آج سے کئی برس پہلے ایک رات مانچسٹر میں ٹھہرنا ہوا تھا۔ اپنے پاکستانی میزبان سے پوچھا کہ پاکستانی تارکینِ وطن کی اگلی نسل کس حال میں ہے؟ کیونکہ ان نوجوانوں کے ماں باپ تو پاکستان سے خالی ہاتھ آئے تھے۔ محنت کی‘ مشقت برداشت کی‘ کبھی چٹنی کے ساتھ روٹی کھائی کبھی چائے کے ساتھ! یہاں تک کہ اللہ نے ان پر کرم کیا۔ آسودگی در آئی۔ خوشحال ہوئے۔ اب ان کے بیٹے بیٹیاں تو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوں گے‘ وکیل ہوں گے‘ صحافت میں نام کما رہے ہوں گے‘ کئی پی ایچ ڈی کر کے یونیورسٹیوں میں پڑھا رہے ہوں گے‘ کئی ڈاکٹر اور سپیشلسٹ بن گئے ہوں گے! لیکن میرے میزبان کا جواب قطعاًحوصلہ افزا نہیں تھا۔ انہوں نے بتایا کہ بھارتی نژاد نوجوان بہت آگے نکل چکے ہیں۔ایک بات جو انہوں نے کہی آج تک ذہن پر کَندہ ہے کہ بہت سے پاکستانی نوجوان اتوار بازاروں میں ٹھیلے ( یعنی ریڑھیاں ) لگاتے ہیں!
پھر ایک اور چیز نوٹ کی۔ برطانیہ‘ ہسپانیہ اور دوسرے ملکوں کے پاکستانی تارکین ِوطن کیلئے خصوصی ٹی وی چینل چل رہے تھے۔ ان چینلوں پر تعویذ گنڈوں کا کاروبار عام تھا۔ جادو ٹونے کے پروگرام چلائے جاتے تھے۔ ایک بار یہ بھی دیکھا کہ دوپٹے کو ماپنے کی ہدایت دی جا رہی تھی کہ پہلے سے زیادہ نکلا تو جادو کا حملہ ہو چکا ہے۔ نہیں معلوم یہ چینل آج بھی چل رہے ہیں یا نہیں۔ برطانیہ کے بارے میں یہ حقیقت سب کو معلوم ہے کہ پیری مریدی کا دھندا وہاں زوروں پر ہے۔ درآمد شدہ گدی نشینوں کی بہتات ہے۔ پاکستان سے جانے والے‘ یا لے جائے جانے والے علما مسلکی بنیادوں پر فرقہ واریت بھی ساتھ ہی لے کر گئے ہیں!
یہ موضوع چھیڑنے کا سبب ایک دردناک خبر ہے۔ برطانوی حکومت نے سروے کیا ہے کہ برطانیہ میں سب سے کم پڑھے لکھے نوجوان کس کس پس منظر سے ہیں! یہ اعداد و شمار ان نوجوانوں پر محیط ہیں جو سولہ سال سے لے کر چوبیس سال تک کے ہیں۔ خدا نظرِ بد سے بچائے‘ سب سے کم تعلیم یافتہ نوجوانوں میں پاکستان نژاد سب سے زیادہ ہیں۔بے روزگار نوجوان بھی پاکستان نژاد سب سے زیادہ ہیں! بنگلہ دیشی‘ برطانوی سفید فام‘سیاہ فام اور دیگر سب‘ پاکستان نژادوں سے کم ہیں۔ مگر ٹھہریے! خبر کا زیادہ دردناک حصہ رہتا ہے۔ تعلیم و تربیت اور روزگار سے محروم نوجوانوں میں سب سے کم تعداد چین نژاد اور بھارت نژاد نوجوانوں کی ہے۔ دوسرے لفظوں میں اس کا مطلب یہ ہے کہ چین اور بھارت سے تعلق رکھنے والے نوجوان تعلیم و تربیت اور روزگار سے فائدہ اٹھانے میں سب سے آگے ہیں!!
