ڈیڑھ سالہ بچے نے مجھے تین دن اضطراب میں رکھا!
یہ '' جوان‘‘ میری چھوٹی بیٹی کا لختِ جگر ہے! چھت کے نیچے رہنا اسے قطعاً پسند نہیں! صحن اس کی پسندیدہ جگہ ہے! صبح بیدار ہونے کے بعد پہلا مطالبہ یہ ہوتا ہے کہ اسے باہر لے جایا جائے۔شاید روح کی گہرائی میں نانا کا دیہاتی پن چھپا ہے! کہاں گرما کی شامیں اور راتیں جو کھلے صحنوں میں گزرتی تھیں اور سرما کی دوپہریں ‘جب سنہری دھوپ زمین پر قالین کی طرح بچھی ہوتی تھی اور اس حرارت کے عوض کوئی بِل آتا تھا نہ کنکشن کاٹے جانے کا نوٹس! عربی مقولے کے مطابق ہر شے اپنے اصل کو لوٹتی ہے! شاید اسی لیے وہ ڈربے میں چلتی پھرتی‘ پانی پیتی‘ مرغیوں اور بطخوں سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ پودوں اور درختوں کے پتوں کو دلچسپی سے دیکھتا ہے۔ پھول توڑ کر دیں تو پہلے خود سونگھتا ہے پھر اسے میری ناک کے پاس لاتا ہے۔
جس دن کی بات کر رہا ہوں اس دن صبح کا وقت تھا۔ مجھے جانا تھا۔ میں گاڑی میں بیٹھ گیا۔ اس کی ماں ‘ اسے اٹھائے‘ گاڑی کے باہر کھڑی تھی۔ اس نے جب دیکھا کہ نانا گاڑی میں بیٹھ کر جا رہے ہیں تو دونوں بازو میری طرف پھیلائے۔ میں نے اسے گود میں بٹھا لیا۔میں اسے ہر روز گاڑی میں بٹھا کر ارد گرد کی گلیوں کا ایک چکر لگواتا ہوں۔ وہ یہی سمجھا کہ ابھی‘ روز کی طرح‘ گاڑی میں بٹھا کر سیر کراؤں گا۔مگر میں جلدی میں تھا۔ گود میں بٹھانے کے چند ثانیے بعد ہی میں نے بیٹی سے کہا کہ اسے اٹھا لیجیے کہ مجھے جانا ہے۔ اس کی ماں اسے اٹھانے لگی تو اس نے مدافعت کی۔مدافعت کیا تھی! ننھی ننھی ٹانگوں اور بازؤوں کے ساتھ اس نے اپنی سی کوشش کی کہ گاڑی سے باہر نہ جائے۔ مگر آخر کار ماں نے اٹھا لیا۔ اس نے مجھے عجیب نظروں سے دیکھا۔ اس کے معصوم چہرے پر میری بے وفائی صاف دکھائی دے رہی تھی۔ میں نے ڈرائیور سے چلنے کو کہا۔
راستے میں میں کچھ ضروری کاغذات دیکھتا رہا۔ ایک دو کام نمٹائے اور اپنے گھر کو لوٹ گیا۔ ایک احساسِ جرم لاحق ہو رہا تھا۔ آتے ہوئے اس کے چہرے کے تاثرات ذہن سے ہٹ نہیں رہے تھے۔ اس کے ننھے سے دل پر کیا گزری ہو گی؟
بیگم نے خاموشی کا سبب پوچھا تو میں نے سارا ماجرا بیان کیا۔ انہوں نے بس اتنا کہا کہ رستم آپ پر بہت زیادہ اعتماد کرتا ہے! اس بات نے مجھے مزید سوچنے پر مجبور کیا۔ اس اعتماد کو ہم مان ہی تو کہتے ہیں۔ ہم کسی قابلِ اعتماد شخص کو کہتے ہیں کہ مجھے آپ پر مان ہے۔ یا آپ ہمارا مان ہیں۔ یا اظہارِ افسوس کرتے ہیں کہ فلاں نے میرا مان توڑ دیا۔ ننھے رستم کو بھی مجھ پر مان ہے۔ اندھا اعتماد ہے۔ جب بھی روتا ہوا میرے پاس آتا ہے میں فوراً اسے وہ چیز دیتا ہوں جو اس کی ماں نہیں دے رہی تھی۔ جب بھی اپنی توتلی ‘ نہ سمجھ میں آنے والی زبان سے سمجھاتا کہ باہر صحن میں جانا ہے تو میں سارے کام چھوڑ کر اسے باہر لے جاتا ہوں۔یوں میں اس کی نظروں میں اس کا ایک ایسادوست یا اتحادی بن گیا ہوں جو ہر حال میں اس کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے۔ مگر آتے ہوئے جس طرح میں نے اسے گود سے‘ اور گاڑی سے باہر بھیجا اور پھر جن نظروں سے وہ مجھے دیکھ رہا تھا‘یہ سب بہت پریشان کن تھا۔ اس کا مان‘ اس کا اعتماد ٹوٹ گیا۔
