کہیے ! سر گھوما کہ نہیں ؟

سر گھوم رہا ہے! جوش ملیح آبادی کی رباعی یاد آرہی ہے:
سر گھوم رہا ہے ناؤ کھیتے کھیتے
اپنے کو فریبِ عیش دیتے دیتے
اف جُہدِ حیات! تھک گیا ہوں معبود
دم ٹوٹ چکا ہے سانس لیتے لیتے
سر اس لیے نہیں گھوم رہا کہ ضعفِ دماغ ہے یا کوئی اور عارضہ! یہ ملکی خبریں ہیں جنہیں پڑھ کر‘ اور سُن کر‘ سر گھوم جاتا ہے! کاش! کوئی ایسی صورت ہوتی کہ اخبار‘ ٹی وی‘ سوشل میڈیا کا خاتمہ بالخیر ہو جاتا اور زندگی خوشگوار ہو جاتی!ویرانہ ہی کیوں نہ ہوتا! غالب کی زندگی بھی اسی حسرت میں کٹ گئی :
رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو
ہم سخن کوئی نہ ہو اور ہم زباں کوئی نہ ہو
بے درو دیوار سا اک گھر بنایا چاہیے
کوئی ہمسایہ نہ ہو اور پاسباں کوئی نہ ہو
پڑیے گر بیمار تو کوئی نہ ہو تیماردار
اور اگر مر جائیے تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو
ایسا بھی نہیں کہ ایک دن میں بجلی گرانے والی خبر ایک ہی ہو۔ شاید ہی کوئی ایسا دن ہو جب اضطراب اور تشویش پیدا کرنے والی خبریں نصف درجن سے کم ہوں! مشرق وسطیٰ کی طاقتور ترین شخصیت نے بھارتی حکومت کے ساتھ پچاس معاہدے کیے ہیں۔ بھارت میں سو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی جائے گی۔ اس کے لیے ٹاسک فورس بنا دی گئی ہے۔ تاریخ نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ '' امت‘‘کا تصور صرف اور صرف روحانی ہے اور امت کا یہ روحانی اتحاد صرف اور صرف حج کے موقع پر حقیقت کا روپ دھارتا ہے۔ وہ جو اقبال کا شعر زبان زدِ خاص و عام ہے :
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاکِ کاشغر
اس پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اس میں مسلم اتحاد کا حوالہ حرم کی پاسبانی کے لیے آیا ہے‘ ایک دوسرے کی مدد کرنے کے لیے نہیں! ابھی تو اس خبر کی روشنائی بھی خشک نہیں ہو پائی کہ ایک ہندو استانی نے مسلمان بچے کو پوری کلاس سے تھپڑ رسید کروائے۔ بھارت میں مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ کر دیا گیاہے۔ مودی حکومت آر ایس ایس کے تعصب کو عملی جامہ پہنا رہی ہے۔ آئے دن مسلمانوں کا قتل عام ہوتا ہے۔ ان کے گھر جلا ئے جاتے ہیں۔ ان کے کاروبار تباہ کیے جا رہے ہیں۔ مگر جنہوں نے ان کے لیے آواز اٹھانا تھی وہ بھارت کے ساتھ معانقے اور معاہدے کر رہے ہیں اور اسرائیل کا وفد پہلی بار‘ کھلم کھلا‘ سعودی عرب میں آچکا ہے۔
اگر ابھی تک آپ کا سر نہیں گھوما تو کسی خوش فہمی میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں۔ کیا آپ نے کسی ایسے شخص کے بارے میں سنا ہے جو اپنے گرتے ہوئے کاروبار پر مزید سرمایہ لگاتا جا رہا تھا اور نقصان مسلسل بڑھ رہا تھا۔ یقینا نہیں سنا ہو گا۔ مگر حکومتِ پاکستان پی آئی اے کے اندھے کنویں میں مسلسل روپیہ ڈال رہی ہے اور ڈالے جا رہی ہے۔ سعدی نے ایک احمق شخص کے بارے میں کہا تھا:
یکی بر سرِ شاخ و بُن می برید
وہ احمق جس ٹہنی پر بیٹھا تھا‘ اسی کو جڑ سے کاٹ رہا تھا۔ ایک ہی دن کی دو خبریں ملاحظہ کیجیے۔پی آئی اے مسلسل خسارے میں جا رہی ہے۔ کُل طیارے تیس ہیں یا شاید اکتیس! ان میں سے پندرہ جہاز‘ یعنی پچاس فیصد‘ غیر فعال حالت میں پڑے ہیں۔ گنجی کے پاس تھا ہی کیا کہ نہاتی اور نچوڑتی! ایک طرف یہ حالت ہے اور دوسری طرف وزارتِ خزانہ نے پی آئی اے کو حکومت کی طرف سے مالی مدد فراہم نہ کرنے کی خبروں کو بے بنیاد قرار دیا۔ یعنی حکومت اس سفید ہاتھی پر عوام کی کمائی لٹاتی ہی رہے گی۔ اندھا بھی دیکھ رہا ہے اور بچہ بھی سمجھ رہا ہے کہ قومی ایئر لائن اب قومی ہے نہ ایئر لائن! خسارہ در خسارہ ہے اور فقط بوجھ! علاج ایک ہی ہے کہ اسے نجی شعبے کے حوالے کر دیا جائے جیسا کہ بھارت نے حال ہی میں ایئر انڈیا نجی شعبے کو بیچ دی ہے‘ مگر نصف درجن کے قریب یونینیں اس گائے کو بیچنے نہیں دے رہیں اس لیے کہ گائے دودھ تو مدت سے نہیں دے رہی‘ یونینیں اس کے خون کا آخری قطرہ بھی پینے کے درپے ہیں!کبھی دنیا میں ایسا بھی ہوا ہے کہ تیس میں سے پندرہ جہازوں کے گردے‘ انتڑیاں اور پھیپھڑے ناکارہ ہوں مگر ہزاروں ملازم ان جہازوں کے نام پر ادارے سے تنخواہ لے رہے ہوں! ملازمین کی تعداد‘ فی جہاز‘ ہماری ایئر لائن کی دنیا میں سب سے زیادہ ہے! اور حال یہ ہے کہ اب تو خود پاکستانی بھی اس ایئر لائن سے گریز کرتے ہیں! یہی طور اطوار رہے تو وہ دن دور نہیں جب‘ خدا نخواستہ‘ جہاز ایک بھی نہ ہو گا اور ملازمین کی تعداد اور مراعات پہلے سے زیادہ ہوں گی!
