمی کو روکنا ہمارے اداروں کے بائیں ہاتھ کا کام ہے مگر کوئی نہیں روک رہا۔ ایران سے پٹرول سمگل ہو کر آرہا ہے۔ سب کو معلوم ہے۔ سب مزے سے بیٹھے ہیں۔
سب کر رہے ہیں آہ و فغاں سب مزے میں ہیں
بارڈر ہمارے ساری دنیا کے لیے کھلے ہیں۔ ہم تو وہ لوگ ہیں کہ نادرا جیسے حساس ادارے میں غیر ملکی افراد باقاعدہ ملازمت کرتے پائے گئے۔ ہم مذہب کے نام پر قتل و غارت کرتے ہیں مگر مذہب پر عمل پیرا نہیں ہوتے۔ ہم سے تو یہ فیصلہ نہیں ہو پا رہا کہ حکومت کرنا سیاست دانوں کا کام ہے یا اداروں کا یا ٹیکنوکریٹ صاحبان کا!!
ہسپانیہ میں جب زوال کا زمانہ تھا تو مسلمان حکمران‘ حملہ آور فوج کے کمانڈر کو شطرنج کھیلنے کا چیلنج دیتے تھے۔ بھارت چاند پر پہنچ گیا ہے تو کیا ہوا‘ ہمارا اس کا اصل مقابلہ کرکٹ کے میدان میں ہو گا!