دوسرے دن میرا ارادہ رستم کے پاس جانے کا تھا مگر کچھ مہمانوں نے آنا تھا۔ اس مصروفیت میں سہ پہر ہو گئی۔شام کو ڈینٹل سرجن کے پاس جانا تھا۔ نہ جاتا تو اگلی ملاقات کا وقت اس نے کئی دن بعد دینا تھا۔ پھر شام اور پھر رات آگئی۔ رستم کا حیرت زدہ چہرا ‘ نیند آنے تک‘ کئی بار آنکھوں کے سامنے آیا۔ یہ انسانی نفسیات ہے کہ ہم جن پر اندھا اعتماد کرتے ہیں اور یقین ہوتا ہے کہ وہ کسی بھی معاملے میں ہمارا ساتھ نہیں چھوڑیں گے‘ ان کی طرف سے غیر متوقع سلوک شدید صدمے کا باعث بنتا ہے۔ میں نے اپنی سب سے بڑی نواسی‘ زینب کو‘ جو اب ماشاء اللہ ‘ کالج میں داخل ہو رہی ہے‘ جب اس کی زندگی میں پہلی بار ڈانٹا اور بہت زیادہ ڈانٹا تو چند دنوں بعد اس کی ماں کا فون آیا جس میں میرے لیے سبق تھا۔ اس نے کہا '' ابو! وہ جب سے پیدا ہوئی ہے اس نے آپ کا صرف اور صرف پیار دیکھا ہے۔ آپ کے ڈانٹنے کے بعد وہ صدمے میں ہے اور عجیب سی کیفیت میں ہے۔ آپ ذرا اس سے بات کر لیجیے تاکہ اسے آپ کے پیار کی یقین دہانی ہو جائے‘‘۔ اصل واقعہ کی طرف لوٹتے ہیں۔ اس سے اگلا دن بھی گھر کے کاموں میں گزر گیا۔ چھت کی مرمت کا کچھ کام تھا۔ مزدوروں کے ساتھ سر کھپائی رہی۔ تیسرے دن جانا ہوا۔ مجھے دیکھ کر رستم نے بازو وا کیے۔ اسے گود میں لیے‘ گاڑی میں بیٹھا اور ڈرائیور سے کہا کہ سیر کراؤ۔ ارد گرد کی گلیوں کے چکر لگائے۔ وہ بہت خوش تھا۔ کبھی مجھ سے لپٹتا کبھی دونوں ہاتھوں سے تالی پیٹتا۔ خدا خدا کر کے میرا احساسِ جرم ختم ہوا۔
ہمیں اپنا ڈپریشن ‘ اپنی اداسی‘ اپنی مایوسی اور اپنی پریشانی بہت زیادہ نظر آتی ہے۔ بیوی یا ماں باپ ناخوش ہوں تو اس کا بھی فوراً احساس ہو جاتا ہے۔ جہاں کام کرتے ہیں وہاں بھی کوشش ہوتی ہے کہ اوپر والوں ‘ نیچے والوں اور اپنے برابر والوں کے ساتھ تعلقات اچھے رہیں اور ماحول خوشگوار رہے۔ مگر بہت بڑا المیہ ہے کہ یہ احتیاط بچوں کے معاملے میں نہیں ہوتی۔ بچہ ڈیڑھ سال کا ہو یا دس سال کا‘ اپنی پریشانی نہیں بتا سکتا۔اگر وہ ٹینشن میں ہے تو ہم اس سے بے نیاز ہوتے ہیں۔ ہم میں سے کتنے ہیں جو بچے کو بتانے یا سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ آج باہر لے جانے کا وعدہ نہیں پورا کر سکتے اور یہ کہ کیا مجبوری ہے۔جب بچہ یاد دلاتا ہے کہ آج کا تو یہ پروگرام طے تھا تو ہم کندھے اچکا کر کہہ دیتے ہیں کہ آج نہیں جا سکتے ! یہ بھی ممکن ہے کہ یہ وعدہ خلافی اور یہ عدم توجہی بچے کو ساری زندگی یاد رہے۔کبھی ہم اپنے بچے کے سامنے کسی دوسرے بچے پر‘ بھانجی یا بھتیجی پر‘ زیادہ توجہ دیتے ہیں۔ بچے کو محسوس ہوتا ہے کہ اسے نظر انداز کیا جا رہا ہے۔یوں اسے دوسرے بچے سے نفرت ہو جاتی ہے جو جلد ختم نہیں ہوتی !
ہم‘ مجموعی طور پر‘ نفسیات سے ناواقف قوم ہیں! جس بچے کے بارے میں ہم سمجھتے ہیں کہ اونہہ ! اسے کیا پتہ ! یہ تو بہت چھوٹا ہے! اس بچے کے دماغ میں قدرت نے ویسا ہی طاقتور اور ویسا ہی محیر العقول کمپیوٹر نصب کیا ہوا ہے جو ہمارے دماغ میں لگا ہے۔جو کچھ آپ اس کے سامنے کر رہے ہیں یا کہہ رہے ہیں ‘ وہ اسے زندگی بھر یاد رکھے گا۔ اگر اسے کہا جا رہا ہے کہ باہر جا کہہ دو کہ ابا گھر پر نہیں ہیں تو آپ نے اسے دو ایسے سبق دیے ہیں جو اس کے ذہن پر ہمیشہ کے لیے نقش ہو گئے ہیں۔ ایک یہ کہ ابا جھوٹ بولتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ جھوٹ بولنا کوئی بڑی یا بُری بات نہیں !! کیا زمانہ تھا کہ لوگ یتیم بچے کے سامنے ‘ اپنے بچے سے پیار نہیں کرتے تھے کہ اسے باپ کے نہ ہونے کا احساس نہ ہو! آج وہ زمانہ ہے کہ دوسروں کے بچے تو دوسروں کے بچے ہیں‘ اپنے بچوں کی اُداسی‘ ٹینشن اور سراسیمگی کی بھی فکر نہیں! جس افرا تفری اور نفسا نفسی کے دور کی پیش گوئیاں کی گئی تھیں وہ دور شاید یہی ہے جس میں ہم سانس لے رہے ہیں!