آپ نے وہ قصہ ضرور سنا ہو گا جس میں چند افراد ایک ریستوران میں کھانا کھاتے ہیں۔ بل دینے کا وقت آتا ہے تو سب ایک ایک کر کے کھسک جاتے ہیں! شریف فیملی بالکل اسی ایکٹ کا تماشا دکھا رہی ہے۔ بڑے میاں صاحب تو لندن میں پہلے سے موجود ہیں اور کئی برسوں سے مقیم ہیں۔ ان کا زبردست معیارِ زندگی شاہِ برطانیہ کو حسد کی آگ میں جلا رہا ہے۔ برادرِ خورد‘ شہباز شریف صاحب بھی حکومت ختم کرتے ہی ان کے پاس پہنچ گئے۔ لگتا ہے کہ بڑے بھائی نے چھوٹے بھائی کو آخر کار قائل کر ہی لیا کہ '' میاں! پاکستان صرف حکومت کرنے کے لیے ہے۔ حکومت نہ ہو تو لندن ہی میں رہو جیسا کہ میں ایک عرصہ سے کر رہا ہوں‘‘۔ نہلے پر دہلا یہ ہوا ہے کہ حمزہ شہباز صاحب بھی لندن پہنچ گئے ہیں اور ستمبر کا مہینہ‘ خبر کی رُو سے‘ لندن ہی میں گزاریں گے! سنا ہے مونس الٰہی بھی ہسپانیہ سے‘ جہاں وہ مقیم ہیں‘ لندن آتے رہتے ہیں! عوام کو ہر تیسرے دن کہہ دیا جاتا ہے کہ استقبال کی تیاریاں کرو مگر لیڈر ہیں کہ لندن چھوڑنا نہیں چاہتے! اصل بات یہ ہے کہ یہ حضرات صرف پاکستانی عوام کی خاطر اور صرف پاکستانی عوام کے غم میں لندن میں مقیم ہیں! اب تو اسحاق ڈار صاحب کا نام بھی لندن کے عشاق میں شمار کیجیے۔اکثر و بیشتر وہیں پائے جاتے ہیں! اس صدی کادلچسپ ترین بیان بھی کل پرسوں اسحاق ڈار صاحب ہی نے دیا ہے بلکہ داغا ہے! فرماتے ہیں ''دنیا کے کچھ ممالک اس بات سے خوف زدہ تھے کہ میں ڈا لر کو دو سو تک لے آؤں گا‘‘۔ یا وحشت! یا وحشت! تو پھر کیوں نہ لے آئے دو سو تک آپ ؟ کیا امر مانع تھا؟ کاش عدالتِ عالیہ ازخود نوٹس لے اور ڈار صاحب کو طلب کر کے پوچھے کہ یہ کون سے ممالک تھے جو تھر تھر کانپ رہے تھے! اور جن کا ڈر ختم کرنے کے لیے آپ ڈالر کو دو سو تک نہیں لائے!
اگر ابھی تک آپ کا سر نہیں گھوما تو اس کا مطلب ہے آپ سخت جان واقع ہوئے ہیں! مگر میں بھی ایک اکھڑ اعوان ہوں! دھُن کا پکا! جو بات اب بتانے لگا ہوں اس سے آپ کا سر تو یقینا گھومے گا‘ خدشہ ہے آپ گر نہ پڑیں! یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ نگران حکومت مکمل غیر جانبدار ہے! جی ہاں! مکمل غیر جانبدار! مگر آپ یہ نہیں جانتے کہ اس غیر جانبداری پر مُہرِ تصدیق بھی ثبت کر دی گئی ہے! شریف برادران کے دستِ راست فواد حسن فواد صاحب کو بھی بطور وزیر وفاقی کابینہ میں شامل کر لیا گیا ہے! کہیے! سر گھوما کہ نہیں ؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں