سو سنار کی یا ایک لوہار کی؟؟

آپ کا کیا خیال ہے بجلی کا موجودہ ہولناک بحران طالبان کی حکومت کو پیش آتا تو طالبان کیا کرتے ؟
یقیناآپ اس سوال پر چونک پڑے ہیں کہ طالبان ہی کا ذکر کیوں؟ یہ لکھنے والا کبھی بھی طالبان کا فَین‘ یا عقیدت مند نہیں رہا۔ ہمیشہ تنقید ہی کی! خواتین کے حوالے سے ان کا جو رویہ ہے اس کا اسلامی احکام سے کوئی تعلق نہیں! اس لحاظ سے طالبان کی پالیسی میں تضاد ہے۔ اپنی خواتین کا علاج وہ مرد ڈاکٹروں سے کبھی نہیں کرائیں گے۔دوسری طرف لڑکیوں کو پرائمری سے آگے پڑھنے نہیں دے رہے۔ چلیے! یہ تو ان کا اپنا مسئلہ ہے۔ پاکستان کے نقطہ نظر سے پاکستانی حکومت اور پاکستانی عوام کو ان سے جو شکوہ ہے اس کا اظہار ہمارے حکمران کئی بار کر چکے ہیں۔ افغانستان کی زمین پاکستان میں دہشت گردی پھیلانے کے لیے استعمال ہو رہی ہے! اور مسلسل ہو رہی ہے! ہم مسلسل نقصان اٹھا رہے ہیں!
تو پھر بجلی کے دہشت انگیز بحران کے سلسلے میں طالبان کا ذکر کیوں کر دیا؟ اس کی وجہ ایک خبر ہے۔ طالبان حکومت نے افغانستان میں ڈاکٹروں کی فیسوں کی حد مقرر کر دی ہے۔ سپیشلسٹ ڈاکٹر‘ پروفیسر ڈاکٹر‘ عام ایم بی بی ایس ڈاکٹر‘ ہر ایک کی فیس کا تعین کر دیا گیا ہے۔ خلاف ورزی کی صورت میں کلینک سیل کر دیا جائے گا۔ سفارش کا سوال اس لیے نہیں ہو گا کہ اپیل کرنے کی اجازت ہی نہیں دی جائے گی۔ یہ ہے ریاست کا فرض! کہ جب عوام کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہو تو ریاست اپنا کردار ادا کرے ! پاکستان میں ڈاکٹر حضرات کی فیسیں آسمان کو چھُو رہی ہیں۔ ریاست صماٌ بُکماٌ‘ ٹکر ٹکر دیکھ رہی ہے اور یوں بے نیاز بیٹھی ہے جیسے پاکستانی عوام مقامی ہیں اور ریاست ولایتی! کہاں ہے ریاست ؟ سمگلنگ زوروں پر ہے۔ ڈالر سرحد پار بھیجے جا رہے ہیں۔ایرانی تیل کی ریل پیل ہے۔ بجلی اربوں کی چوری ہو رہی ہے۔ ریاست کہاں ہے؟ سو رہی ہے ؟ یا وجود ہی کھو بیٹھی ہے ؟
بجلی کا موجودہ درد ناک بحران طالبان کی حکومت کو پیش آتا تو طالبان تین ایکشن لیتے اور فوراً لیتے! سب سے پہلے طالبان کی حکومت‘ بیک جنبشِ قلم‘ مفت‘ یعنی اعزازی بجلی کی سہولت ختم کرتی۔ عدلیہ ہوتی یا ادارے یا بجلی کے محکمے‘ اس حکم کا اطلاق سب پر‘ کسی استثنا کے بغیر‘ ہوتا۔ دوسرا ایکشن یہ ہوتا کہ بجلی چوری کرنے والوں کو سر عام پھانسی دی جاتی! اس سزا کے بغیر ان چوروں ڈاکوؤں نے باز بھی نہیں آنا تھا! تیسرا قدم وہ یہ اٹھاتے کہ بجلی پیدا کرنے والے نجی اداروں ( آئی پی پی) کو طلب کرتے اور ان کے ساتھ کئے گئے معاہدوں پر فوراً نظر ثانی کرتے اور کرواتے! یہ ہیں حل بجلی کے بحران کے! سعودی عرب کی یا ایران کی حکومت ہوتی تو وہ بھی یہی اقدامات کرتی۔ اس طرح کے بحرانوں میں سو سنار کی نہیں‘ ایک لوہار کی درکار ہوتی ہے! آپ کا کیا خیال ہے پاکستانی حکومت‘ جو بھی ہو‘ ان اقدامات کی اہلیت رکھتی ہے ؟ جس ملک میں قاتل چھوٹ جاتے ہوں اور فریق ثانی کو سنے بغیر امتناعی احکام تھوک کے حساب سے جاری ہوتے ہوں‘ وہاں بجلی چورکو کون ہاتھ لگائے گا۔ اندازہ لگائیے ! لوگ خون کے آنسو رو رہے ہیں۔ لہو تھوک رہے ہیں‘ مگرکوئی بجلی چور نہیں پکڑا گیا۔ اور نہ پکڑا جائے گا۔ کسی کی مفت بجلی تا دم تحریر بند نہیں کی گئی!لوگ طالبان حکومت کی مثال نہ دیں تو کیا کریں !عوام توقع کر رہے تھے کہ کم از کم عدلیہ اپنی مفت بجلی خود ختم کرے گی مگر۔
خواب جھوٹے خواب میرے خواب تیرے خواب بھی
اس صورتحال میں‘ جب عوام جاں بہ لب ہیں‘ نام نہاد لیڈروں کا رویّہ دیکھیے۔ لندن میں نواز شریف صاحب سے کسی صحافی نے پوچھا کہ پٹرول اور مہنگائی پر پاکستان میں تاجروں نے ہڑتال کی ہے‘ اس پر آپ کچھ کہیں گے؟
اوّل تو ایسا سوال پوچھنے والے صحافی پر ماں صدقے ! ارے بھائی! میاں صاحب کئی برسوں سے لندن میں ہیں۔جب اقتدار میں تھے تو اوسطاً ہر دو‘ پونے دو‘ ماہ بعد لندن کا دورہ کرتے تھے۔ عیدیں بھی وہیں مناتے تھے۔ صاحبزادگان کو بھی وہیں مستقل مقیم کرا دیا ہے۔ انہیں اس سے کیا کہ پاکستان میں کیا ہو رہا ہے؟ کون ہڑتال کر رہا ہے اور کون نہیں کر رہا ؟ مہنگائی کتنی ہے؟ صحافی کو صرف ایک سوال پوچھنا چاہیے تھا کہ آپ پاکستان کیوں نہیں آرہے؟ کم از کم ایک ہی وجہ بتا دیں! چلیے! صحافی نے پوچھ لیا کہ پٹرول اور مہنگائی پر پاکستان میں تاجروں نے ہڑتال کی ہے‘ اس پر آپ کچھ کہیں گے؟ اب جگر تھام کر بیٹھیے اور میاں صاحب کا جواب سنیے۔ ممکن ہو تو پانی اپنے پاس رکھ لیجیے کہ جواب سن کو آپ کو یقینا پانی کا سہارا لینا پڑے گا۔ میاں صاحب نے جواب میں فرمایا کہ مناسب وقت آنے پر ضرور بتاؤں گا ! یعنی ہڑتال اب ہو رہی ہے۔ میاں صاحب اس پر اظہارِ خیال مستقبل میں فرمائیں گے! کسی نے کہا تھا :
گر ہمین مکتب و ہمین مُلّا
کارِ طفلان تمام خواہد شُد