کیا برطانیہ کے پاکستان نژادوں میں اتنا دم خم ہے کہ اس پسماندگی کے اسباب تلاش کر سکیں؟؟ یہ بھی نہیں معلوم کہ وہ ان اعداد و شمار سے آگاہ بھی ہیں یا نہیں؟ اور اگر آگاہ ہیں تو ردِ عمل کتنا سنجیدہ ہو گا۔ ایک بات طے ہے کہ جو مائیں یورپ جا کر بھی جادو ٹونوں کے حوالے سے دوپٹے ماپتی پھرتی ہیں اور تعویز گنڈوں کی تلاش میں رہتی ہیں‘ ان کی اولاد تعلیم و تربیت سے دور ہی رہے گی! اُن پاکستانی علاقوں کے نام لینا مناسب نہیں جن کی بھاری تعداد برطانیہ‘ سپین اور سکینڈے نیویا پر چھائی ہوئی ہے۔ ان پاکستانی علاقوں میں بڑے بڑے محلات کی تعداد کثیر ہے۔ بازاروں میں اور شاہراہوں پر کون سا برانڈ ہے جو دکھائی نہیں دیتا۔ شادیوں والی لمبی لمبی لیموزینیں بھی عام نظر آتی ہیں!! مگر تعلیم؟ تعلیم کا خانہ خالی ہے۔ برطانیہ میں پاکستانی ڈاکٹر بہت ہیں۔ مگر ان میں زیادہ تعداد اُن ڈاکٹروں کی ہے جو ایم بی بی ایس پاکستان سے کر کے جاتے ہیں اور وہاں سپیشلسٹ بنتے ہیں۔ پاکستانی تارکین وطن کے بچوں کی تعداد ڈاکٹروں میں بہت ہی کم ہے۔ سروے کر کے دیکھ لیجیے۔
بھارت نژاد تارکینِ وطن‘ پاکستان نژاد تارکین ِوطن سے آگے کیوں نکل گئے؟ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ بھارتی تارکینِ وطن آگے کی طرف دیکھتے ہیں اور پاکستانی تارکینِ وطن پیچھے کی طرف۔ معاشیات میں دو دلچسپ اصطلاحات ہیں۔ Backward Linkageیعنی عقبی تعلق! اورForward Linkageیعنی آگے کا تعلق۔ اسکی آسان مثال ٹیکسٹائل انڈسٹری ہے۔ اسے کپڑا بنانے کیلئے دھاگے کی ضرورت ہے۔وہ دھاگہ انڈسٹری سے دھاگہ خریدتی ہے۔ یہ عقبی تعلق ہے یعنی Backward Linkage دوسری طرف دھاگہ انڈسٹری دھاگہ بنا کر آگے یعنی ٹیکسٹائل انڈسٹری کو بیچتی ہے۔ یہ Forward Linkageہے۔ ان اصطلاحات کو اگر آپ بھارت نژاد اور پاکستان نژاد تارکین وطن پر منطبق کریں تو آپ کہہ سکتے ہیں کہ پاکستانی عقبی تعلق کے ساتھ بندھے ہوئے ہیں۔ جبکہ بھارتی Forward Linkageپر یقین رکھتے ہیں۔بھارت نژادوں کی بھاری اکثریت بھارت کی اندرونی سیاست سے بے نیاز ہے۔بھارتی اپنے اپنے نئے ملک کی سیاست میں دلچسپی رکھتے ہیں اور حصہ لیتے ہیں۔ میں کئی برسوں سے آسٹریلیا جا رہا ہوں اور کئی کئی ماہ قیام کرتا ہوں۔ پاکستانی تارکینِ وطن کی بڑی تعداد میرے حلقۂ احباب میں شامل ہے۔ ان میں سے صرف دو صاحبان ایسے ہیں جو مقامی سیاست اور مقامی انتخابات میں حصہ لیتے ہیں۔ کئی بار وینکوور جانے کا اتفاق ہوا۔ گنتی کے چند پاکستانی مقامی سیاست میں دلچسپی لیتے ہیں جبکہ وہاں مقیم سکھ برادری مقامی سیاست پر چھائی ہوئی ہے۔ چند سال پہلے کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے واشنگٹن میں کہا تھا کہ ان کی کابینہ میں سکھوں کی تعداد مودی کی کابینہ میں سکھوں کی تعداد سے زیادہ ہے۔ ظاہر ہے کہ مقامی سیاست میں بھرپور دلچسپی لیے بغیر ایسا ممکن نہیں۔ اسکے برعکس پاکستان نژاد تارکین وطن مُڑ مڑ کر پا کستانی سیاست کی طرف دیکھتے ہیں۔ وہ ایک دوسرے کیساتھ پاکستانی سیاست کی بنیاد پر ہی بر سر پیکار ہیں۔ بیرون ملک کے اکثر شہروں میں پاکستان کی سیاسی جماعتوں کی باقاعدہ شاخیں قائم ہیں! افتخار عارف نے کہا ہے :
تمام خانہ بدوشوں میں مشترک ہے یہ بات
سب اپنے اپنے گھروں کو پلٹ کے دیکھتے ہیں
پاکستانیوں کی اکثریت ( سب نہیں ) باہر کے ملکوں میں مقیم ہو کر بھی خانہ بدوش مائنڈ سیٹ سے باہر نہیں نکل رہی۔ بھارتی ہر ممکن طور سے ضم ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ بیرونی کلچر کے کچھ اجزا مسلمانوں کیلئے ممنوع ہیں مگر اصل وجہ پلٹ پلٹ کر پیچھے دیکھنے کا رویّہ ہے۔ جو نعرہ ایک زمانے میں‘ بقول اقبالؔ‘ طارق بن زیاد نے لگایا تھا۔ ہر ملک‘ ملکِ ماست کہ ملکِ خدائی ماست! کہ ہر ملک جو خدا کا ہے‘ ہمارا ملک ہے‘ اُس نعرے پر آج عملاً بھارتی عمل پیرا ہیں! ایک بھارت نژاد برطانیہ کا وزیر اعظم ہے۔ ایک اور بھارت نژد امریکہ کی نائب صدر ہے اور کسی بھی وقت‘ قسمت نے ورق اُلٹا تو‘صدر کی کرسی سنبھال سکتی ہے۔ ایک اور بھارت نژاد‘ آنیوالے امریکی انتخابات میں حصہ لینے کیلئے کوشاں ہے! اس صورتحال کا کریڈٹ بھارتی آئین کو بھی جاتا ہے جس میں ایک بھارتی‘کسی دوسرے ملک کی شہریت حاصل کرنے کے بعد‘ بھارتی شہریت رکھنے کا مجاز نہیں! اسے بھارت میں ووٹ ڈالنے کا حق ہے نہ الیکشن میں حصہ لینے کا! یعنی وہ کشتیاں جلا کر باہر جاتا ہے!!اس کے برعکس پاکستانی افسرشاہی اور سیاست میں بے شمار افراد کے پاس بیرونی شہریت ہے۔ کسی کو نہیں معلوم کہ وہ اپنے پرانے ملک کے وفادار ہیں یا نئے ملک کے۔ اور تو اور‘ایک آئینی پوسٹ پر بھی ایک ایسے صاحب متمکن رہے ہیں جن کے پاس غیر ملکی شہریت تھی! اس الماری کو کھولیں گے تو بہت کچھ باہر نکلے گا! وہ بھی جو بیان کیا جا سکتا ہے اور وہ بھی جو ناقابلِ بیان ہے!! مگر کھولے گا کون؟ قصہ مختصر۔ ہم پاکستان کے اندر بھی بھارت سے پیچھے ہیں اور پاکستان کے باہر بھی!! ہم سب کو ڈھیروں مبارک!!