یہی سکول رہا اور یہی استاد‘ تو بچوں کا خدا ہی حافظ! یہی ہمارے لیڈر رہے تو عوام کا خدا ہی حافظ! ایک نگران وزیر صاحب کا حکمت سے بھرا ہوا بیان سنیے۔ فرمایا ہے کہ پی آئی اے اور سٹیل مل بند نہیں کر سکتے کہ لاکھوں کا روزگار ان سے وابستہ ہے! اوّل تو یہ دونوں ادارے‘ بیان دینے والے وزیر صاحب کے قلمدان کی زد ہی میں نہیں! دوسرے کیا ان اداروں کا مقصد لوگوں کو روز گار فراہم کرنا تھا؟ ہر سال اربوں روپے ان سفید ہاتھیوں پر لٹانے کے بجائے ایک ہی بار کڑوا گھونٹ بھریے اور ملازمین کو گولڈن ہینڈ شیک دے کر فارغ کیجیے۔فرض کیجیے یہ ناکام ادارے کسی حکومتی شخصیت کی ذاتی ملکیت میں ہوتے تو کیا نقصان میں جانے کے باوجود صرف اس لیے بند نہ کرتے کہ لوگوں کا روزگار وابستہ ہے؟ یہ ادارے عوام کے ہیں۔ عوام کو ان سے حاصل کچھ نہیں ہو رہا مگر عوام کی جیبوں سے ہر سال اربوں روپے نکال کر مسلسل نقصان میں جانے والے ان سفید ہاتھیوں کا خسارہ پورا کیا جا رہا ہے! اگر یہ ظلم نہیں تو کیا ہے؟
ہمارے بہت پرانے دوست جناب انیق احمد ان دنوں نگران وفاقی وزیر برائے مذہبی امور ہیں۔ سالہا سال مختلف چینلوں پر مذہبی پروگرام کامیابی سے کرتے رہے ہیں۔ علماء کرام سے عالمانہ سطح کی گفتگو کرنا‘ اور مختلف مسالک کے درمیان توازن قائم رکھنا ایسے ہے جیسے تنی ہوئی رسی پر چلنا مگر ایسا کرنا اور کامیابی کے ساتھ احسن طریقے سے کرنا انہی کا حصہ ہے۔ ان کا اپنا مذہبی علم بھی وسیع ہے۔ دل میں اُتر جانے والے انداز سے تلاوت کرتے ہیں۔ موجودہ کابینہ کے اجلاس انہی کی تلاوت سے شروع ہوتے ہیں۔ ایک پیار ان کا اور میرا مشترک ہے اور وہ ہے جون ایلیا سے اور ان کی شاعری سے پیار ! انیق احمد جون ایلیا کے قریبی دوستوں میں شمار ہوتے ہیں ! کراچی کے ایک معروف مدرسہ کا دورہ کرتے ہوئے انیق احمد نے بجا طور پر کہا ہے کہ دینی اثاثوں کو مدارس نے محفوظ کر رکھا ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہہ دیا کہ '' کاش سپین میں مدارس قائم ہوتے تو دین کے ساتھ اور مسلمانوں کے ساتھ وہ سلوک نہ ہوتا جو ہوا!‘‘
سخن شناس نہ ای دلبرا! خطا اینجاست
سپین جو مسلمانوں کے عہد میں تمام علوم و فنون کا مرکز تھا‘ یقینامدرسوں سے محروم نہ تھا۔ فقہ کے مالکی مکتبِ فکر کا مسلم ہسپانیہ گڑھ تھا۔ شمالی افریقہ ہمیشہ سے مالکی فقہ کا پیرو کار رہا ہے۔ بالخصوس مراکش! اور اندلس مراکش ہی کی ایک لحاظ سے توسیع تھا۔ یہ ناممکن ہے کہ مسلم ہسپانیہ میں مدارس نہ تھے۔ مگر پاکستان میں تو مدارس کسی بھی دوسرے مسلم ملک سے زیادہ ہیں ! پھر ہمارا حال کیوں ابتر‘ قابلِ رحم اور عبرتناک ہے ؟؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں